عوام دشمن آئی ایم ایف بجٹ 2024ء

حکومت کو بجٹ پر عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2024-25ء کے لیے 18 ہزار 877 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے۔ حالیہ بجٹ ایک سراب ہے جسے حکومت امید قرار دے رہی ہے۔ حکومت کی زبان میں بات کی جائے تو یہ بجٹ خوش نما ہے۔ عوام کی بات کی جائے تو بجٹ دھوکہ اور فریب ہے جس کا پیغام یہ ہے کہ زندگی رہی تو ضرور بہار بھی آئے گی اور پھول بھی کھلیں گے، پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ۔ اس سے زیادہ اس بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔ بجٹ تقریر اونچی دکان پھیکا پکوان ہے۔ حالیہ بجٹ صرف ریونیو وصولی پر مبنی ہے۔ وزیر خزانہ اور ایف بی آر نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے ملکی معیشت کے ہر شعبے سے زیادہ سے زیادہ ریونیو وصول کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ بجٹ پر پیپلزپارٹی کو جزوی تحفظات ہیں۔ حکومت سازی کے وقت مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی سے جو معاہدہ کیا تھا، اس پر 50 فیصد بھی عمل نہیں کیا گیا۔ معاہدے کی رو سے صوبوں میں پبلک سیکٹر ترقیاتی منصوبوں کی مد میں مشاورت سے بجٹ مختص کیا جانا تھا جو حالیہ بجٹ میں نہیں کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کو زرعی شعبے کے Inputs پر سیلز ٹیکس لگانے پر بھی تحفظات ہیں۔ حکومت نے جس بنیاد پر بجٹ بنایا ہے وہ یہ ہے کہ اصول طے کیا گیا ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی 9.5 فیصد سے کام نہیں چلے گا، اسے بتدریج 13.5 فیصد پر لے کر جانا پڑے گا۔ ریونیو کے لیے سوچ یہ تھی کہ وہ تمام شعبے جو پہلے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں نہیں تھے، انہیں گرفت میں لایا جائے۔ دوسرا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ گزشتہ برس 39 کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی اسے ختم کردیا گیا ہے۔ اس لیے ٹیکس نیٹ بڑھاکر 31، 32 ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ کیے گئے ہیں، یہ سلسلہ اب آگے بڑھے گا، فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے جبر بھی کیا جائے گا۔ اسی طرح سیلزٹیکس کی چھان بین ہوگی۔ سب سے پہلے ٹوبیکو پر ہاتھ ڈالا گیا ہے، اس کے بعد چینی، کھاد، سیمنٹ پر ہاتھ ڈالا جائے گا، لیکن ایف بی آر کی بلیک میلنگ بھی ختم ہوگی۔ حکومت اب آٹومیشن کی طرف جارہی ہے، جو وزارتیں صوبوں کو منتقل ہوگئی ہیں، اب وفاق انہیں نہیں چلائے گا۔ تیسرا قدم نج کاری کا ہے۔ ریاستی ملکیتی اداروں کا خسارہ اب حکومت برداشت نہیں کرے گی۔ حکومت اعتراف کرتی ہے کہ اس نے تنخواہ دار طبقے اور مینوفیکچرنگ کو ریلیف نہیں دیا۔ لیکن زراعت کو پھر چھوڑ دیا گیا ہے، اس کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہماری معیشت میں زراعت کا عمل دخل 40 فیصد کے قریب ہے، یہ شعبہ کیوں چھوڑا گیا؟ اس کا جواب حکومت کے پاس نہیں ہے۔ بجٹ میں دیے گئے اعداد و شمار میں عوام کی کوئی دلچسپی نہیں، وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کی آمدن اور اخراجات میں اس بجٹ سے کتنا بگاڑ پیدا ہوگا؟ حکومت نے ٹیکس اکٹھا کرنے کے آسان طریقوں پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو اس کے لیے تو آسان ہیں لیکن عوام کے لیے ان کے نتائج اچھے نہیں ہیں، جیسا کہ تقریباً ہر چیز پرسیلزٹیکس نافذ کردیا گیا ہے، حتیٰ کہ پیک دودھ پر بھی سیلزٹیکس عائد کردیا گیا ہے، یہ صنعت سارا بوجھ صارف پر منتقل کردے گی۔

حکومت سادگی کا دعویٰ کرتی ہے، مگر آئندہ مالی سال میں بھی پارلیمنٹرینز کی ترقیاتی اسکیمیں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے 75 ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ کام بلدیاتی اداروں کا ہے، جن کا وجود حکومت کو پسند نہیں۔

حکومت نے نان فائلرز کی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس نے گزشتہ سال نان فائلرز کے بنک اکائونٹ سے 50 ہزار سے زیادہ کیش نکلوانے کی مد میں تقریباً دس ارب روپے ایڈوانس ٹیکس وصول کیا ہے۔ حکومت کو یقین ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو مستحکم کرے گا، اور مالی خسارہ کم ہوگا۔ اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوکر0.3 فیصد رہ گیا ہے اور پاکستان کو ایک سال میں بیرونی ادائیگیوں کے لیے 20 ارب ڈالر درکارہوں گے، توقع ہے کہ بجٹ میں پاکستان کے کچھ قرضے رول اوور ہوجائیں گے، لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی کے نتیجے میں عوامی ردعمل اس قدر بڑھے گا کہ حکومت کی جانب سے اصلاحات کے اقدامات متاثر ہوسکتے ہیں۔ حکومت کا آدھے سے زیادہ ریونیو سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگا۔ سارے کا سارا بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام پر ہی انحصار کررہا ہے۔ حکومت کے پاس مضبوط الیکٹورل مینڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے اصلاحات پرعمل مشکل ہوسکتا ہے۔ ریونیو میں 40 فیصد اضافہ ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے ہے، ملکی خوشحالی کی وجہ سے نہیں ہے۔ بجٹ 2024-25ء میں آئندہ سال 12970 ارب روپے کا ریونیو ہدف رکھا گیا ہے، جبکہ رواں مالی سال کا ریونیو وصولی ہدف 9252 ارب روپے تھا۔ اس لحاظ سے ایف بی آر کو آئندہ مالی سال 3718ارب روپے کے اضافی ٹیکس وصول کرنے ہیں جو تقریباً 40فیصد زیادہ اور غیر حقیقی ہدف ہے۔ حکومت نے مختلف شعبوں کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز میں کمی یا خاتمے کا اعلان کیا ہے جس سے 1768ارب روپے کے نئے ٹیکس وصول کیے جائیں گے اورنان فائلرز کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ہے، تاجر دوست اسکیم میں خود کو رجسٹرڈ نہ کرانے کی صورت میں ٹیکس نادہندگان کے دفاتر اور دکانیں Seal کرنے کی تجویز ہے۔ یکم جولائی 2024ء سے پراپرٹی کی خرید و فروخت کے لیے مدت کا تعین کیے بغیر کیپٹل گین ٹیکس عائد ہوگا اور رہائشی اور کمرشل پلاٹوں کی خرید و فروخت پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگے گی۔ پلاٹوں کی ایف بی آر ویلیو ایشن میں اضافے کی بھی تجویز ہے۔ بجٹ میں زیرو ریٹنگ ختم کردی گئی ہے۔ ٹیکسٹائل اور دیگر ایکسپورٹ سیکٹرز جو پہلے ایک فیصد حتمی ٹیکس دیتے تھے، اب انہیں دیگر سیکٹرز کی طرح 29 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ صنعتی سیکٹر کو مقابلاتی بنانے کے لیے 200 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت صنعت کے لیے بجلی کے نرخوں میں 10.69 روپے فی یونٹ کمی اور گھریلو صارفین کے لیے 5.79 روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں مختلف سیکٹرز پر سیلز اور دیگر ٹیکس عائد کرنے سے دوائیاں، سیمنٹ، چینی، دودھ اور ٹریکٹر مہنگے ہوجائیں گے۔

میں معیشت کے طالب علم کی حیثیت سے آنے والے وقت میں بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار سے افراطِ زر یعنی مہنگائی میں اضافہ دیکھ رہا ہوں جو عام آدمی کی زندگی مشکل بنادے گا۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ملک بھر میں 36 لاکھ ریٹیلرز صرف چار سے پانچ ارب روپے سالانہ ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ ٹیکس کے ذریعے قومی خزانے میں 375 ارب روپے کا حصہ ڈال رہا ہے، ایکسپورٹرز صرف 90 سے 100 ارب روپے ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ اس سب کا ذمہ دار ایف بی آر ہے۔ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے ایک جیسے سلیبس مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور 45 فیصد سے زیادہ شرح مقرر کرنے کو کہا تھا، لیکن آئی ایم ایف تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح کم کرنے پر راضی ہوا تھا۔ حکومت نے ٹیکس ہدف پورا کرنے کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر لاد دیا۔ بجٹ کے مطابق حکومت کو 13ہزار ارب کا ریونیو اکٹھا کرنا ہے،جس میں سے 9ہزار800 ارب قرض کا سود ادا کرنا ہے، بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے ساڑھے 7 ہزار ارب کا قرض لینا پڑے گا۔ ہماری دفاعی ضروریات اور ترقیاتی پروگرام سب کا انحصار قرض پر ہے، بجٹ میں صرف تنخواہ دار طبقے کو ہی نشانے پر رکھا گیا ہے، حکومت نے اسے ایف بی آر کے ’’فائرنگ اسکواڈ‘‘ کے سامنے دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا ہے۔ تاجروں، جاگیرداروں، ذخیرہ اندوزوں، اسمگلرز، صنعت کاروں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ بجٹ پر کیا بات کی جا سکتی ہے!

بجٹ کے اعدادو شمار کے مطابق حکومت کو12970 ارب روپے آمدنی متوقع ہے۔ نان ٹیکس آمدن کی مد میں3587 ارب مل جانے کی امید ہے، خالص آمدنی9119 ارب روپے ہوگی۔ اس رقم میں سے دفاع پر 2122 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے،824 ارب ترقیاتی پروگرام کے لیے خرچ کیے جائیں گے، اور ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا سود ادا کرنے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے علاوہ قرض واپس کرنے کے بعد حکومت کے ہاتھ میں جو آئے گا، اس کی مثال یہ ہے کہ ’’گنجی کیا نہائے گی کیا نچوڑے گی‘‘۔

بجٹ کا بنیادی خیال یہ ہے کہ پاکستان جلد پائیدار گروتھ کی راہ پر لوٹ آئے گا، سست گروتھ کو بہتر کرنے کے لیے اصلاحات کو آگے بڑھانا پڑے گا۔ حکومت چاہتی ہے کہ اب پرائیویٹ سیکٹر کو معیشت کا حصہ بنایا جائے، اسی لیے نج کاری بھی کی جائے گی۔ پی آئی اے کی نج کاری تیار ہے، جسے اس سال کے وسط تک مکمل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ بجٹ میں تمام تر متوقع آمدنی کا اندازہ لگانے کے بعد کہا گیا ہے کہ خسارے کا تخمینہ 9600 ارب ہوسکتا ہے، یہ خسارہ ٹیکس لگاکر پورا کیا جائے گا، تاہم بجٹ میں مجموعی اخراجات کا تخمینہ 24 ہزار 710ارب اور جاری اخراجات کا تخمینہ 22ہزار 37ارب لگایا گیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ 1221ارب اوردفاعی اخراجات 2152ارب مختص کیے گئے ہیں۔ قرضوں پر سود کی رقم 9787ارب، اندرونی قرضوں پر سود کی رقم 8517ارب روپے ہے۔ بجٹ میں ایک سے 16گریڈ کے ملازمین کی تنخواہیں 25فیصد، 17سے 22گریڈ ملازمین کی تنخواہیں 20فیصد بڑھانے، 16گریڈ تک ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 20فیصد اور 17 سے 22گریڈ کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15فیصد اضافے کی تجویز ہے۔ مرکزی بنک نے طویل عرصے کے بعد پالیسی فیصلہ کیا ہے جس کی روشنی میں شرح سود کم کی گئی ہے، تاکہ سرمایہ بنکوں میں رکھے جانے کے بجائے مارکیٹ میں لگایا جائے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں، لیکن یہ توقع پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی کہ حکومت کے اقدامات پر تسلی بخش اطمینان کی صورت موجود نہیں ہے۔ اپوزیشن نے اس بجٹ پر ردعمل دیا کہ آئی ایم ایف بجٹ میں حکومتی منشا شامل نہیں ہے۔ یہ ایک جامع ردعمل ہے، کیونکہ بجٹ کے بعد مہنگائی بڑھے گی اور یہ شرح 12 فی صد تک بھی جاسکتی ہے، کیونکہ عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ نان ٹیکس ریونیو مہنگائی کا بہت بڑا ذریعہ ہے جس کو بڑھاکر3587ارب روپے کردیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی ردعمل دیا ہے کہ ’’آئی ایم ایف کی غلامی کی دستاویزکو بجٹ کا نام دیا گیا ہے، وزیرخزانہ کی پریس کانفرنس ناکامیوں کی داستان تھی، حکومت نے آئی ایم ایف کو اداروں میں مداخلت کی اجازت بھی دے رکھی ہے، حکمران آئی ایم ایف سے قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر مذاکرات کی جرأت نہیں رکھتے، ملک میں وزرائے خزانہ درآمد کیے جاتے ہیں، آئی ایم ایف سے لیے گئے 23 پروگراموں سے معیشت بہتر نہ ہوئی، ٹیکس آمدن اضافے میں ایف بی آر کا کوئی کریڈٹ نہیں، تنخواہ دار طبقے سے 326 ارب سمیٹے گئے، پیٹرولیم لیوی، مہنگی گیس اور بجلی بلنگ سے غریب کو نچوڑا گیا، ٹیکس آمدن کا 87 فیصد قرض اور سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، جب تک سود رہے گا، معیشت ٹھیک نہیں ہوگی، مہنگی بجلی آئی پی پیز سے کیے گئے ظالمانہ اور عوام دشمن معاہدوں کا نتیجہ ہے۔‘‘ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ’’بجٹ 2024-25ء روایتی، فرسودہ اور ملک و ملت کے لیے تباہی لانے والی بنیادوں پر ہی پیش کیا گیا ہے۔ یہ بجٹ مہنگائی، بے روزگاری اور سماجی افراتفری کا نیا سونامی لائے گا۔ معاشی پہیہ پہلے ہی جام ہے، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عمل درآمد سے زراعت، صنعت اور تجارت کے لیے بجٹ عقوبت خانہ بن جائے گا۔ وزیراعظم شہبازشریف حکومت کی ڈھٹائی کی انتہا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کوئی اہتمام اور روڈمیپ تجویز نہیں کیا گیا۔‘‘ پیپلزپارٹی نے بھی اپنا ردعمل دیا ہے کہ ’’عوام دشمن بجٹ کی حمایت کرنا مشکل تر امر ہوگا لیکن جب معاشی سرگرمی ہی نہیں ہوگی تو عمل درآمد ناممکنات میں ہو گا‘‘۔

اتنے بڑے مالی خسارے کے باوجود حکومت نے 1400 ارب روپے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے رکھے ہیں، تاہم اخراجات میں سب سے بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کا ہے جس کی مد میں 9775 ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔ یہ رقم دفاعی اخراجات سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ دفاع کے لیے 2122 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت ایف بی آر کے ذریعے 12970 ارب روپے جمع کرے گی لیکن اس میں سے 7438 ارب روپے صوبوں کو دیئے جائیں گے۔ حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود ٹیکسوں کا بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا ہے جس سے حکومت تنخواہ پر انکم ٹیکس وصول کرنے کے علاوہ یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے بھی انکم ٹیکس وصول کرتی ہے۔ نان ٹیکس محصولات کو ملا کر وفاقی حکومت کی آمدن 9119 ارب روپے ہوگی، اس لیے خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضوں، قومی اداروں کی نجکاری اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد پر انحصار کیا جائے گا۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نئے مالی سال کے اہداف کے حصول میں مشکلات پیدا کر سکتی تھی۔ گزشتہ سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور نئے پروگرام سے متعلق غیر یقینی کی کیفیت تھی، آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں تاخیر انتہائی مشکلات پیدا کر سکتی تھی جبکہ آئی ایم ایف کہہ چکا ہے کہ 6سے8ارب ڈالر تک ملکی تاریخ کے سب سے بڑے پروگرام کے لیے ابھی جائزہ اجلاس بھی نہیں ہوا۔ اسٹاف لیول جائزہ اجلاسوں کے بعد آئی ایم ایف کا مشن پاکستان کا دورہ کرے گا، مگر حالات وواقعات کے پیش نظر ممکن نظر نہیں آرہا کہ عالمی مالیاتی ادارہ رواں سال نئے پروگرام کے لیے مذاکرات مکمل کرپائے گا۔ دوست ممالک، ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت قرض فراہم کرنے والے دیگر ادارے نئے قرضوں کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے مشروط کرچکے ہیں، جون میں ختم ہونے والے پروگرام سے قبل بھی دوست ممالک اور مالیاتی اداروں نے قرض یا کسی بھی قسم کی مدد کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے مشروط کیا تھا۔ پاکستان کو آئندہ مالی سال میں ملکی و غیر ملکی قرضوں پر 9775 ارب روپے سود کی ادائیگی کرنی پڑے گی۔ بجٹ دستاویز کے مطابق پاکستان کے 18000 ارب روپے سے زائد کے بجٹ میں سود کی ادائیگی 50 فیصد ہے۔ وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال میں 12970 ارب روپے کا ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنے کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو سے 4845 ارب روپے اکٹھے ہوں گے۔ حکومت نے اگلے مالی سال میں مختلف ذرائع سے 7500 ارب روپے قرض لینے کا تخمینہ لگایا ہے۔ حکومت نے اگلے مالی سال میں 1363 ارب روپے کی سبسڈی دینے کی تجویز بجٹ میں دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے کوئی جدید اقدامات متعارف نہیں کروائے گئے جس سے حکومت وسائل کو پاکستان کی معاشی ترقی کی جانب موڑ سکے۔ زرعی آمدن پر ٹیکس کی بازگشت سنی جارہی تھی مگر وزیرخزانہ کی بجٹ تقریر میں اس کا تذکرہ نہیں ملا بلکہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ تنخواہ داروں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ حکومت آمدنی بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کرے گی اور تنخواہ داروں اور عام شہریوں کو ٹیکسوں میں ریلیف ملے گا، مگر50 ہزارایک سو روپے تنخواہ پر ڈھائی ہزار روپے ٹیکس ظالمانہ اقدام ہے۔ افراطِ زراور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے دوسالوں میں روپے کی قدر بہت زیادہ گر چکی ہے اور ڈالر 2022ء میں 176روپے کے مقابلے میں280 روپے تک جاچکا ہے۔ گویا ڈالر کی قدر میں دوسالوں کے دوران104روپے کا اضافہ ہوا، جبکہ پچھلے دوسالوں میں بجلی،گیس، اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کئی سو فیصد اضافہ ہوا۔ پچاس ہزار روپے سال 2022ء میں 284 امریکی ڈالر کے برابر تھے، جبکہ جون 2024ء میں پچاس ہزار روپے کی قدر 178امریکی ڈالر کے برابر رہ گئی ہے، ایسے میں ایک لاکھ سے نیچے تنخواہ کو ناقابلِ ٹیکس قراردیا جانا چاہیے۔

بجٹ دستاویز اگر معاشیات کا ایک پروفیسر ٹھیک طرح سے پڑھنے سے قاصر ہے تو عام شہری کو یہ کیسے سمجھ میں آئے گی؟ بجٹ کے مجموعی خسارے کو تلاش کرنا کسی ناممکن کو ممکن کرنے سے کم نہیں، کیونکہ اعداد وشمار کے ہیر پھیر سے اسے بجٹ کے ہزاروں صفحات پر مشتمل دستاویزات میں مختلف جگہوں پر تکنیکی ٹرمزکے ساتھ بیان کیا گیا ہوتا ہے۔ بجٹ دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ’’ٹیکس فری‘‘بجٹ کے باوجود مہنگائی میں اضافہ کیوں ہوا ہے، کیونکہ ٹیکسوں کو ٹیکنیکل ٹرمزکے ساتھ مختلف مدات میں چھپایا گیا ہوتا ہے۔ اس ’’جادوگری‘‘کو بڑے بڑے ماہرین پکڑنے میں ناکام رہتے ہیں تو عام شہری بیچارا کیسے پکڑسکتا ہے!