قرآن مجید کا حیرت انگیز معجزہ

اردو کے علاوہ اس کے بین الاقوامی اور علاقائی زبانوں سیکڑوں تراجم مکمل ہوکر شائع ہوچکے ہیں

بین الاقوامی زبانوں میں قرآن پاک کے تراجم :
قرآن پاک کو یہ ایک منفرد اعزاز اور فخر حاصل ہے کہ اب بھی دنیا بھر میں اس کے لاکھوں حفاظ موجود ہیں اور اس کے کسی حرف میں آج تک کوئی ترمیم اور تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ اردو کے علاوہ اس کے بین الاقوامی اور علاقائی زبانوں سیکڑوں تراجم مکمل ہوکر شائع ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

لاطینی زبان میں قرآن پاک کا پہلا ترجمہ پطرس نامی ایک راہب نے کیا تھا۔ قرآن کے ترجمے پر اُس نے اتنی محنت کیوں کی، یہ معلوم نہ ہوسکا، لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ اُس کا یہ ترجمہ چار صدیوں تک ایک خانقاہ میں بند پڑا رہا۔ پھر کہیں ایک برطانوی کی نظر اس پر پڑی تو اس پر نظرثانی کرکے اسے طبع کرایا گیا۔

اسی طرح فرانسیسی میں بھی قرآن پاک کا پہلا ترجمہ ایک فرانسیسی مسیحی نے کیا تھا۔

یونانی زبان میں بھی قرآن پاک کا ترجمہ ایک عیسائی نے کیا تھا۔ یونانی زبان میں قرآن کا ترجمہ پہلی مرتبہ 1980ء میں ایتھنز میں شائع ہوا۔

عبرانی زبان میں بھی قرآن پاک کا ترجمہ موجود ہے۔ یہ ایک یہودی نے کیا تھا۔

اطالوی، ہسپانوی اور ڈچ میں بھی قرآن کے تراجم موجود ہیں، یہ بھی تمام تر غیرمسلموں نے کیے تھے۔

انگریزی میں تو قرآن کے متعدد تراجم موجود ہیں۔ پہلا ترجمہ لپٹن نامی ایک شخص نے کیا تھا، بعض انگریز مترجمین کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت بھی عطا فرمائی۔

انگریزی تراجمِ قرآن کے بارے میں حال ہی میں ایک مضمون امپیکٹ انٹرنیشنل (لندن) میں شائع ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اہلِ علم انگریزی تراجم کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عبداللہ یوسف علی کا ترجمۂ قرآن زبان، محاورے اور صحت کے اعتبار سے تمام تراجم سے بہتر ہے۔ گویا ایک غیرانگریز زبان کے معاملے میں انگریزوں سے بھی بازی لے گیا۔

قرآن پاک کے جاپانی زبان میں ترجمے کا انوکھا واقعہ
لیکن قرآن پاک کے جاپانی ترجمے کا واقعہ سب سے انوکھا ہے۔ یہ ترجمہ ایک جاپانی نے کیا جو قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سے شیدائی تھا لیکن افسوس کہ اسے توفیقِِ ہدایت نصیب نہ ہوئی۔

قرآن کا جاپانی ترجمہ 1950ء میں شائع ہوا۔ جاپان کو اُس وقت جنگِ عظیم دوم میں شکست کھائے پانچ برس گزر چکے تھے، جاپان شکست کے صدمے سے ابھی سنبھل نہیں پایا تھا اور اس کی معیشت میں بھی ترقی کے وہ آثار ہویدا نہ ہوئے تھے جن سے وہ آج مالامال ہے۔

جاپانی مترجمِ قرآن کا نام شومی اوکاوا تھا، وہ اُس وقت پچاس کے پیٹے میں تھا جب اس نے ترجمۂ قرآن کا بیڑا اٹھایا۔

جاپان کو شکست دینے کے بعد فاتح امریکی فوج نے ہر بڑے شہر کے تعلیم یافتہ اور نمایاں افراد کی فہرست تیار کی اور انہیں حراست میں لے لیا۔ شومی اوکاوا ایشیائی تہذیب و فضیلت کا بے حد قائل تھا اور وہ دانشور کی حیثیت سے بھی معروف تھا، اس لیے اسے بھی حراست میں لے لیا گیا۔

اس نے ٹوکیو یونیورسٹی سے ادب میں ڈپلوما کیا تھا، پھر مشرق کے مذاہب کا مطالعہ کرتا رہا۔ وہ اگرچہ ایک علمی آدمی تھا لیکن اس نے محکمہ ریڈیو میں ملازمت اختیار کرلی۔ لیکن یہ ملازمت اُس کے مذہبی و ادبی ذوق میں حائل نہ ہوسکی اور وہ بدستور اپنے مطالعے میں مشغول رہا۔

جب امریکی فوج نے اسے حراست میں لیا اور اسے عدالت کے سامنے پیش کیا تو اچانک اُس نے کمرۂ عدالت میں ایسی حرکات شروع کردیں جن سے گمان ہوتا تھا گویا وہ مخبوط الحواس ہے۔ عدالت نے اس کے طبی معائنے کا حکم دیا تو ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ واقعی دماغی مریض ہے۔ چنانچہ اسے جیل کے اسپتال میں داخل کردیا گیا۔ یہاں علاج کے دوران میں اسے مطالعہ قرآن کا شوق چرایا۔ فرصت بھی تھی اور تنہائی بھی، اس لیے وہ قرآن میں ڈوب گیا۔ وہ قرآن سے اس قدر مسحور ہوا کہ اس نے جیل ہی میں ترجمۂ قرآن کا کام شروع کردیا۔

ترجمۂ قرآن کا اثر
شاید اس ترجمۂ قرآن کا بھی اثر تھا کہ اُس کی دماغی صحت بحال ہونے لگی۔ اُس نے سب سے پہلے سورہ توبہ کا ترجمہ ایک جاپانی جریدے میں شائع کرایا۔ اس ترجمے نے جاپان کے علمی حلقوں میں تہلکہ مچادیا اور تقاضے ہونے لگے کہ قرآن کا ترجمہ مکمل شائع کیا جائے۔ اس سے شومی اوکاوا کا حوصلہ بڑھا اور اُس نے قرآن کا ترجمہ مکمل کردیا۔

اس دوران میں اُس نے احادیث کا مطالعہ بھی شروع کردیا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ احادیث کو بھی جاپانی زبان میں منتقل کرتا، لیکن یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔

اس نے ترجمہ قرآن 1948ء میں ختم کیا جب اس کی عمر 62 برس تھی۔ وہ 1959ء میں فوت ہوا جب اس کی عمر 71 سال تھی۔ اس سے سوال کیا گیا کہ وہ قرآن اور صاحبِ قرآن کا اتنا شیدائی ہے تو پھر مسلمان کیوں نہیں ہوجاتا؟

اگر اُس کا جواب صحیح طور پر نقل کیا گیا ہے تو یہ واقعی قابلِ غور ہے۔ اُس نے جواب دیا: قرآن اور صاحبِ قرآن کے مطالعے کے بعد جب اسلام کی حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ جس ماحول میں مَیں رہتا ہوں اس میں صحیح معنوں میں مسلمان ہوکر رہنا ممکن نہیں۔
(ماخوذ سیر و سفر، 2 اکتوبر 1988ء، ص 10، 11، 35)