ٹیکسوں کی بھرمار نے پورے معاشی نظام پر سوالیہ نشان لگادیا ہے
پاکستان کی سیاست میں نعروں اور دعوئوں کی حد تک عام آدمی کے حالات کی بات کی جاتی ہے لیکن جب عملی اقدامات کا سوال کیا جاتا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ملتا ،یہاں عام اور کمزور آدمی کو جن سیاسی، سماجی، قانونی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے یا اُسے استحصال پر مبنی جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ واقعی بہت تکلیف دہ ہیں۔ اس ریاستی و حکومتی نظام میں اُس کو محرومی، معاشی بدحالی اور سیاسی گھٹن کا سامنا ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں بڑھتے ہوئے عدم توازن نے اس کی معاشی مشکلات کو محض اس کی ذات تک نہیں بلکہ خاندان تک پھیلادیا ہے۔ عام آدمی سمجھتا ہے کہ آج کے ریاستی و معاشی نظام میں اس کا کوئی حصہ نہیں بلکہ اسے عملاً خیراتی نظام کے سپرد کردیا گیا ہے۔ وہ مکمل طور پر حکومت یا خیراتی اداروں پر انحصار پر مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ اس کی معاشی مشکلات کو کم کریں گے، اور عام آدمی یہ بھی جانتا ہے کہ روزگار کے حصول کے لیے ملک میں جو صنعتیں لگنی چاہیے تھیں وہ نہیں لگ رہیں، اور اسی بنا پر ملک میں نیا روزگار بھی پیدا نہیں ہورہا، بلکہ اس کے لیے پہلے سے موجود روزگار کا تحفظ بھی مشکل بنتا جارہا ہے اور تواتر کے ساتھ پرانے روزگار ختم ہورہے ہیں اور لوگوں کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اسی بنیاد پر ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی بڑھ رہی ہے، اور ان میں بڑھتی ہوئی خلیج یقینی طور پر ریاستی نظام کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
پاکستان میں بجٹ کی سیاست کے بھی کئی فکری تضادات ہیں۔ عام آدمی کا بجٹ میں معقول حصہ نہیں، اور جوعام آدمی کے مفادات پر مبنی بجٹ کی عکاسی کی جاتی ہے اس میں بھی ہمیں مکمل طور پر جھوٹ کا غلبہ نظر آتا ہے۔ بجٹ کا مقصد بڑے اور طاقت ور افراد کے مفادات کو تحفظ دینا اور کمزور آدمی پر بوجھ ڈالنا ہے۔ معیشت کا جو نظام چلایا جارہا ہے وہ اپنی سیاسی، اخلاقی اور معاشی حیثیت یا ساکھ کھوچکا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ بجٹ میں طاقت ور طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لاکر غریب لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں کہانی الٹ ہے۔ طاقت ور طبقات کو عملی طور پر ریلیف دیا جاتا ہے اورکمزور طبقات پر اس ریلیف کا بڑا معاشی بوجھ نئے ٹیکسوں کی مد میں ڈالا جاتا ہے۔ ایک طرف سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس سے بیس فیصد اضافہ کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ایک سیاسی مکاری کی بنیاد پر اسی تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگاکر ایک طرف دینے اور دوسری طرف سے لینے کی پالیسی غالب ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار نے پورے معاشی نظام پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ بنیادی طور پر ہم بجٹ کی تیاری کرتے وقت تین باتوں کا خیال کرتے ہیں:
(1) آئی ایم ایف کی شرائط کو مدنظر رکھنا اور اُسے مطمئن کرنا، (2) طاقت ور طبقات کا اپنے مفادات کو تقویت دینا اور قومی سطح پر براہِ راست ٹیکس کے بجائے اِن ڈائریکٹ ٹیکس کی مدد سے عام اورکمزور آدمی کا استحصال کرنا، (3) قرضوں کی مدد سے معیشت کا نظام چلانا اور اسی بنیاد پر معاشی پالیسی کو ترتیب دینا۔
حکمران طبقات کی کہانی سنیں تو اُن کی جانب سے بجٹ کو عوامی مفادات پر مبنی، ٹیکس فری، اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو معاشی ریلیف دینے والے بجٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومت ہو یا حزبِ اختلاف… دونوں کے پاس ایسا کوئی معاشی روڈمیپ نہیں جو اس بات کو ثابت کرسکے کہ ہمارے سیاسی نظام کی معاشی ترجیحات درست ہیں۔ حکومتی سطح پر وہ بڑے معاشی کڑوے فیصلے جو ناگزیر ہیں، کرنے کے بجائے ان پر سیاسی سمجھوتوں کی کہانی غالب ہے۔ حکومتی سطح پر جو بھی معاشی اہداف طے کیے جاتے ہیں، سال کے آخر میں پتا چلتا ہے کہ وہ مجموعی طور پر کسی بھی شعبے میں اپنے طے کردہ اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ معاشی حالات خراب ہیں اور ہم اس وقت ایسی پوزیشن میں نہیں کہ لوگوں کو کوئی بڑا ریلیف دے سکیں۔ سوال یہ ہے کہ حالیہ بجٹ میں مختلف شعبہ جات میں جو بھاری بھرکم ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی ہے اس سے کیا ہماری معیشت کے جو بھی چیلنجز ہیں ان میں کمی ممکن ہوسکے گی؟ یا ان ٹیکسوں کا سارا بوجھ طاقت ور طبقے کے مقابلے میں عام آدمی پر ڈالا جائے گا؟ کم سے کم تنخواہ 32 ہزار سے بڑھاکر 37000کرنا اچھا قدم ہے، مگر کوئی یہ بتانے کے لیے تیار ہے کہ کم سے کم ماہانہ اجرت کے قانون پر کہیں عمل درآمد ہورہا ہے؟ اور اگر نہیں ہورہا تو کیا اس پر کسی کو جواب دہ بنایا جائے گا؟ 12 سے 14 گھنٹے کام کرواکر لوگوں کو پندرہ سے بیس ہزار تنخواہ دی جاتی ہے، اور ان کو کام کا جو ماحول دیا جاتا ہے وہ بھی سوالیہ نشان ہے۔ ایک طرف لوگوں کے سامنے حکمرانوں کے جھوٹ ہیں تو دوسری طرف ان کو حزبِ اختلاف کی سیاست سے بھی کچھ نہیں مل رہا، کیونکہ اسلام آباد میں جاری سیاسی کشمکش اور طاقت ور فریقوں کے درمیان جو ٹکرائو ہے اس میں مجموعی طور پر کہیں بھی عوامی سیاست کا ایجنڈا یا عوام کو ریلیف دینے کی پالیسی موجود نہیں۔ طاقت ور طبقات کی لڑائی اپنے ہی فریقوں تک محدود رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ اسلام آباد میں جاری ٹکرائوکی سیاست سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بنیادی طور پر ریاستی نظام ہو یا حکومتی نظام… ایسا لگتا ہے کہ ان میں عام آدمی کا کوئی حصہ نہیں اور انسانی ترقی کسی کا ایجنڈا نہیں۔ ہم انتظامی ڈھانچوں پر تو بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں مگر انسانی ترقی ہماری قومی ترجیحات بہت دور نظر آتی ہے۔
اگرچہ حکومت کسی کی بھی ہو اورکوئی بھی حکمران ہو، سبھی اس کا دعویٰ توکرتے ہیں کہ ہم اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لائیں گے اور اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جیسے ہی بجٹ کی کہانی ٹھنڈی پڑتی ہے، فوری طور پر ہم اپنی ہی باتوں پر یوٹرن لے کر اُسی بڑی اشرافیہ کو ریلیف دیتے ہیں جن کو قانون یا ٹیکس کے شکنجے میں لانا ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب ریاست اور حکومت میں موجود وہ بڑے لوگ جو فیصلہ ساز ہیں، جب خود ہی کاروبار کریں گے یا کاروباری طبقات سے ان کے اپنے معاشی مفادات وابستہ ہوں گے تو کیسے وہ معاشی فیصلے ممکن ہوسکیں گے جو عوامی مفادات سے جڑے ہوتے ہیں؟ اس بجٹ میں بھی دیکھ لیں، وزیراعظم کی سربراہی میں کئی دفعہ کمیٹیاں بنائی گئیں کہ وہ غیر ضروری اخراجات میں کمی کو ممکن بناکر اپنی سفارشات پیش کریں، لیکن کمیٹیوں کے اس کھیل کا کوئی عملی نتیجہ نہیں نکل سکا، اور ایک بار پھر غیر ضروری اخراجات میں کمی کی بات پیچھے رہ گئی ہے۔ اس پورے کھیل میں نہ صرف حکومت شامل ہے بلکہ اس میں اُس کی اتحادی جماعتوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ پیپلزپارٹی کی، حکومت میں ہوتے ہوئے حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی سوائے سیاسی دھوکہ دہی کے کچھ بھی نہیں۔ صدرِ پاکستان، دو صوبوں کی براہِ راست حکومت اور دو صوبوں میں گورنرز، چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی جیسے حکومتی عہدوں پر موجودگی… اور یہ کہنا کہ ہم بجٹ میں حکومت کے ساتھ نہیں، سوائے دھوکے کی سیاست کے کچھ بھی نہیں ہے۔اس تناظر میں ایک دلچسپ لطیفہ سوشل میڈیا پر موجود ہے، پیپلزپارٹی گلہ کررہی ہے کہ ہمیں مسلم لیگ ن کی حکومت نے کسی بھی موقع پر بجٹ کی تیاری اور اعلان پر اعتماد میںنہیں لیا ۔ اس پر مسلم لیگ ن کا بھی ایک معصومانہ جواب سامنے آیا ہے کہ پیپلز پارٹی والے فکر نہ کریں کیونکہ جنہوں نے حقیقی معنوں میں بجٹ بنایا ہے انہوں نے ہمیں یعنی مسلم لیگ ن کو بھی اعتماد میں لینا گوارا نہیں کیا۔ ویسے بھی اسپیشل اکنامک فیسیلٹیشن کونسل یعنی SIFCکی موجودگی میں حکومت کے پاس وہ اختیارات نہیں جو اس کونسل کو عملاً حاصل ہیں۔ اس نظام کی خاص بات یہ ہے کہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے تنخواہ دار طبقہ اس برس 360 ارب روپے ٹیکس ادا کرے گا، لیکن کیا حکومت یہ بتانے کے لیے تیار ہے کہ کاروباری افراد سمیت طاقت ور طبقوں سے ٹیکس وصولی کے جو اہداف پہلے طے کیے گئے تھے اُن کا کیا بنا؟ اور اب جو اہداف طے کیے جارہے ہیں اُن کا کیا بنے گا؟
بنیادی طور پر ہمارے حکمران طبقات کو کمزور اور غریب لوگوں کی کہانیوں کو سننا ہوگا کہ وہ کن مشکل حالات میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں، اور جو بحران بجلی، گیس اورپٹرول کی قیمتوں میں بدترین اضافے کی صورت میں لوگوں کو بھگتنا پڑرہا ہے اس کا کیا بنے گا۔ ایک طرف عام یا کمزور آدمی ہے تو دوسری طرف مڈل کلاس یا سفید پوش طبقہ ہے جس کے معیارِ زندگی میں خاصی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ لوگ ذہنی طور پر پریشان اور غیر یقینی معاشی صورتِ حال پر ماتم کناں ہیں،کیونکہ ان کے لیے ذرائع آمدن بڑھانے کے مواقع محدود ہوگئے ہیں اور اخراجات میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ جو لوگ بجٹ کے حوالے سے توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے ان کو بھی شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، اور چھوٹے، بڑے تاجروں یا کاروباری افراد نے بجٹ کو مسترد کردیا ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں ریاست کو آج بھی بیرونی قرضوں کے بوجھ، ریونیو حاصل کرنے کے محدود ذرائع، توانائی کے بوسیدہ نظام، بڑھتی ہوئی آبادی، عذائیت کی کمی، تعلیم اور صحت کے بحران اور روزگار کی عدم دستیابی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ حکومتی سطح پر جو سخت اصلاحات اور بالخصوص اسٹرکچرل ریفارمز ہونی چاہئیں، اس سے حکومت مسلسل بھاگ رہی ہے۔ کفایت شعاری، اخراجات کو کم کرنا، غیر ترقیاقی امور کے مقابلے میں انسانی ترقی پر سرمایہ کاری، معیشت کی بہتری کے لیے غیر معمولی اقدامات کی عدم پالیسی جیسے مسائل کی موجودگی میں ہم عام آدمی کا سیاسی اور معاشی مقدمہ کیسے جیت سکیں گے؟ ہمیں معیشت کی مضبوطی کے لیے اِن غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے ہی درکار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیونکہ درست معاشی اصلاحات اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہیں جب ہم مسائل کی درست نشاندہی کریں اور ایسے اقدامات کی طرف توجہ دیں جو عام آدمی کی حالت بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کرسکیں۔ لیکن اس کے لیے طاقت ور طبقات کو عام آدمی کے مقابلے میں ذاتی معیشت کو مضبوط کرنے جیسے ایجنڈے سے باہر نکلنا ہوگا۔ ہم بدقسمتی سے ریاستی یا حکومتی نظام پر کوئی بڑا دبائو پیدا نہیں کرسکے۔ اس کے لیے ایک بڑی جدوجہد درکار ہے جو ریاستی وحکومتی نظام کوعملاً درست سمت میں لاسکے۔ لیکن طاقت ور طبقات جو ریاستی و حکومتی نظام میں موجود ہیں اور جن کے پاس بڑے فیصلوں کی طاقت ہے وہ کیونکر طاقت کے کھیل سے باہر نکل سکیں گے؟دنیا میں طاقت کی حکمرانی کو عوامی طاقت کی حکمرانی میں تبدیل کرنے کا عمل بڑی سیاسی جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔
اس لیے عام آدمی کی سیاست کے تناظر میں ہمیں اپنے پورے ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں ایک بڑی سرجری درکار ہے، اس کے بغیر مرض کا ٹھیک ہوناممکن نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں، حکمرانوں، ریاستی اداروں اور طاقت ور طبقات کو ایک بنیادی بات سمجھنی ہوگی کہ عام آدمی کو سیاسی اور معاشی طاقت دیے بغیر ہم اپنا ریاستی مقدمہ نہیںجیت سکیں گے۔