حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ کے زمانہ خلافت میں جب مسلمانوں نے سمر قند فتح کر لیا اور مسلمان وہاں بس گئے اور اپنے گھر بنا لئے اور ایک عرصہ گزر گیا تو سمر قند والوں کو معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کےخلاف ہمارے ملک کو فتح کر لیا ہے۔
یعنی یہ کہ سب سے پہلے اسلام کی دعوت دیں پھر جزیہ کی پیشکش کریں اور اگروہ بھی منظور نہ ہو تو پھر مقابلہ کریں۔
لہٰذا انہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی خدمت میں چند لوگوں کو روانہ کیا اور انہیں یہ بتایا کہ آپ کی فوج نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت پر عمل کئے بغیر سمر قند کو فتح کر لیا ہے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ نے سمرقند کے قاضی کو حکم دیا کہ عدالت قائم کرو پھر اگر یہ بات صحیح ثابت ہو جائے تو مسلمان فوجوں کو حکم دیں کہ سمر قند چھوڑ کر باہر کھڑی ہو جائیں پھر اس سنت پر عمل کریں۔
چنانچہ قاضی نے ایسا ہی کیا وہ بات صحیح ثابت ہوئی تو مسلمانوں نے سمرقند خالی کر دیا اور شہر سے باہر جا کر کھڑے ہو گئے ۔ جب وہاں کے بت پرستوں نے مسلمانوں کا یہ عدل و انصاف دیکھا جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی تو انہوں نے کہا کہ اب لڑائی کی ضرورت نہیں۔ ہم سب مسلمان ہوتے ہیں۔ چنانچہ سارے کا سار اسمر قند مسلمان ہو گیا ۔ (ایک سو ایک واقعات)