ہم جس لائحۂ عمل پر برسوں سے کام کر رہے ہیں، اس کے چار میں سے تین اجزا اصلاحِ معاشرہ ہی کی تدابیر پر مشتمل ہیں۔ یہ ہمارا دائمی پروگرام ہے جس پر ہمیں سال کے ۳۶۵ دن کام کرنا ہے، خواہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں۔ اس لیے یہاں اصل بحث یہ نہیں ہے کہ آیا تبدیلیِ قیادت کے لیے اصلاحِ معاشرہ کا کام کیا جائے یا صرف انتخاب لڑے جائیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا اصلاحِ معاشرہ کی یہ ساری کوشش جاری رکھنے کے ساتھ انتخابات میں بھی حصہ لیا جائے یا نہیں؟ ہماری اسکیم یہ ہے کہ یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونے چاہئیں…. [ایک] غلط بات یہ فرض کی گئی ہے کہ انتخاب صرف ووٹ لینے اور دینے کا کام ہے، معاشرے کے بنائو اور بگاڑ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ حالاں کہ دراصل معاشرے کو بنانے اور بگاڑنے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور کوئی ایسا شخص جو ’اصلاحِ معاشرہ‘ کا محض لفظ ہی نہیں بلکہ اس کے معنی بھی جانتا ہو، اُن اثرات کو نظرانداز نہیں کرسکتا، جو انتخابات سے معاشرے پر پڑتے ہیں…. کیوں کہ معاشرے کا ہربالغ شخص اس میں ووٹر ہوتا ہے۔ ان ووٹروں سے اگر روپے کے عوض ووٹ خریدے جائیں، یا طرح طرح کے دبائو ڈال کر، یا لالچ دے کر ان کے ووٹ حاصل کیے جائیں، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے گردوپیش ایک ضمیرفروش، لالچی اور دَبُّو معاشرہ تیار ہورہا ہے، اور ساتھ کے ساتھ اسی معاشرے میں اُن دلالوں، غنڈوں اور بدکردار طالبینِ اقتدار کی تربیت بھی ہورہی ہے، جو اپنی قوم کی اِن اخلاقی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانے والے ہوں۔
دوسری طرف اگر ان ووٹروں سے برادریوں اور قبیلوں اور [علاقوں، نسلوں] کے نام پر بھی ووٹ لیے جائیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے معاشرے کو تنگ نظری، جاہلانہ تعصبات اور افتراق و انتشار کی تربیت بھی دی جارہی ہے،اور اس کے ساتھ آپ ہی کی قوم کے کچھ ذہین اور بااثر عناصر کو یہ تعلیم مل رہی ہے کہ اپنی ذاتی ترقی کے لیے وہ یہ ہتھکنڈے بھی استعمال کریں۔تیسری طرف اگر معاشی مفادات کے نام پر یا کچھ دوسرے لادینی اصولوں اور نظریات کی تبلیغ کرکے بھی ووٹ لیے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پورے معاشرے کو مادہ پرستی ، دنیا پرستی اور لادینی نظریۂ حیات کے حق میں راے دینے کے لیے بھی تیار کیا جارہا ہے۔ ان عناصر کو اس تخریب معاشرہ کے لیے کھلی چھٹی دے دینا اور یہ کہنا کہ ہم تو انتخابات کو چھوڑ کر صرف اصلاحِ معاشرہ کریں گے، آخر کیا معنی رکھتا ہے؟
(’اشارات‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۴۹، عدد۱-۲، محرم، صفر ۱۳۷۷ھ، اکتوبر، نومبر ۱۹۵۷ء، ص ۱۱-۱۲)
صدائے غیب
گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام ہست و بود
ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود
زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام
ہے اسی میں مشکلات زندگانی کی کشود