تالیفاتِ صبیح رحمانی نقد ِنعت کی نئی تشکیل

سید صبیح الدین رحمانی جو صبیح رحمانی کے نام سے معروف ہیں، مملکتِ خداداد پاکستان کے معروف نعت خواں، نعت گو شاعر اور نعتیہ ادب کے محقق و نقاد ہیں۔ وہ نعتیہ ادب کے تحقیقی، تنقیدی اور علمی جریدے ”نعت رنگ“ کے مدیر اور نعت کی تحقیق کے لیے قائم کیے گئے ادارے نعت ریسرچ سینٹر کے بانی اور سیکریٹری جنرل ہیں۔ شعبہ نعت میں آپ کی خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے آپ کو تمغہ امتیاز سے نوازا۔

صبیح رحمانی کو نعتیہ شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا، اردو ادب میں ان کی پہچان بطور نعت گو اور نعت شناس کی ہے۔ ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو عشقِ رسولؐ ہے۔ حضور اکرمؐ سے والہانہ عقیدت و محبت ان کے حرف حرف سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ اُن جدید نعت گو شعرا میں شامل ہیں جن کا تخیل، فکر اور جذبہ و خیال انفرادیت کے حامل ہیں۔ نعتیہ ادب کے حوالے سے ان کی ہر کاوش ان کی وسعتِ مطالعہ اور فکری و فنی ریاضت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نعتیہ شاعری سے شغف کا سبب گھریلو ماحول، عشقِ رسولؐ کا جذبہ اور سیرتِ رسولؐ سے گہری وابستگی ہے۔

ڈاکٹر یحییٰ نشیط ’’تالیفاتِ صبیح رحمانی.. تنقیدی جائزہ“ میں لکھتے ہیں:

”صبیح رحمانی کی ان تالیفات کا فنی اور تنقیدی جائزہ ڈاکٹر طاہرہ انعام نے اپنی کتاب ’’تالیفاتِ صبیح رحمانی.. نقدِ نعت کی نئی تشکیل“ میں لیا ہے۔ پیش گفتار میں انہوں نے ان تالیفات کے تجزیے میں، اپنے تنقیدی شعور کی رو کو کس طرح روبہ عمل لایا گیا ہے“ اجمالاً بیان کردیا ہے۔ مصنفہ نے صبیح رحمانی کے ’’نعت رنگ‘‘ کے اداریوں اور زیرنظر تالیفات کے دیباچوں کی روشنی میں مؤلف کے تنقیدی شعور کو آنکنے کی کوشش کی ہے اور ان ہی ماخذات کو ان کی تنقید کی اساس مان کر صبیح رحمانی کی تالیفات کا جائزہ لیا ہے۔“

اس کتاب کا پہلا مضمون صبیح رحمانی کی مؤلفہ کتاب ’’اردو نعت کی شعری روایت‘‘ کے تنقیدی جائزے پر ہے۔ مؤلف نے اس موضوع کو چار حصوں میں بانٹا ہے: تعریف، تاریخ، رجحانات اور تقاضے۔ چاروں موضوعات کا تجزیہ کرتے ہوئے مصنفہ فرماتی ہیں: ’’اردو نعت گوئی کے رجحانات کا احاطہ کرنے کے لیے تالیفی سرگرمی، تصنیف سے بہتر کردار ادا کرسکتی ہے۔ متنوع تحاریر، متفرق رجحانات کو بہتر انداز میں اجاگر کرسکتی ہیں‘‘۔

صبیح رحمانی کی دوسری مؤلفہ کتاب ’’پاکستانی زبانوں میں نعت: روایت اور ارتقا‘‘ ہے۔ مؤلف خود اس کتاب کے متعلق رقم طراز ہیں: ’’اس کتاب میں بولی جانے والی مختلف زبانوں اور بولیوں میں نعتیہ شاعری کے آغاز و ارتقا کے مراحل کے ساتھ ساتھ ان زبانوں میں عشقِ نبیؐ کی تاریخ کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘‘۔

انہوں نے اس کتاب میں اردو نعت کی شعری روایت (تعریف، تاریخ، رجحانات، تقاضے، پاکستانی زبانوں میں نعت: روایت اور ارتقا، اردو نعت میں تجلیاتِ سیرت، ”غالب اور ثنائے خواجہ“، کلام محسن کاکوروی: ادبی و فکری جہات، کلام رضا: فکری و فنی زاویے، اقبال کی نعت/ فکری و اسلوبیاتی مطالعہ، نعت نگر کا باسی/ ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی کی نعت گوئی و نعت شناسی کا ایک جائزہ، ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعاتِ حمد و نعت، اردو حمد کی شعری روایت جیسی اہم کتابوں کا جائزہ لیا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ انعام نے اس تصنیف کے توسط سے کئی اہم خدمات انجام دی ہیں کہ ان کی دلچسپی اور کوشش سے ایک تو کئی نعت گو شاعر صبیح رحمانی کے توسط سے ہمارے مطالعے میں آرہے ہیں کہ جن سے خود نعت نگاری کے جدید اور نمائندہ رجحانات اور اسالیب اب یکجا ہمارے سامنے موجود ہیں، اور دوسرے ان نعت نگار شاعروں کے تجزیاتی مطالعات کے ذریعے اردو نعت نگاری کی عصری صورتِ حال اور ارتقا سے ہم واقف ہورہے ہیں۔

اس کتاب میں صبیح رحمانی کی تنقیدِ نعت پر لکھی گئی کتابوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ جستہ جستہ مطالعہ بتاتا ہے کہ جائزہ بھی خوب لیا گیا ہے کہ مصنفہ کو جہاں جہاں کسی مضمون نگار سے اختلاف تھا، اس کو فوراً ریکارڈ پر لے آئیں۔ یہ ایک دلیر ناقد کا پہلا قدم ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ انعام کی نثر نے بھی بہت متاثر کیا ہے۔ اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے یہ ایک اہم کتاب ہے۔
خوب صورت سرورق، عمدہ سفید کاغذ پر اغلاط سے پاک کتاب طبع ہوئی ہے۔