غزہ کی مزاحمت:گولڈ اسٹون رپورٹ… نشانے پر لگنے والا تیر

اپنی سالانہ رپورٹ میں B’Tselem نے اسرائیل کی طرف سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کرنے کے بجائے اسرائیل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لکھنے کو ترجیح دی۔ فلسطینیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بلند بانگ دعوے کیے گئے۔ حماس کی طرف سے قوانین اور حقوق کی خلاف ورزی کو غیر معمولی اہمیت دی گئی اور اسرائیل کے فوجی گیلاد شالت کو یرغمال بنائے جانے کے بارے میں دنیا بھر کی مثالوں کے ذریعے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں ثابت کی گئیں۔ اس رپورٹ میں اسرائیل کے کسی بھی اقدام کو جنگی جرم یا اِسی نوعیت کی کوئی سنگین خلاف ورزی قرار دینے سے یکسر گریز کیا گیا۔ B’Tselem کی رپورٹ میں گولڈ اسٹون رپورٹ کے بیان کردہ حقائق کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا گیا تاہم اس حوالے سے کوئی بھی ثبوت یا شہادت فراہم کرنے سے گریز کیا گیا۔ امریکہ میں یہودی لابی نے بھی گولڈ اسٹون رپورٹ کو متنازع قرار دلوانے کے لیے بہت محنت کی اور اِسے قانونی معاملات کا میلہ قرار دینے سے بھی گریز نہ کیا۔ امریکی یہودی لابی کا دعویٰ تھا کہ اسرائیل پر تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں تاہم خود اسرائیل کے خلاف جن جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے اُن کے بارے میں چُپ سادھ لی جاتی ہے اور کچھ بھی کہنے سے یکسر گریز کیا جاتا ہے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بنیادی حقوق کی بات کرکے اسرائیل کے خلاف محاذ کھڑا کیا گیا ہے۔ امریکہ بھر میں قانون کی تعلیم کے اعلیٰ ترین اداروں سے وابستہ پروفیسرز اور محققین کو ایسے کنونشنز اور سیمینارز میں بلایا گیا اور تقریریں کروائی گئیں جن کا بنیادی مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کے ذریعے اسرائیل کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اُس کے خلاف جن سنگین جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے اُن سے توجہ ہٹائی جارہی ہے۔ سیمینارز، کانفرنسز اور کنونشنز کے ذریعے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کے ذریعے دہشت گردی سے لڑنے والے اس دور میں اسرائیل اور امریکہ کی سلامتی کو داؤ پر لگایا جارہا ہے۔ ایسے ہی موضوع پر فورڈہیم یونیورسٹی کے اسکول آف لا نے بھی ایک کنونشن کا انعقاد کیا۔ نیویارک کاؤنٹی لائرز ایسوسی ایشن نے ایک کنونشن منعقد کیا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کے ذریعے قانون کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک بڑے قانون دان نے انتہائی بے شرمی سے کہا کہ تاریخ میں ہمیں ایسا کوئی دور نہیں ملتا جب جنگ کے زمانے میں کسی بھی ملک نے عام شہریوں کے تحفظ پر اُتنی توجہ دی ہو جتنی آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیل اور امریکہ نے فلسطینی شہریوں کے تحفظ پر دی۔ اِسی قانون دان کا کہنا تھا کہ جو کچھ بھی فلسطینیوں پر مظالم کے حوالے سے کہا جارہا ہے وہ سب کا سب جھوٹ اور پروپیگنڈا ہے۔ امریکہ بھر میں یہودی لابی کے زیرِ اثر کام کرنے والے بیسیوں قانون دانوں نے اپنے طور پر اسرائیل کے مظالم کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی اور بعض نے اس حقیقت ہی سے انکار کردیا کہ اسرائیل نے جنگی قوانین اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں کی بھی ہیں۔ اُن کا مجموعی استدلال یہ تھا کہ حقِ دفاع کے تحت اسرائیل کے لیے کچھ بھی کر گزرنا بالکل درست ہے۔ اسرائیل کے اقدامات کی حمایت کرنے والوں نے بے شرمی کی تمام حدیں پار کرلیں۔ اُن کا (بے بنیاد) استدلال یہ تھا کہ اسرائیل کے وجود کو ختم کرنے کی کوششیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ حماس اور دیگر فلسطینی تنظیمیں دن رات اس فکر میں غلطاں رہتی ہیں کہ اسرائیل کو کس طور ختم کیا جائے۔ اِن قانون دانوں کے نزدیک ایسے میں اسرائیل کے پاس اپنے دفاع کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے سوا کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔

ڈرشووِز اور ایلی وائزل جیسے نام نہاد دانش وروں نے ہیومن رائٹس واچ کو داغ دار کرنے اور نشانہ بناتے رہنے کا محاذ سنبھالا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ کہیں کوئی سازش ہوئی ہے مگر تاثر کچھ ایسا ہی ہے کہ ہیومن رائٹس واچ جیسے اداروں کو اسرائیل کے خلاف منظم طور پر بروئے کار لایا جارہا ہے، اور یہ کہ ایک باضابطہ اور منظم مہم چلائی جارہی ہے جس کا بنیادی مقصد پوری دنیا پر یہ ثابت کرنا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں اسرائیل سے آگے کوئی نہیں۔ ہیومن رائٹس کے پروگرام ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ہمیں ہر طرف سے نشانہ بنایا جارہا ہے اور ہم پر دباؤ میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے بانی رابرٹ برنسٹین پر اسرائیل کو انسانی حقوق کے حوالے سے ہدفِ تنقید بناتے رہنے پر تنظیم کے اندرونی ڈھانچے کی طرف سے غیر معمولی دباؤ کا سامنا تھا۔ اُس نے جہاز سے چھلانگ لگادی یعنی خود کو ہیومن رائٹس واچ سے الگ کرلیا۔ معاملہ یہاں تک نہیں رُکا بلکہ اُس نے ہیومن رائٹس واچ کو داغ دار کرنے کے لیے نیویارک ٹائمز میں پورے صفحے کا اشتہار دیا جس میں یہ کہا کہ اسرائیل کے معاملے میں ہیومن رائٹس واچ غیر معمولی جانب داری کا مظاہرہ کررہی ہے یعنی اسرائیل کو کسی ٹھوس جواز یا بنیاد کے بغیر ہدفِ تنقید بنایا جارہا ہے۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ رابرٹ برنسٹین کے پاس گواہی بھی تو صرف کرنل رچرڈ کیمپ کی تھی، جو ایک متنازع فرد تھا اور جس نے آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیل کی طرزِ فکر و عمل کو تمام تسلیم شدہ حقوق و فرائض سے ہم آہنگ قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ ایک سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا، خود رابرٹ برنسٹین کے پاس بھی نہیں۔ آخر کیا وجہ تھی کہ امریکہ کے ایک ارب پتی یہودی نے جو بنیادی حقوق کا تجربہ رکھتا تھا نہ مشرقِ وسطیٰ کے امور کا، ہیومن رائٹس واچ کی مڈل ایسٹ ڈویژن پر اثرانداز ہونے کی کوشش کیوں کی۔ نیویارک ٹائمز میں پورے صفحے کا جو اشتہار شائع کیا گیا تھا وہ مطلوب نتائج یقینی بنانے میں ناکام رہا۔

گولڈ اسٹون رپورٹ کا معاملہ بہت عجیب رہا۔ اسرائیل کے لیے اُس کے تباہ کن اثرات سے پیچھا چھڑانا انتہائی دشوار عمل ثابت ہوا۔ اس مرحلے سے گزرتے ہوئے اُسے احساس ہوا کہ جو کچھ بھی اُس نے کیا ہے اُس کا حساب تو اُسے دینا ہی پڑے گا۔ ہاں، ہیومن رائٹس واچ پر اس قدر دباؤ ڈالا گیا یا ڈلوایا گیا کہ اُس کے لیے برداشت کر پانا ممکن نہ رہا۔ ہیومن رائٹس واچ پر اسرائیل مخالف ہونے کا الزام لگایا گیا۔ اس الزام کا سامنا کرنے کی ہیومن رائٹس واچ میں ہمت نہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اندرونی سطح پر یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ اسرائیل کے معاملے میں جانب داری برتی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ نہ تھا مگر دنیا بھر میں یہ تاثر عام کیا گیا کہ انسانی حقوق کے نام پر جو کچھ بھی کہا جارہا ہے وہ سب کا سب اسرائیل مخالف پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا شمار اُن اداروں میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ اس تنظیم نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر نظر رکھنے کا نظام تیار کیا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر اُس حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو اپنے شہریوں یا دوسرے ممالک کے باشندوں سے امتیازی نوعیت کا سلوک روا رکھتی ہے اور اُنہیں اُن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کا کمزور پڑ جانا افسوس ناک بات تھی۔

یہ بات انتہائی حیرت انگیز تھی کہ ہیومن رائٹس واچ نے گولڈ اسٹون رپورٹ کے حوالے سے مرتب ہونے والے دباؤ کے سامنے بہت تیزی سے گھٹنے ٹیک دیے۔ اس گروپ کی کارکردگی اس اعتبار سے قابلِ ستائش رہی ہے کہ اِس نے دباؤ قبول نہ کرنے کی روش پر گامزن رہتے ہوئے اپنی اہمیت منوانے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ گولڈ اسٹون رپورٹ پر کی جانے والی تنقید کے بعد جب ہیومن رائٹس واچ پر دباؤ پڑا تو اُس نے ہتھیار ڈال دیے۔ 2010ء کی اپنی رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے، بظاہر غیر معمولی دباؤ کے تحت ہی، یہ کہا کہ پہلے تو اِس امر پر توجہ نہیں دی گئی مگر بعد میں شواہد اور حقائق کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کے دوران حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں نے عام شہریوں کو (جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے) ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ گروپ نے رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب صرف اسرائیلی فوج نے نہیں کیا بلکہ حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپ بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ یا بنیادی حقوق کے کسی اور گروپ یا تنظیم کی طرف سے فلسطینیوں کو بھی جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دینے کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ یہ فوجی نہیں بلکہ عسکریت پسند گروپ کے ارکان تھے یعنی یہ اس لڑائی میں جنگجو کی حیثیت سے فریق تھے۔ جنگی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام صرف اسرائیلی فوجیوں پر عائد کیا جاسکتا تھا کیونکہ وہ باضابطہ فوجی تھے۔ پھر بھی یہ بات زیادہ محلِ نظر تھی کیونکہ ابتدائی طور پر تو ہیومن رائٹس واچ اور دیگر گروپوں نے حماس اور دیگر فلسطینی عسکریت پسند گروپوں پر بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد نہیں کیا تھا۔ بعد میں جب حکومتوں کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا تب انہوں نے اپنی اپنی رپورٹس میں تبدیلیاں کیں اور اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی عسکریت پسندوں کو بھی لتاڑنا شروع کیا۔ طرزِ فکر و عمل میں اس تبدیلی سے ہیومن رائٹس واچ اور بنیادی حقوق کے لیے کام کرنے والی دیگر تنظیموں اور گروپوں کی ساکھ متاثر ہوئی اور اُن پر اعتماد کرنے والوں کی تعداد میں کمی آئی۔

ہیومن رائٹس واچ اور بنیادی حقوق کے لیے کام کرنے والی دیگر تنظیموں نے اگر اسرائیل کے معاملے میں تھوڑی سی پسپائی اختیار کی یا معمولی سا یوٹرن لیا تو یہ کوئی بہت حیرت انگیز بات نہ تھی، کیونکہ اُن پر امریکہ اور اُس کے ہم خیال ممالک کا بھرپور دباؤ تھا۔ اس دباؤ کو برداشت کرنا ہر تنظیم کے بس میں نہ تھا۔ بہرکیف، بنیادی حقوق کی تنظیموں پر ڈالے جانے والے دباؤ سے اتنا تو واضح ہو ہی گیا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ نشانے پر لگنے والا تیر ثابت ہوئی تھی۔ اس رپورٹ نے معاملات کو بے نقاب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حقائق تلاش کرنے والے کسی بھی مشن کو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا کہ فلسطینیوں نے کسی بھی مرحلے پر غزہ اور اُس سے ملحق علاقوں کے کسی بھی عام شہری کو صہیونی فوج کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا(جاری ہے)