وزیراعظم جناب محمد شہبازشریف نے عیدالاضحی سے قبل قوم سے خطاب فرمایا اور قوم کے سامنے خوش خبریوں کے انبار لگاتے ہوئے فرمایا کہ ’’قوم سے میرا عہد ہے کہ پاکستان کا مستقبل روشن کرنے کے لیے کڑے سے کڑا فیصلہ کروں گا۔ کوئی دبائو برداشت نہیں کروں گا، جو قربانی دینا پڑی مل کر دیں گے‘‘۔ جناب وزیراعظم نے مزید وعدہ فرمایا کہ ’’موجودہ آئی ایم ایف پروگرام پاکستانی تاریخ کا آخری پروگرام ہوگا اور ہم ترقی کی دوڑ میں ہمسایہ ممالک کو پیچھے چھوڑیں گے۔ ماضی میں ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ مستقبل کا راستہ چن لیا ہے، عوامی پیسے پر عیاشی نہیں ہوگی، قوم کا ایک ایک دھیلا ملک کی ترقی پر خرچ ہوگا، پاکستان معاشی مشکلات سے نکل کر ترقی کی جانب گامزن ہورہا ہے، مہنگائی 38 فیصد سے کم ہوکر 12 فیصد پر آگئی ہے، آئندہ مزید آسودگی ملنے کی توقع ہے۔ شرح سود 22 فیصد سے کم ہوکر 20 فیصد پر آگئی ہے، اس سے سرمایہ کاری بڑھے گی اور قرضے کم ہوں گے۔ یہ سفر نہ صرف مشکل اور طویل ہے بلکہ حکومت اور اشرافیہ سے قربانی مانگتا ہے۔ دہشت گرد، بجلی چور، منافع خور، ٹیکس چور اور بدعنوان سرکاری ملازم ملکی ترقی و استحکام کے دشمن ہیں۔ شہداء اور غازیوں کی توہین کرنے والا ملکی ترقی و خوش حالی کا دشمن ہے۔ عوامی خدمت کے لیے قوم پر بوجھ وزارتیں اور ادارے ختم کرنا ناگزیر ہے۔ آئندہ دو ماہ میں بہت ٹھوس فیصلے اور مثبت نتائج لے کر آئوں گا۔‘‘
قوم سے اپنے طویل خطاب کے دوران وزیراعظم نے جو جو وعدے فرمائے ہیں اور جو جو نوید ہائے مسرت سنائی ہیں ان کے متعلق ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس کے سوا کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ ؎
تیرے وعدے پہ جیے تو یہ جان جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
وزیراعظم اور ان کی جماعت کے پاکستان میں اقتدار اور قوم سے وعدوں کا سلسلہ خاصا طویل ہے، اس لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ ان کے کس دعوے اور کس وعدے سے سلسلہ کلام شروع کیا جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام پاکستان کی تاریخ کا آخری پروگرام ہوگا۔ اس پر بے اختیار زبان سے یہ تائیدی کلمہ ادا کرنے کو جی چاہتا ہے کہ ’’ایں دعا ازمن و از جملہ جہاں آمین باد۔‘‘ مگر اس کے ساتھ ہی یادداشت کے کسی گوشے سے جناب وزیراعظم کی جماعت کا یہ نعرہ بھی حقائق سے پردہ کشائی کرنے لگتا ہے کہ ’’قرض اتارو… ملک سنوارو۔‘‘ عوام نے وزیراعظم اور ان کے برادرِ بزرگ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی استطاعت سے بڑھ کر عطیات عطا کیے مگر آج تک قرض اتر سکا ہے نہ ملک سنور سکا ہے، بلکہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق پاکستانی قوم کو ’’قرض بڑھتا گیا جوں جوں ادا کیا‘‘ کی کیفیت کا سامنا ہے۔ میاں محمد شہبازشریف نے یہ نویدِ جاں فزا بھی عوام کو سنائی ہے کہ ’’عوامی پیسے پر عیاشی نہیں ہوگی بلکہ قوم کا ایک ایک دھیلا ملک کی ترقی پر خرچ ہوگا۔‘‘ اس تحقیق و تفتیش میں پڑے بغیر کہ میاں صاحب ملک کی ترقی پر خرچ کرنے کے لیے ’’دھیلا‘‘ نامی کرنسی کا سراغ کون سے روزن تاریخ سے لگائیں گے کہ آج کل تو ایک ہزار روپے کا نوٹ دھیلے سے زیادہ ناقدری کا شکار ہے، ہم میاں صاحب کو فقط یہ یاد دلانا چاہیں گے کہ عیاشی کے خاتمے کا جو وعدہ اور ارادہ انہوں نے قوم سے کیا ہے اس کی عملی صورت یہ ہے کہ وزیراعظم ہائوس، ایوانِ صدر اور مجلسِ شوریٰ کے ایوانِ زیریں و بالا کے آئندہ برس کے بجٹ میں تیس فیصد اضافے کا اعلان جناب وزیر خزانہ نے کردیا ہے۔ کسی بھی سطح کے پروٹوکول کے اخراجات اور اشرافیہ کی مراعات میں کسی بھی قسم کی کمی کا اعلان بجٹ میں نہیں کیا گیا ہے، اس کے با وجود معلوم نہیں وزیراعظم کس طرح عوامی پیسے پر عیاشی نہ کرنے کا وعدہ قوم سے فرما رہے ہیں! انہوں نے سفر کی طوالت اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بجا طور پر فرمایا ہے کہ یہ سفر حکومت اور اشرافیہ سے قربانی کا متقاضی ہے، مگر تاحال ان کی جانب سے حکومت اور اشرافیہ کی عملی مثال کی یہ قوم منتظر ہے۔ وزیراعظم نے دہشت گردوں، بجلی چوروں، منافع خوروں، ٹیکس چوروں اور بدعنوان سرکاری ملازمین کو ملکی ترقی و استحکام کا دشمن قرار دیا ہے۔ ان کے اس ارشاد سے اختلاف کی مجال کسی کو نہیں ہوسکتی مگر اس کا کیا کیجیے کہ چند سال قبل جن کو مسٹر دس فیصد اور ایک سو دس فیصد کے القابات عطا فرماکر وزیراعظم محترم ان کے گلے میں کپڑا ڈال کر گلیوں میں گھسیٹنے کے وعدے قوم سے کرتے رہے اور ان سے کرپشن کی ایک ایک پائی پیٹ پھاڑ کر برآمد کرنے کے دعوے فرماتے رہے ہیں، آج انہی صاحب کو وزیراعظم نے اپنے ووٹوں سے ملک کے معزز ترین ایوانِ صدر کا مکین بناکر بے پناہ عزت و احترام کے منصب سے سرفراز کررکھا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ جناب وزیراعظم کا کل کا ارشاد درست تھا یا آج کا اقدام قابلِ اعتماد و اعتبار ہے؟
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں شرح سود کے بائیس فیصد سے کم ہوکر بیس فیصد پر آجانے کے فوائد و منافع سے بھی قوم کو آگاہ فرمایا ہے، مگر اس معاملے میں بھی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم کے برادرِ بزرگ نے آئی جے آئی کے قیام کے وقت قوم سے اسلامی نظام کے نفاذ اور سود کے خاتمے کا وعدہ فرمایا مگر پھر وفاقی شرعی عدالت کے سود کے حرام ہونے کے فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل کردی جس پر مرحوم قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اسلامی جمہوری اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ 1997ء کے عام انتخابات سے قبل وزیراعظم کے والد مرحوم اپنے ہونہار بیٹوں نوازشریف اور شہبازشریف کو لے کر تنظیم اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پاس حاضر ہوئے اور سود کے خاتمے کا وعدہ کیا، مگر اقتدار میں آکر پھر یہ وعدہ فراموش کردیا گیا، جس پر ڈاکٹر اسرار احمد عمر بھر شدید ناراضی کا اظہار کرتے رہے۔ ابھی میاں شہبازشریف کے 16 ماہ کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ایک بار پھر وفاقی شرعی عدالت نے سود کے فوری خاتمے کا حکم جاری کیا تو شہباز حکومت نے اس کے خلاف عدالتِ عظمیٰ سے حکم امتناعی حاصل کرلیا، دوسری جانب شدید عوامی ردعمل پر انسدادِ سود کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ آج کے وزیر خزانہ اور خود وزیراعظم بھی اس کمیٹی کو طاقِ نسیاں کی زینت بنا چکے ہیں اور سود کے خاتمے کے بجائے اس کی شرح کی کمی بیشی کے فوائد سے قوم کو خوش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
جہاں تک وزیراعظم کے دو ماہ میں بہت ٹھوس اور مثبت فیصلوں اور نتائج کے وعدے کا تعلق ہے تو سچی بات یہ ہے کہ قوم کویہ یقین ہی نہیں کہ کسی قسم کے فیصلے کرنے کا اختیار جناب وزیراعظم کو حاصل ہے۔ دلیل کے طور پر لوگ اُن کی کابینہ کے ارکان کی فہرست خصوصاً وزارتِ خزانہ اور وزارتِ داخلہ پر براجمان حضرات کے نام پیش کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دونوں حضرات جبراً کابینہ میں شامل کیے گئے ہیں، اور وزیراعظم کے فیصلہ سازی میں بے اختیار ہونے کے ثبوت میں لوگ اب وزیراعظم ہائوس کا یکم جون کا وہ اعلان بھی پیش کرتے ہیں جس میں پیٹرول کی قیمت میں کم و بیش پندرہ روپے کمی کا فیصلہ سنایا گیا تھا مگر اربابِ اختیار نے پندرہ روپے کو صرف پونے پانچ روپے تک محدود کرکے وزیراعظم کے اختیارات کا پردہ چاک کردیا تھا۔ ایسے میں یہ دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ کرے، وزیراعظم محمد شہبازشریف قوم سے اپنے خطاب کو عمل کی شکل میں ڈھال سکیں تاکہ قوم کی فلاح اور ملکی معیشت کی بقا کا کوئی راستہ سجھائی دے سکے۔ (حامد ریاض ڈوگر)