معروف محقق اور ممتاز سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ (19 فروری 1908ء۔ 17 دسمبر 2002ء) حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق ارکاٹ (مدراس) کے مشہور عالم قاضی بدرالدولہ کے خاندان سے تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے فقہ و اصولِ فقہ میں ایم۔اے کیا، پھر ایل۔ ایل۔ بی، ایل۔ ایل۔ ایم اور پی۔ ایچ۔ ڈی کی اسناد حاصل کیں، اس کے بعد بون یونیورسٹی (جرمنی) سے ’اسلام کے بین الاقوامی تعلقات‘ پر ڈی فل کیا اور سوربون یونیورسٹی (پیرس) سے ’عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں اسلامی سفارت کاری‘ کے موضوع پر ڈی لٹ کی سند لینے کے بعد وطن واپس آکر جامعہ عثمانیہ میں قانونِ بین الملکی کے پروفیسر کی حیثیت سے درس و تدریس کی خدمات انجام دینے لگے۔
سقوطِ حیدرآباد کے باعث 1948ء میں فرانس میں پناہ گزینی اختیار کرلی اور فرانس کے نیشنل سینٹر آف سائنٹفک ریسرچ سے وابستہ ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرانس میں رہ کر تحقیق و تبلیغ اور اسلام پر مختلف زبانوں میں تصنیف و تالیف کا بے مثال کام کیا۔ یورپ و ایشیا کی متعدد جامعات میں اہم موضوعات پر توسیعی خطبات دیے، اس سلسلے میں انقرہ، استنبول (ترکی)، کوالالمپور (ملائشیا)، قاہرہ (مصر) اور یورپ کے بعض ملکوں میں ان کے خطبات ہوئے جن میں اسلام کے بارے میں جدید ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک اور غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ جامعہ اسلامیہ بہاولپور (پاکستان) میں بھی 12 خطبات دیے جو ’’خطباتِ بہاولپور‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی مادری زبان اردو تھی لیکن فارسی، عربی، ترکی، انگریزی، فرنچ، جرمنی، اطالوی اور یونانی زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ فرنچ اور انگریزی میں اردو اور عربی ہی کی طرح متعدد تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ اسلام کی اشاعت و تبلیغ اور اس کے مخالفین کا جواب دینے کے لیے انہوں نے تصنیف و تالیف کے لیے خاص طور پر یورپین زبانوں کا انتخاب کیا تھا۔ فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیرت النبی کی تدوین و اشاعت ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور بڑا کارنامہ تاریخ اسلام اور سیرتِ نبوی کے اوّلین مصادر کو ڈھونڈ نکالنا اور ان کو ایڈٹ کرکے شائع کرنا ہے۔ مثلاً انھوں نے صحیفہ ہمام بن منبہ، مجموعۃ الوثائق السیاسیۃ للعہد النبوی والخلافۃ الراشدۃ اور سیرت ابن اسحاق جیسے نایاب اور اوّلین ماخذ کو دریافت اور ایڈٹ کرکے شائع کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی تصانیف کی تعداد ڈیرھ سو سے زیادہ ہے جب کہ مقالات کی تعدادکم وبیش ایک ہزار ہے۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی علمی و تحقیقی خدمات کا دائرہ بہت وسیع اور متنوع ہے۔ قرآنیات، حدیثِ نبوی، فقہ و قانون، عقائد و عبادات اور سیرتِ نبویہ ﷺ پر ان کی مستقل کتابیں ہیں۔ مگر ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی کا خاص موضوع سیرت نگاری تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے سفر ہجرت کی تحقیق میں انہوں نے پاپیادہ اور گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اُس راستے پر عملاً سفر کیا جس سے آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی تھی، اور اس طرح اُس شاہراہ کومتعین کیا جو روایات میں دھندلی ہوگئی تھی۔
سیرت پر ان کی تمام تصنیفات سیرت کے روایتی انداز سے بالکل مختلف اور منفرد عنوانات کی حامل ہیں۔ مثلاً: رسول اکرمؐ کی سیاسی زندگی، عہدِ نبوی میں نظامِ حکمرانی، عہدِ نبوی کا نظام تعلیم، عہدِ نبوی کے میدانِ جنگ، مکتوباتِ نبوی، عرب حبش تعلقات، اسلامی ریاست، اسلام کے قانونِ بین الممالک کے اصول اور نظیریں، سیرتِ طیبہ کا پیغام عصر حاضر کے نام وغیرہ۔
پیشِ نظر کتاب ’’مجدد مطالعہ سیرت ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ‘‘ ڈاکٹرثمینہ سعدیہ (اسسٹنٹ پروفیسر، شیخ زاید اسلامک سینٹرجامعہ پنجاب، لاہور) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں جامعہ پنجاب، لاہور نے ایم۔ فل کی سند تفویض کی ہے۔ یہ کتاب پانچ ابواب اور متعدد فصول پر مشتمل ہے۔ باب اول میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا تعارف اور ان کی علمی و تحقیقی خدمات کا اختصار سے جائزہ لیا گیا ہے۔ باب دوم میں ان کی سیرتِ نبویہ ﷺ پرتحقیقات و تصانیف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب سوم میں ڈاکٹر حمیداللہ کی سیرت نگاری کے منہج، اسلوبِ سیرت نگاری اور مطالعہ سیرت کے امتیازی اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ باب چہارم میں ڈاکٹر حمیداللہ کی تصنیفات کی روشنی میں مستشرقین کے اعتراضات کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ اور باب پنجم ’’مطالعہ سیرت کی نئی جہات‘‘ کے ضمن میں ڈاکٹر حمیداللہ کی تصنیفات: عہدِ نبوی کا سیاسی و سفارتی نظام، عہدِ نبوی میں نظامِ مالیہ، عہدِ نبوی میں نظامِ تشریع و عدلیہ، عہدِ نبوی کا نظامِ تعلیم، اور عہد نبوی کا نظامِ دفاع کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
نگرانِ مقالہ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت صاحبہ (پروفیسر ایمریطس، ادارہ علومِ اسلامیہ جامعہ پنجاب، لاہور) رقم طراز ہیں:
’’ڈاکٹر ثمینہ سعدیہ نے زیرِ تحقیق محقق کی مصادرِ اصلیہ پر گہری دسترس اور بصیرت کو عیاں کیا ہے۔ نیز یہ بھی واضح کیا ہے کہ کس طرح اپنی دقیق بصیرت و فہم سے سیرت کے جواہرِ مکنونہ کو منظرِ عام پر لائے۔ مغربی زبانوں پر مہارت کے باعث آپ نے مستشرقین کی کتب کا بغور مطالعہ کیا۔ لہٰذا اپنی تصنیفات میں متفرق مقامات پر مستشرقین کے اعتراضات کی تردید و تکذیب کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کی عظمت، عصمت اور شانِ عالمگیریت کو بیان کیا۔ مزید برآں مطالعہ سیرت کی نئی جہات کے تحت محقق کے موضوعاتی اسلوبِ سیرت نگاری کو بخوبی اجاگر کیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی متنوع اوروسیع علمی و تحقیقی خدمات کے پیشِ نظر یہ کام آسان نہ تھا۔ لیکن فاضل مولفہ نے سیرت نگاری کے باب میں ڈاکٹر صاحب کی خدمات و تحقیقات کا بہت محنت اور خوبی سے احاطہ کیا ہے جس کے لیے وہ قابلِ مبارک باد ہیں۔