مخلوط تعلیم کو ماڈرن طبقہ اپنی تہذیب کا لازمی حصہ سمجھتا ہے۔ مخلوط تعلیم میں اگر اسلامی آداب اور اقدار کا خیال رکھا جائے تو پھر بھی خیر ہے، مگر منچلے لبرل نوجوان تو ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسے لوگوں سے ہمارا مکالمہ بھی ہوجاتا تھا۔ ان میں سے کچھ تو گفتگو معقول انداز میں کرتے اور سنتے تھے` اور کچھ اشتعال میں آجاتے تھے۔ بہرحال نہ وہ اپنی خو بدلنے کے لیے تیار تھے، نہ ہم اپنا خیرخواہی کا فریضہ ترک کرنے کے خوگر تھے۔
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو!
داخلے کے وقت ہمارے کلاس فیلوز اور ہاسٹل فیلوز میں سے اکثر ایک دوسرے سے ناواقف تھے، مگر ایک آدھ ہفتے میں آپس میں خوب تعارف اور باہمی دوستی ہو گئی تھی۔ چند ماہ ایم اے او کالج ہاسٹل میں قیام کے دوران ہاسٹل کی مسجد کے امام صاحب سے بھی راقم الحروف کی اچھی دوستی قائم ہو گئی۔ موصوف مولانا احمد علی لاہوریؒ کے شاگرد اور عقیدت مند تھے اور وسیع الظرف بھی تھے۔ مولانا احمد علی لاہوری کے چھوٹے بیٹے (نام یاد نہیں، شاید حمید اللہ یا حبیب اللہ تھا) جو مولانا عبیداللہ انورؒ کے برادرِ خورد تھے، امام صاحب سے ملنے کے لیے کبھی آتے تو ہمیں بھی ان سے ہاتھ ملانے کا موقع مل جاتا۔
اس دوران ایم اے او کالج کے بعض طلبہ اور اساتذہ سے بھی اچھی واقفیت ہو گئی تھی۔ جنوری 1966ء بمطابق رمضان المبارک 1385ھ میں آدھا رمضان یہاں گزارنے کا موقع ملا۔ تراویح امام صاحب پڑھاتے تھے اور سامع کا فرض میں ادا کرتا تھا۔ امام صاحب بہت پختہ حافظ ِقرآن تھے۔ بقیہ آدھا رمضان جیل میں گزرا اور عید سے ایک روز قبل رہائی ملی۔ عیدالفطر کی تعطیلات کے چند دنوں بعد ہمیں نیوہاسٹل میں رہائش مل گئی۔ ایم اے او کالج ہاسٹل میں میرے روم میٹ شیخ محمد یونس (منڈی بہاء الدین) کے علاوہ کئی اور بھی طالب علم تھے جنھوں نے ایف سی کالج سے انٹرسائنس یا انٹر آرٹس کے بعد جی سی میں گریجویشن کے لیے داخلہ لیا تھا۔ یونس صاحب اور ایک آدھ دیگر طلبہ کا خاندانی پس منظر تحریکی تھا۔ ایف سی کالج میں بھی ان سے اور ان کے علاوہ چند دیگر ہم خیال جمعیتی ساتھیوں سے میرا رابطہ رہا تھا۔
محمد یونس صاحب کے بڑے بھائی شیخ محمد اخلاق منڈی بہاء الدین میں کپڑے کا ہول سیل کاروبار کرتے تھے۔ بعد میں یونس صاحب تعلیم مکمل کرکے ان کے ساتھ اسی کاروبار میں شریک ہوگئے۔ اخلاق صاحب مقامی جماعت اسلامی منڈی شہر اور پھر مختصر عرصے کے لیے ضلع منڈی بہاء الدین کے امیر بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ مرحوم کے بیٹے نوید اور بزرگ عالم دین، بے مثال مصنف اور ولی اللہ شیخ عمر فاروقؒ کی صاحبزادی کا رشتہ طے ہوا تو دونوں بزرگوں نے حکم دیا کہ نکاح پڑھانے کی ذمہ داری میں ادا کروں۔ میں اُن دنوں جماعت اسلامی صوبہ پنجاب کا امیر تھا۔ چناںچہ یہ فرض ادا کرنے کا اعزاز نصیب ہوا۔ اخلاق بھائی چند سال قبل اللہ کو پیارے ہوگئے اور ان کے چند سال بعد شیخ عمر فاروق بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ محمد یونس ہمارے ہم کلاس اور تقریباً ہم عمر تھے۔ ماشاء اللہ اب تک بہت زندہ دلی کے ساتھ دوستوں سے رابطے رکھتے ہیں، مگر کمر جھک گئی ہے جسے دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ اتنا مضبوط اور چھوٹے قد کا نوجوان آج ایک کمزور بوڑھا نظر آتا ہے۔
یہ قدرت کے فیصلے ہیں۔ شیخ یونس بھائی کی قوتِ ارادی آج بھی جوان ہے۔ بہرکیف اردو کے مشہور شاعر میر انیس نے اس حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ بھی حقیقت کو آشکار کرتا ہے ؎
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
ہمارے جامعہ پنجاب کے پیارے دوست افتخار فیروز اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں ورنہ وہ یہاں اس رباعی کا حوالہ دیکھتے تو فوراً دوسرے شعر کا پوسٹ مارٹم کردیتے اورفرماتے ’’یہ آدھا سچ اور آدھا (سفید) جھوٹ ہے۔ جوانی تو جا کے نہیں آتی، بڑھاپا تو آتا ہے اور پھر کبھی اچانک اور کبھی دھیرے دھیرے چلا جاتا ہے۔ افتخار مرحوم اور ہمارے مشترکہ دوست رحیم الدین بھی ایسی مجلس میں موجود ہوتے تو فرماتے: چلا کہاں جاتا ہے، قبر میں دفن کرنے تک ہر لمحے ساتھ ہی رہتا ہے۔
نیو ہاسٹل میں پہلے سال میرے روم میٹ عبدالغنی ثمین اور دوسرے سال محمد اصغر نیازی تھے۔ ثمین صاحب کا تعلق ڈیرہ غازی خان اور نیازی صاحب کا تعلق میانوالی سے تھا۔ محمد اصغر نیازی مشہور صحافی اور شاعر محمد اجمل نیازی کے جڑواں بھائی تھے۔ دونوںایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے، شکل و صورت بھی ایک جیسی تھی۔ شروع میں کئی مرتبہ بعض طلبہ اور اساتذہ الجھن میں پڑ جاتے کہ یہ کون سے نیازی ہیں۔ کوئی اصغر صاحب کو اجمل سمجھ لیتا اور کوئی اجمل صاحب کو اصغر گردانتا۔ اجمل نیازی آزاد منش اورشاعر ہونے کے ساتھ جگت باز بھی تھے۔ مرحوم کی زبان پر عام طور پر کسی نہ کسی فلم کا کوئی شعر اٹکھیلیاںکرتا سنائی دیتا تھا۔ اجمل صاحب کے مقابلے میں ان کے جڑواں بھائی اصغر نیازی صاحب بہت سنجیدہ، عبادت گزار اور خاموش طبیعت کے نوجوان تھے جو ہمارے تربیتی، دعوتی اور تنظیمی اجتماعات میں باقاعدگی سے شرکت فرماتے تھے۔
اصغر نیازی تو جمعیت کے کارکن اور میرے قریبی دوست تھے، مگر اجمل نیازی بھی اجنبی نہیں تھے۔ ہماری طبیعتوں میں قدرے تضاد کے باوجود اجمل نیازی مرحوم میرے بے تکلف دوست تھے جس کا اظہار اُس دور میں بھی اور بعد میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں اپنے کالموں میں بھی کیا کرتے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اجمل نیازی نے زندگی کے آخری لمحوں تک روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ مرحوم بہت اچھے شاعر تھے۔ مشاعروں میں بھی شرکت کرتے اور دیگر ادبی سرگرمیوں میں بھی نمایاں نظر آتے۔ ٹی وی پر بھی کئی پروگرام نشر کرتے۔ حق مغفرت فرمائے، یاروں کے یار اور محفلوں کی جان تھے۔ چند سال قبل مرحوم کی وفات پر ان کے گھر وحدت کالونی میں حاضری دی اور ان کے بیٹوں و دیگر عزیزوں سے ملاقات ہوئی۔ افسوس ہے کہ مرحوم پر مضمون قلم بند نہ کرسکا۔ ہمارے دورِ طالب علمی میں جی سی ہی میں نیازی صاحبان کے بڑے بھائی محمد اکبر نیازی ایم ایس سی کے طالب علم تھے۔ ان کے والد غلام محمد خان نیازی پولیس میں کسی عہدے پر فائز تھے۔ ان سے بھی ایک بار ملاقات ہوئی تھی۔
کالج میں پہلے چند ہفتوں کے دوران ہی اللہ کے فضل سے دوستوں کا ایک اچھا حلقہ بن گیا جس میں مسلسل وسعت ہوتی چلی گئی۔ اب جمعیت کے اجتماعات شروع کردیے گئے تھے۔ کالج میں جس مقام پر اِس وقت شاندار مسجد ہے، اس جگہ ایک تھڑا سا ہوا کرتا تھا جس کے اوپر ٹین کی چھت ڈالی گئی تھی۔ اس جگہ دو تین چٹائیاں اور ایک مصلّٰی پڑا ہوتا تھا۔ نماز ظہر اور عصر کے وقت ہم صفوں کو درست کرتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ ہمارے دور کا وہ تھڑا یا چبوترا یا عربی زبان کا صُفّہ کالج سے ہمارے فارغ ہوجانے کے ایک سال بعد 1968ء میں ایک خوب صورت پختہ مسجد میں تبدیل ہوگیا۔ چند سال قبل وہ مسجد شہید کرکے اسی کی جگہ ایک بڑی شاندار اور خوب صورت مسجد کالج انتظامیہ نے تعمیر کرا دی ہے۔ اس کی تعمیر میں ہمارے دوست پروفیسر قاری محمد عظمت صاحب کی دلچسپی اور کاوش بھی شامل تھی۔ قاری صاحب نے بتایا کہ یہ مسجد پنکھوں کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ایک سرمایہ دار اور صاحبِ خیر بزرگ، حاجی محمد دین اینڈ سنز نے اپنے سرمائے سے بنوائی تھی۔
قاری عظمت صاحب بہترین ٹیچر، مقرر اور مدرسِ قرآن ہیں۔ گورنمنٹ کالج ہی میں 1975ء سے لے کر 2007ء تک شعبہ معاشیات کے استاد رہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی کالج انتظامیہ نے ان کا کالج میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے کنٹریکٹ پر تقرر کردیا۔ قاری محمد عظمت جی سی میں میرے کلاس فیلو اور بہت قریبی دوست تھے۔ یہ دوستی نہ صرف اب تک قائم ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ برسبیل تذکرہ قاری صاحب اس دورِ طالب علمی میں بہترین قرّا میں شمار ہوتے تھے۔ کالج کی تقریبات میں تلاوت کرتے تو سامعین کے دل نورِ قرآن سے جگمگا اٹھتے۔ اُس دور میں ہمیں کبھی یہ تجربہ نہیں ہوا تھا کہ حضرت بہت شعلہ نوا خطیب اور پُرجوش مقرر بھی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ایک آدھ مرتبہ اُن سے فرمائش کی کہ وہ جمعیت کے اجتماع میں درسِ قرآن دے دیں تو انھوں نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے ہر بار فرمایا کہ نہیں درسِ قرآن آپ ہی دیں۔
تعلیم کے بعد مرشد مودودیؒ کے حکم سے مجھے نیروبی (کینیا) جانا پڑا اور وہاں ’’بن باس‘‘ کاٹا۔ (قدیم ہندوستان میں بن باس بارہ سال کی سزا ہوتی تھی جو جنگل میںکاٹنا پڑتی تھی۔ بن باس کا معنی ہی جنگل میں رہائش اختیار کرنا ہے۔)۔ واضح رہے کہ میرے لیے یہ سزا نہیں بلکہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جس کی حسین یادیں آج بھی دل میں تازہ ہیں۔ بہرحال بارہ سال بعد پھر جب میں بیرونِ ملک سے 1985ء میں واپس آیا تو ایک مجلس میں عظمت صاحب کو درس دیتے ہوئے سنا، طبیعت خوش ہوگئی۔ ایمان افروز واقعاتِ سیرت کے ساتھ ان کی آواز کے زیر و بم ہی سے درس کو چارچاند لگ جاتے ہیں۔ الھم زدفزد۔جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں تربیت گاہوں میں قاری صاحب کے مستقل دروس اور تقاریر ہم سب جماعتی ذمہ داران کے لیے بہت مسرت کا باعث بنتے ہیں۔
جی سی میں بھی عظمت صاحب ’’بخاری آڈیٹوریم‘‘ میں سال ہاسال درسِ قرآن سے طلبہ و اساتذہ کے ذہن روشن کرتے رہے ہیں۔ اپنے پیارے دوست کے بارے میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آج کل جن کے دروس سن کر رشک آتا ہے اور فرطِ جذبات سے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، وہ گورنمنٹ کالج میں دورِ طالب علمی کے ان سادہ اور مختصر دروس کا بھی اکثر تذکرہ کرتے ہیں جو درویش کی تقریباً مستقل ذمہ داری ہوتی تھی۔ پھر راقم کے بارے میں محبت کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ ہی مبالغہ کر جاتے ہیں۔ کئی دفعہ میں نے متوجہ کیا کہ ایسا نہ کیا کریں مگر محترم ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔
ہم نے ٹین کی چھت کے نیچے اپنے ہفتہ وار تنظیمی اجتماعات کے علاوہ ہر ہفتے کے اندر چار دنوں میں درسِ قرآن کا باقاعدہ سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اُس زمانے میں چوںکہ درسِ قرآن کی ذمہ داری مجھ پر تھی اس لیے مختلف تفاسیر پڑھنے کا کافی موقع ملا۔ کالج کی لائبریری سے ہر موضوع پر اچھی کتب مل جاتی تھیں۔ شروع میں ہم چھ سات ساتھی اس درس میں بیٹھتے تھے۔ بعد میں تعداد آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور ساتھیوں کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔ کبھی درس میں شرکا کی تعداد تیس چالیس سے پچاس تک پہنچ جاتی جو جی سی کے ماحول میں شاندار پیش رفت تھی۔ بقول شاعر ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
ہمارے ساتھیوں میں پروفیسر محمد عظمت کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے جو (اُس دور میں) بڑے خاموش طبیعت، مخلص اور محنتی ساتھی تھے۔ ہمارے دیگر محترم ساتھیوں میں مستنصر میر، حافظ عبدالرئوف، محمد اعظم گھمن، محمد طفیل سالک، شیخ محمد سعید، اسد اللہ غالب، محمد یونس، اصغر نیازی اور رافع الہدیٰ کے نام یاد ہیں۔ کئی دیگر ساتھیوں کے نام یاد نہیں آ رہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہر ساتھی نہایت مخلص اور قیمتی ہیرا تھا۔
ہمارے داخلے کے وقت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد مرحوم تھے۔ آپ درویش صفت، سادہ طبیعت اور انتہائی ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا مضمون زولوجی تھا۔ آپ کو ہمارے داخلے سے قبل 1963ء یا 64ء میں اس ذمہ داری سے فارغ کرکے کوئی اور ذمہ داری سونپی گئی اور ایک نئے استاد (غالباً ایجوکیشن کالج سے) ان کی جگہ وائس چانسلر مقرر ہوئے تو کالج کے طلبہ و اساتذہ اور دیگر اسٹاف نے کئی دنوں تک شدید احتجاج کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ڈاکٹر نذیر صاحب کو ہی کالج کا سربراہ بنایا جائے۔ کلاسوں کا بائیکاٹ کرکے طلبہ و اساتذہ سڑکوں پر نکلنے کے بجائے کالج کیمپس کے اندر ہی احتجاج کیا کرتے تھے۔ عام تاثر یہ تھا کہ ڈاکٹر نذیر درویش منش، سادہ مزاج انسان ہیں جو خوشامد و چاپلوسی کے قائل نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے گورنر امیر محمد خاں، نواب آف کالاباغ ان سے خوش نہیں ہیں۔ واللہ اعلم! (جاری ہے)