اہل سندھ کا اضطراب:سندھ حکومت پر بلاول بھٹو زرداری کی برہمی

لگتا یہ ہے کہ اب شاید صوبہ سندھ پر گزشتہ تقریباً 16 برس سے حکومت کرنے والی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی اس امر کا احساس ہوچکا ہے کہ اس کے زیرنگیں، زیر حکومت صوبے میں اہلِ صوبہ حد درجہ بدامنی، بے روزگاری، مہنگائی، بدنظمی، بدعنوانی، کاپی کلچر اور ڈاکو راج سے یکسر تنگ، عاجز اور بے زار ہوچکے ہیں، جس کا ایک بڑا ثبوت صوبے بھر میں آئے دن مقامی پریس کلبوں اور عوامی مقامات پر سیاسی، سماجی اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے منعقد ہونے والے وہ پے در پے احتجاج ہیں جو اہلِ سندھ میں موجود ان کی بے چینی، تشویش اور اضطراب کا پتا دیتے ہیں۔ احتجاج کے اس بڑھتے ہوئے سلسلے سے مجبور ہوکر ہی شاید گزشتہ دنوں پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ہی پارٹی کے وزرا اور اسمبلی اراکین کے خلاف اپنے غم و غصے کا برملا اظہار کرتے ہوئے ان کی عدم کارکردگی پر تنقید کی ہے۔ انہوںنے اپنے عوامی نمائندوں کو سخت سست کہتے ہوئے اپنی کارکردگی بہتر اور معیاری بنانے کا حکم بھی دیا ہے۔ سندھی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے مطابق چیئرمین موصوف نے صوبائی وزیر شرجیل میمن کو بھی دورانِ اجلاس تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھا کریں اور صرف صوبائی معاملات اور امور کے بارے میں ہی بیانات دیا کریں، وفاقی معاملات سے ان کا کیا تعلق؟ چیئرمین موصوف نے اپنی پارٹی کے عوامی منتخب نمائندوں، رہنمائوں اور وزرا کو یہ تاکید بھی کی ہے کہ تبادلوں اور تقرریوں پر مبنی سیاست بہت ہوچکی، اب وہ اپنے اپنے گھروں اور دفاتر سے باہر نکلیں، عوام میں جائیں اور ان کے مسئلے مسائل حل کریں، اور اس کے لیے باقاعدگی سے کھلی کچہریوں کا انعقاد کریں۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے پارٹی کے اندر دھڑے بندی اورجھگڑوں کی شکایت کا بھی سخت نوٹس لیتے ہوئے اس حوالے سے اپنی شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ اہلِ سندھ اس موقع پر یہی تبصرہ کرسکتے ہیں کہ ’’دیر آید درست آید۔‘‘ اللہ کرے کہ اس کے نتیجے میں واقعتاً صورتِ حال تبدیل ہوجائے اور اصلاحِ احوال عملاً رونما بھی ہوسکے تاکہ سندھ کے عوام عرصۂ دراز سے جن تکالیف، مسائل اور پریشانیوں سے دوچار ہیں وہ اگر بالکل ختم نہ بھی ہوں تو ان میں خاطر خواہ کمی ہی واقع ہوسکے۔ صوبہ سندھ میں بدترین حکمرانی کے پیش نظر ہی بلاول بھٹو زرداری نے یہ حکم بھی صادر فرمایا ہے کہ ہر مقام پر اچھے، باصلاحیت اور نیک نام افسران کا تقرر کیا جائے، اور اگر افسران اچھی کارکردگی نہ دکھائیں تو ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ وزرا بروقت اپنے اپنے دفاتر میں آئیں اور عوامی نمائندے بھی اپنے اپنے حلقے کے عوام کی خدمت کریں، کیوں کہ ہمیں عوام نے اپنے مسائل کے خاتمے اور ان کے حل کے لیے اسمبلی میں بھیجا ہے۔

یہ سب کچھ جو چیئرمین بلاول بھٹو نے ارشاد فرمایا ہے درحقیقت اہلِ سندھ کے دل کی آواز ہے۔ کاش کہ اس امر کا احساس پی پی پی کی قیادت کو بہت پہلے ہوجاتا۔ خیر یہ بھی غنیمت ہے کہ یہ احساس دیر سے ہوا ہے لیکن پھر بھی ہوا تو ہے، اور اللہ کرے کہ حکومتِ سندھ، اس کے وزرا اور پی پی پی کے عوامی منتخب نمائندے اپنے پارٹی چیئرمین کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر بھی دکھا دیں، تب ہی بات بنے گی، ورنہ تو ’’بابا یہ سب کہانیاں ہیں‘‘ کے مصداق ہی ٹھیرے گا۔ اہلِ سندھ تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ

دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صوبہ سندھ اس وقت بدامنی، بدعنوانی اور مہنگائی کا بدنما مرکز بنا ہوا ہے۔ عرصہ تین سال پہلے ضلع سکھر کی تحصیل روہڑی کے ایک قصبے سے 12 برس کی معصوم پریا کمہاری لاپتا ہوگئی تھی۔ حکومتِ سندھ اور پولیس تمام تر مساعی اور وسائل بروئے کار لانے کے باوجود اس معصوم بچی کو تاحال بازیاب یا منظرعام پر نہیں لاسکی ہیں جس کی جدائی کے صدمے میں پریا کمہاری کے والدین نیم جان ہو چکے ہیں۔ ایک ماہ قبل ہی ڈی آئی جی سکھر پیر محمد خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم پریا کمہاری کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں اور اسے بہت جلد اس کے والدین سے ملوا دیا جائے گا۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک معصوم بچی کو برآمد نہیں کیا جاسکا ہے۔ یہ ایک ایسا ٹیسٹ کیس تھا جس میں حکومت ِسندھ اور محکمہ پولیس مکمل طور پر خود کو نااہل اور ناکام ثابت کرچکے ہیں۔

اسی طرح سے آئے دن قبائلی جھگڑوں میں بے گناہ افراد اور خواتین بلکہ معصوم بچوں تک کی ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب سندھ کے مختلف اضلاع سے بچے اور بڑی عمر کے افراد اغوا برائے تاوان کی غرض سے اغوا نہ ہوتے ہوں اور ان پر ڈاکوئوں کے بہیمانہ تشدد کی کوئی نہ کوئی وڈیو وائرل نہ کی جاتی ہو۔ آخر اغوا برائے تاوان کا یہ مکروہ سلسلہ کب اور کس طرح سے رُکے گا؟ کسی کو کچھ بھی پتا نہیں ہے۔ سندھ کے سرکاری دفاتر میں بدعنوان افسران اور عملے کا راج ہے جو جائز کام بھی بغیر رشوت کے نہیں کرتے۔ بدامنی کی وجہ سے سندھ میں کاروباری سرگرمیاں بری طرح سے متاثر ہوئی ہیں، اس پر مستزاد بجلی اور گیس کے بھاری بھرکم بلوں اور ان کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی کواجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ سندھ میں غیر قانونی جرگوں پر سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پابندی کے باوجود یہ جرگے بڑی پابندی کے ساتھ مقامی قبائلی سرداروں، وڈیروں، پولیس اور انتظامیہ کی زیر سرپرستی مسلسل منعقد کیے جارہے ہیں۔ چند دن پیشتر ہی ایسے ایک غیر قانونی منعقدہ جرگے میں قمبر شہداد کوٹ سے تعلق رکھنے والی 14 برس کی معصوم نازیہ چنا کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے مجرموں کو محض 50 لاکھ روپے جرمانہ عائد کرنے کے بعد پروانۂ بریت اور رہائی مل گئی جنہوں نے 8 ماہ قبل معصوم نازیہ چنا کو زیادتی اور تشدد کے بعد ظالمانہ انداز میں قتل کر ڈالا تھا، درآں حالیکہ نازیہ چنا نامی بچی کے قاتلوں کو عبرت ناک سزائیں دی جانی چاہیے تھیں۔ یہ تو محض صرف ایک مثال ہے ورنہ ناانصافی پر مبنی ایسے غیر قانونی جرگوں کا انعقاد آئے دن کا بدنما معمول ہے۔

صوبہ سندھ عام افراد کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے لیے بھی ایک مقتل بن چکا ہے۔ گزشتہ چند برس میں جرمِ حق گوئی کی پاداش میں کئی صحافیوں کو قتل اور متعدد کو زخمی بھی کیا جا چکا ہے۔ ابھی سکھر سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی جان محمد مہر، بے نظیر آباد کے عزیز میمن اور دیگر مقتول اور زخمی ہونے والے صحافیوں کے مجرمان کیفرِ کردار تک نہیں پہنچ پائے تھے کہ نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے ایک بے حد دلیر معروف صحافی اور وی لاگر نصیر اللہ گڈانی کو بھی 21 مئی کو گولیاں مار کر شدید زخمی کر دیا گیا جو 24 مئی کو کراچی کے مقامی اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے، جن کے اصل قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ان کی ضعیف العمر والدہ کی زیر قیادت مسلسل احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

جانب ضلع کندھ کوٹ کشمور میں حد درجہ بدامنی کا تسلسل بھی تاحال جاری ہے جس کی وجہ سے اہلِ ضلع کی زندگی بالکل عذاب کی شکل اختیار کر گئی ہے۔

اہلِ ضلع نے حکو متِ سندھ کی بے حسی اور ڈھٹائی کو دیکھتے ہوئے ہفتہ رفتہ بروز اتوار کراچی پریس کلب پر ’’کشمور کندھ کوٹ بحالی امن تحریک‘‘ کے پلیٹ فام سے ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں بہت بڑی تعداد میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے عام اور نمایاں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر دورانِ خطاب جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ حکومتِ سندھ کی ناکامی کے بعد صوبے میں بجائے گورنر راج کے، لگتا یہ ہے کہ ڈاکو راج لگا دیا گیا ہے۔ مذکورہ تحریک کے آرگنائزرامیر ضلع جماعت اسلامی کندھ کوٹ کشمور غلام مصطفی میرانی اور ظریف ساگر بجارانی کی زیر قیادت ریلی میں سیکڑوں مظاہرین نے سندھ اور ضلع میں بدامنی کے خلاف شدید نعرے بازی اور امن وامان کی فوری بحالی کا مطالبہ کیا۔ احتجاجی مظاہرین میں ڈاکوئوں کے ہاں اغوا برائے تاوان کے لیے قید کیے گئے مغویوں کے ورثا بھی شامل تھے جو اس موقع پر شدید غم زدہ اور اشک بار دیکھے گئے۔ اس موقع پر دیگر مقررین ایس یو پی کے جنرل سیکرٹری جگدیش آہوجا، وکیل رہنما عبدالغنی بجارانی، ڈاکٹر علی نواز گبول، سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی سندھ مجاہد چنا، ایس ٹی پی کے مرکزی رہنما خیر محمد مگسی، دیدار سبزوئی، پی ٹی آئی کے منظور کھوسو نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ سندھ میں عملاً ڈاکو راج قائم ہے، اس وقت بھی 200 سے زیادہ مغوی ڈاکوئوں کے قبضے میں ہیں جن پر دن رات بہیمانہ تشدد کرکے ان کی وڈیو بنا کر ڈاکو وائرل کر دیتے ہیں اور غریب ورثا سے بھاری تاوان مانگ رہے ہیں۔ سندھ کے شہروں اور قصبات سے روزانہ کی بنیاد پر نقل مکانی ہو رہی ہے، سندھ کا کاروبار تباہ ہوچکا ہے، صحافی اور اساتذہ قتل کیے جا رہے ہیں۔ جرائم میں ملوث ملزمان کو ان کے سرپرست وڈیروں سمیت گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ورنہ احتجاج کا دائرہ وسیع کردیا جائے گا۔