آزاد کشمیر کا انتظامی ڈھانچہ اور سیاسی بحران وزیراعظم چودھری انوارالحق کا ”اعتماد“

گزشتہ کچھ عرصے سے آزادکشمیر ایک سیاسی بحران کا شکار تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ کچھ سیاسی قوتیں وزیراعظم چودھری انوارالحق کی حکومت کو ہٹانے کے لیے سرگرم ہیں۔ انوارالحق بھی اس کوشش کو وفاق کی سطح پر روکنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے ملاقات بھی انہی کوششوں کا حصہ تھی۔ اب کچھ ایسے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں کہ چودھری انوارالحق اپنی حکومت کے خلاف سیاسی وار کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور فی الحال قانون ساز اسمبلی سے کوئی نیا وزیراعظم برآمد ہونے کا امکان نہیں۔

چودھری انوارالحق اس اسمبلی کے تیسرے وزیراعظم تو ہیں مگر وہ اس اسمبلی کے آخری وزیراعظم بھی ہوں گے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ قومی حکومت ٹائپ یہ تجربہ ناکام ہوا تو پھر اگلا آپشن نئے انتخابات ہی ہیں۔ ایسے میں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی نے معاشرے کے محروم طبقات کو پیش نظر رکھ کر بنائے جانے والے قانون ’پروٹیکشن آف ویلز ایبل آرڈیننس 2024‘کی منظوری دے دی ہے۔ قانون کی منظوری کے بعد وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوارالحق خاصے پُراعتماد نظر آئے اور انہوں نے دوٹوک اعلان کیا کہ انڈوومنٹ فنڈ میں گڑبڑ کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنادیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل پروٹیکشن آرڈیننس کی منظوری آزادکشمیر کے پسے ہوئے طبقات کے احساسِ محرومی کے خاتمے کی طرف امید کی پہلی کرن ہے۔ قانون ساز اسمبلی کا یہ ایوان آزادکشمیر کے عوام کے بنیادی حقوق کا سب سے سے بڑا محافظ ہے، اگر کسی نے بھی انڈوومنٹ فنڈ میں گڑبڑ کی تو اسے نشانِ عبرت بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’جب تک میرے قلم میں اختیار ہے آخری دستخط بھی ریاست کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کروں گا۔ آزادکشمیر کے تمام مافیاز اور ان کی سرپرستی کرنے والے سیاسی وغیرسیاسی اسٹیک ہولڈرز پر ہاتھ ڈالا ہے، اب چیخیں تو نکلیں گی۔ مجھے اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور یہ اختیار عوام کی فلاح کے لیے استعمال ہوگا۔ ریاست کے ہر شہری کے جان، مال اور عزتِ نفس کا تحفظ حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ آزادکشمیر کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کا کردار قابلِ تحسین ہے۔‘‘

وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوارالحق نے کہا کہ شفافیت پر جس دن بھی کسی نے انگلی اٹھائی اُسی دن چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ 20 اپریل 2023ء کے بعد کسی جگہ بھی کرپشن کی نشاندہی کریں، کارروائی کروں گا۔ ای ٹینڈرنگ سے 3 ارب سے زائد کی بچت ہوئی ہے، وزیراعظم سیکریٹریٹ کی 110 اسامیاں سرینڈر کی ہیں۔ پہلی دفعہ وزیراعظم سیکریٹریٹ کا نصف بجٹ سرینڈر کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کسی جتھے کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پُرامن احتجاج سب کا حق ہے لیکن امن وامان کی صورتِ حال خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے لیے آزادکشمیر کی پولیس ہی کافی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایف سی کی تعیناتی مختلف علاقوں میں تعینات غیر ملکیوں کی حفاظت کے لیے ہوئی ہے۔

وزیراعظم آزاد کشمیر کے اس اندازِ خطابت میں ایک تلخی جھلک رہی ہے تو یہ بے سبب نہیں۔ آزادکشمیر کے اس انتظامی ڈھانچے کا اوّل وآخر مقصد چند مراعات یافتہ بااثر طبقات کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس صورتِ حال میں بہتری کے بجائے خرابی ہی پیدا ہوتی چلی گئی، اور اب تو یہ خطہ چار پانچ بڑی برادریوں کے چند بڑوں اور کچھ پوشیدہ کرداروں کے مفادات کا نگہبان اور محافظ بن کر رہ گیا ہے، اور حد تو یہ کہ اس گنگا جمنا میں غوطہ زن رہنے والے آخر میں اس خطے کی حدود میں رہنے کے بجائے یا تو اسلام آباد چلے جاتے ہیں یا پھر کسی مغربی ملک کا رخ کرتے ہیں اور اُن کا اس دھرتی سے تنخواہ اور پنشن کا ہی تعلق رہ جاتا ہے۔ اس لیے حکومت اور انتظامی لینڈ اسکیپ میں محروم اور پسے ہوئے طبقات کی گنجائش نہیں ہوتی۔ وزیراعظم انوارالحق اب کچھ الگ سے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مصلحتوں کی زنجیریں توڑ کر ایسے فیصلے کررہے ہیں جن کو ماضی میں شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ سوشل پروٹیکشن آرڈیننس کی منظوری بھی اسی الگ انداز کا اظہار ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ قانون ساز اسمبلی میں بہت طاقتور آوازیں اس قانون اور اس فیصلے کی حمایت میں بلند ہوئیں۔ وزیراعظم چودھری انوارالحق کے ساتھ ساتھ اس قانون کی تیار ی اور منظوری میں ایک ماہر اور تجربہ کار بیوروکریٹ اور سیکریٹری سوشل ویلفیئر ارشاد قریشی کی کاوشیں بھی لائقِ تحسین ہیں۔ غریب، کمزور اور محروم طبقات کو ریاست کے وسائل میں شریک کرنے کا یہ قدم ایک مثال ہے۔