انقلاب کے لیے درکار معاشرہ

’’وہ معاشرہ جو مذہب کے لیے نااہل ہو، وہ انقلاب کے لیے بھی نااہل ہوتا ہے۔ جن ممالک میں انقلابی حدّت ہوتی ہے وہ لازماً زندہ مذہبی احساسات کے حامل ہوتے ہیں۔ برادرانہ جذبات، یگانگت، باہمی استحکام اور عدل اپنے جوہر میں مذہبی عناصر ہیں۔ یہ انقلاب کی صورت میں اس دنیا میں عدل و انصاف اور ایک جنتِ ارضی کے قیام کو دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔‘‘

’’مذہب اور انقلاب دونوں آلام اور ابتلا میں پیدا ہوتے ہیں اور خوشحالی اور آسائش میں مٹ جاتے ہیں۔ ان کی اصل زندگی ان کی اپنے آدرش کی تکمیل کی کشمکش میں ہے۔ جونہی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں فنا انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ مذہب اور انقلاب دونوں اپنی تکمیل کے بعد ادارے اور انتظامی ہیکل تشکیل دیتے ہیں جو بالآخر انہیں بے دم کردیتے ہیں۔ سرکاری ادارے نہ انقلابی ہوتے ہیں نہ مذہبی۔‘‘

’’سائنس کی ترقی کتنی ہی عظیم اور ہوش ربا کیوں نہ ہو، مذہب اور اخلاقیات کو غیرضروری نہیں قرار دے سکتی۔ سائنس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو یہ نہیں بتاسکتی کہ زندگی کس طرح گزاری جائے، نہ ہی یہ اس قابل ہے کہ قدروں کا تعین کرسکے۔ وہ قدریں جو حیاتیاتی زندگی کو انسانی سطح پر لاتی ہیں وہ مذہب کے بغیرلازماً غیرمعلوم اور ناقابلِ فہم رہیں گی۔ مذہب انسان کو دوسری دنیا کا فہم دیتا ہے، جبکہ اخلاقیات اسے معنی عطا کرتی ہیں۔‘‘

’’معاشرتی تبدیلی محض عبادات اور اخلاقیات سے نہیں لائی جاسکتی۔ تبدیلی صرف بذریعہ قوت جس کی پشت پر نظریات یا مفادات ہوں، ہی لائی جاسکتی ہے۔ ہم زندگی کو صرف سائنسی ذرائع سے بیان نہیں کرسکتے کیونکہ زندگی معجزہ بھی ہے اور مظہرِ فطرت بھی۔ انسانی زندگی کو سمجھنے کے لیے تحیر اور اعترافِ کمال ہی اعلیٰ ترین ذرائع ہیں۔‘‘

’’اگر یہ سچ ہے کہ ہم ابتلا میں ابھرتے ہیں اور نفس کے تلذز میں زوال سے دوچار ہوجاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم جانوروں سے مختلف ہیں۔ نہ تو انسان کی (ارتقائی تشکیل) ڈارون کے مطابق ہوئی ہے اور نہ کائنات کو نیوٹن کے خیالات کے مطابق بنایا گیا ہے۔‘‘

’’زندگی ہرگز یہ ظاہر نہیں کرتی کہ وہ مادے کی ارتقائی شکل ہے۔ نہ ہی میکانکی حوالے سے اور نہ ہی فلسفیانہ حوالے سے اور نہ ہی یہ مادے کی انتہائی منظم اور پیچیدہ ترین شکل ہے۔ زندگی کی خصوصیت کو غور سے دیکھیں تو یہ ہمارے مادے کے تصور اور فہم کے برعکس نظر آتی ہے۔ درحقیقت زندگی قطعی طور پر مادے کی ضد ہے۔‘‘عالی جاہ عزت بیگ وچ،سابق صدر بوسنیا ہرزیگووینا

(Islam Between East and West، انتخاب: طارق جان۔
حوالہ “میرا مطالعہ” مرتب عرفان احمد بھٹی)

نفسیات غلامی
سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب
کھول کر کہئے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی!
دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفہ روباہی!
ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی!