قصہ یک درویش! لاہور کی علمی مجلسیں

(اٹھارہویں قسط)

جو احباب اس کالم کو پڑھتے ہیں، وقتاً فوقتاً اپنے تبصروں سے بھی نوازتے رہتے ہیں جس سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ منصورہ میں مقیم برادرم سعید احمد پراچہ (ابن مولانا گلزار احمد مظاہریؒ) بھی اپنی رائے سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کالم پڑھنے کے بعد انھوں نے فرمایا کہ دیگر علمائے دین کا تذکرہ کیا گیا ہے مگر مولانا مظاہریؒ کا ذکر چھوٹ گیا ہے۔ میں نے اُن کو بتایا کہ دراصل جس دور کا ذکر چل رہا ہے، اُس دور میں مولانا مظاہریؒ ابھی لاہور میں آکر مقیم نہیں ہوئے تھے۔ وہ سرگودھا اور میانوالی وغیرہ میں جماعتی ذمہ داریاں ادا کررہے تھے۔ ان کی لاہور آمد اس کے کئی سال بعد کی ہے۔ اب پچھلی قسط میں جن حالات و واقعات کا تذکرہ ہوا تھا، اس سے آگے چلتے ہیں۔

اندرون شہر کے کئی محلوں کی تنگ اور ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزرنا اور پھر باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرلینا، کسی اجنبی کے بس میں نہیں ہوتا تھا۔ میرے دوست اور کلاس فیلو محمد شفیق صاحب عموماً اور کبھی کبھار دوسرے ہم جماعت ساتھی حافظ عبدالرئوف جو دونوں اندرون لاہور شہر کے رہائشی تھے، مجھے اس سیر سپاٹے میں رہنمائی فراہم کیا کرتے تھے۔ اندرون شہر کے علاوہ بادشاہی مسجد، مزارِ علامہ اقبال، مڑھی رنجیت سنگھ، شاہی قلعہ، مینارِ پاکستان، واہگہ بارڈر کی سیر وسیاحت مختلف دوستوں کی معیت میں کئی بار کی۔ شالیمار باغ دو بار اور مزار حضرت علی ہجویریؒ پر ایک بار جانا ہوا۔ لاہور کا چڑیا گھر، عجائب گھر، اسمبلی ہال، مسجد شہدا، گورنر ہائوس، بلدیہ ٹائون، تمام اہم مقامات، اعلیٰ تعلیمی ادارے اور کالج بڑے شوق سے دیکھے۔

ان مقامات کے علاوہ لاہور کی اہم مساجد کی زیارت اور وہاں کی اہم دینی شخصیات کو دیکھنے کا بھی شوق تھا۔ اُس زمانے میں مختلف ایام میں مولانا احمد علی لاہوریؒ کی جامع مسجد اندرون شیرانوالہ گیٹ، جامع مسجد اہلِ حدیث چینیانوالی، جامع مسجد چوک دال گراں، جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو، آسٹریلیا جامع مسجد نزد ریلوے اسٹیشن لاہور، جامع مسجد قاسمی لبرٹی مارکیٹ، اندرون شہر جامع مسجد وزیر خان، مسلم جامع مسجد بیرون انار کلی، مکّی جامع مسجد اندرون نیوانارکلی، غرض لاہور کی ہر قابلِ ذکر مسجد میں جانے اور نماز باجماعت ادا کرنے یا کبھی کبھار نماز جمعہ پڑھنے اور خطبہ سننے کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ بعد میں جامع مسجد نیلا گنبد تو جی سی اور جامعہ پنجاب کے دورِ طالب علمی میں مستقل ٹھکانہ بن گئی تھی۔ یہاں مولانا محمد ادریس کاندھلوی کا خطبۂ جمعہ بہت خاصے کی چیز ہوتی تھی۔ آپ اپنے خطبے میں ہلکے پھلکے انداز میں بہت سے علمی نکات بیان فرماتے جس سے اہلِ علم اور عام نمازی سب یکساں مستفید ہوتے۔

مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ سے تعارف ہوا اور میں نے اپنا نام بتایا تو بہت خوش ہوئے، مگر میری داڑھی نہ ہونے کی وجہ سے ذرا سے بدمزہ بھی ہوئے۔ آپ کے خطبوں کے کئی یادگار واقعات لوحِ حافظہ پر محفوظ ہیں۔ یہاں اختصار کے پیش نظر ایک واقعے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔ ایک دن تقریر کے دوران آپ نے فرمایا کہ ایک بزرگ کو ایک خوب صورت، بنی سنوری دوشیزہ خواب میں نظر آئی اور کہا کہ میں کنواری دوشیزہ ہوں اور آپ سے شادی کی خواہش مند ہوں۔ آپ نے پوچھا کہ تمھارا نام و نسب کیا ہے؟ اس نے کہا مجھے نسب یاد نہیں، اپنا نام بتا دیتی ہوں۔ میں ’’دنیا‘‘ ہوں! بزرگ نے حیرت سے فرمایا ’’تم دنیا ہو اور کہہ رہی ہو کہ کنواری ہوں۔ تم تو کتنے لاکھوں کروڑوں سے شادیاں رچاتی رہی ہو!‘‘ جواب میں خوب صورت دوشیزہ نے کہا ’’حضور! مجھ سے جتنوں نے شادی کی، سب کے سب نامرد تھے۔ جو مرد تھے انھوں نے شادی تو کیا کرنی تھی، مجھے لفٹ تک نہیں کرائی۔ یوں میں ناکتخدا (کنواری) ہوں۔‘‘ اس نوعیت کے کئی واقعات آپ اپنے خطابات میں پیش کیا کرتے تھے۔

لاہور تو پوری ایک دنیا ہے اور یہاں کے اہم اور تاریخی مقامات بے شمار ہیں۔ ان میں سے بہت سے مقامات دیکھے مگر سب کے نام نہیں لکھ سکتا۔ ہر مقام کو پہلی بار دیکھنے کے وقت جو جذبات محسوس ہوئے ان کو لکھنا ناممکن ہے۔ اے کاش اُس دور میں ڈائری میں کچھ نکات لکھ سکتا۔ مگر کیا بتائوں ڈائریوں میں جو امور و معاملات اُس زمانے بلکہ بعد کے دور میں بھی کبھی کبھار لکھے گئے وہ بھی کہیں محفوظ نہ رہ سکے، اور تو اور تصنیف شدہ کتب میں سے بھی بعض کے قلمی مسودے غائب ہوگئے۔ افسانوں کے چار مجموعے طبع ہوئے ہیں، (’’سرسوں کے پھول‘‘، ’’دخترِ کشمیر‘‘، ’’ناقۂ بے زمام‘‘ اور ’’سربکف، سربلند‘‘)۔ 18 افسانوں پر مشتمل ایک پورا مجموعہ کینیا جانے سے قبل شروع کیا تھا، پھر وہاں پہنچ کر اسے مکمل کرلیا اور نظرثانی کے بعد فائنل کردیا۔ یہ سب افسانے مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش کے تناظر میں لکھے گئے تھے۔ کینیا سے پہلی بار واپس آنے کے وقت 1975ء میں یہ ہاتھ سے لکھے ہوئے مسودے کی صورت میں برادرم عبدالحفیظ احمد مرحوم (البدر پبلی کیشنز) کو دیے، مگر افسوس ہے کہ اتنے محتاط اور ذمہ دار شخص سے بھی وہ کہیں کھو گئے۔

بہرحال یہ بیچ میں ایک جملۂ معترضہ آگیا جو طویل ہوگیا۔ اب جو کچھ اس روداد میں لکھ رہا ہوں وہ زیادہ تر ذہنی یادداشت کی مدد سے لکھا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کہیں کہیں جو واقعات میری مختلف کتابوں (بالخصوص ’’عزیمت کے راہی‘‘ کی 9جلدوں، بعض رسائل، خاص طور پر جامعہ پنجاب کے مجلہ ’’محور‘‘ کے طلبہ تحریکوں سے متعلق خصوصی ایڈیشنز) میں محفوظ ہیں، ان سے بھی استفادہ کرکے لکھ رہا ہوں۔ 78سال کی عمر میں یادداشت کی جو کیفیت ہوجاتی ہے، اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ہر شخص خود سمجھ سکتا ہے۔

جو نوجوان اس نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہوں، انھیں وہی لطیفہ سنا سکتا ہوں جو خاصا گھسا پٹا ہے، مگر برمحل ہے:

ایک بزرگ جو ضعیفی کی وجہ سے جھک گئے تھے، راستے پر جارہے تھے۔ کچھ لڑکے بالے کھیل کود میںمصروف تھے۔ کسی شرارتی بچے نے کہا ’’بابا جی! یہ کمان کتنے میں لی ہے؟‘‘ بابا جی نے بزرگانہ دانش مندی سے جواب دیا ’’بیٹا بے فکر رہو، تمھیں بھی وقت آنے پر بلا قیمت مل جائے گی۔‘‘

یہ تو جسمانی کمزوری سے متعلق لطیفہ تھا، مگر حافظے اور یادداشت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ وقت گزرنے کے ساتھ خودبخود ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو بعض اوقات قریبی عزیز و اقارب اور احباب کے نام بھی بھول جاتے ہیں۔ مقامات اور دیہات و شہر جن میں بارہا جانے اور کئی راتیں بسر کرنے کا موقع ملتا رہا، ان کے نام یاد نہیں آتے۔ لاہور کے علمائے کرام اور اہلِ دانش سے جمعیت کے پروگراموں میں شرکت کے لیے ملاقاتوں سے پہلے انٹر کے زمانے میں اسلامیہ کالج حبیبہ ہال میں ہفتہ وار سرمن کے لیے ہونے والی ملاقاتوںکا تذکرہ پہلے آچکا ہے۔ ان سب سے نیاز مندانہ بے تکلفی اور محبت کا باہمی رشتہ یادگار ہے۔

علمائے دین کے علاوہ دیگر مختلف اہم اور علم و دانش کے پیکر حضرات کی مجلسوں میں جانے کا اتفاق بھی ہوتا رہا۔ ان سب کے ساتھ ذاتی اور عقیدت مندانہ تعلق قائم رہا۔ یہ سب بڑے لوگ تھے اور یہ ان کا بڑا پن ہی تھا کہ ایک عام سے طالب علم کے ساتھ بہت شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ (جامعہ پنجاب، اردو دائرہ معارف اسلامی کے ڈائریکٹر) سے جامعہ پنجاب میں ان کے دفتر میں اور اردو نگر میں ان کی رہائش گاہ پر کئی مرتبہ بعض دیگر دوستوں کے ساتھ نشستیں رہیں۔ آپ کے ساتھ ہر ملاقات میں قیمتی معلومات ملا کرتی تھیں۔ آپ کے گھر اردو نگر میں تو اہلِ علم و ادب کی گہما گہمی رہتی تھی اور انتہائی یادگار علمی و ادبی مجلسیں لگا کرتی تھیں۔ لاہور کے بہت سے اہلِ علم حضرات ان میں شریک ہوتے تھے۔ ہر موضوع پر گفتگو ہوتی اور ہم جیسے مبتدی ان علمی شخصیات کی گفتگو سے کچھ ہیرے موتی چننے کی کوشش کرتے۔ نوآموز اور نوعمر شرکا کے سوال یا کسی تبصرے پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی ان بڑے لوگوں کا بہترین طریقِ تربیت تھا۔

ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب جب اردو دائرۂ معارف اسلامی، جامعہ پنجاب کے سربراہ تھے، تو آپ سے میرا بے تکلفی اور عقیدت کا گہرا تعلق قائم ہوگیا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ سے عرض کیا ’’ڈاکٹر صاحب! مجھے ایک خلش ہمیشہ ستاتی رہتی ہے کہ جامعہ پنجاب میںآپ نے زندگی کا طویل عرصہ تدریس کا سلسلہ جاری رکھا مگر میری محرومی ہے کہ میں آپ کے شعبے میں داخلہ نہ لے سکا ورنہ میں بھی آپ کا شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل کرلیتا۔‘‘ آپ نے میری بات سن کر میرے استادِ محترم پروفیسر عبدالقیوم صاحب کی موجودگی میں فرمایا ’’حافظ ادریس صاحب! آپ میرے دوست ہیں۔ کیا یہ تعلق کافی نہیں؟‘‘ سچی بات یہ ہے کہ مرحوم کی اس بات کو یاد کرکے آج بھی میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر ابوبکر غزنوی مشہور اہلِ حدیث عالم دین مولانا محمد دائود غزنویؒ کے صاحبزادے تھے اور خود بھی علم و عرفان کا منبع تھے۔ آپ کئی تعلیمی اداروں میں تدریسی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ آخر میں آپ یو ای ٹی میں اسلامیات کے پروفیسر اور صدرِ شعبہ تھے۔ بہت صاحب ِعلم اور متقی انسان تھے۔ شکل و صورت بھی خوب صورت اور سیرت و کردار بھی اُجلا! آپ کی فرشی مجلس شیش محل روڈ پر مدرسہ تقویۃ الایمان سے ملحق ایک دفتر میں منعقد ہوا کرتی تھی۔ اس میں بھی حاضری کا شرف حاصل رہا۔ پروفیسر ابوبکر غزنوی بہت دھیمے اور شیریں انداز میں گفتگو فرماتے۔ کئی امور پر مجلس میں موجود اہلِ علم کو تبادلہ خیال کی دعوت دیتے۔ مجھے بھی کبھی کبھار کچھ عرض کرنے کا موقع مل جاتا۔ اس وقت یاد نہیں کہ موضوعِ گفتگو کیا تھا البتہ کچھ حصہ یاد ہے۔ جب میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، تو پروفیسر صاحب نے میری حوصلہ افزائی کے لیے بہت شاندار الفاظِ تحسین سے نوازا۔

اس موقع پر میں نے عرض کیا کہ حضور! یہ آپ کی خوش فہمی ہے ورنہ میں کیا اور میری حیثیت کیا؟ جب میں یہ الفاظ استعمال کرچکا تو احساس ہوا کہ مجھ سے لغوی غلطی ہوگئی ہے۔ پروفیسر صاحب نے فوراً محبت بھرے لہجے میں فرمایا: عزیز گرامیِ قدر! ایسے موقع پر ’’خوش فہمی‘‘ نہیں، ’’حسنِ ظن‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مرحوم کی عظمت میرے دل میں بیٹھ گئی اور میں نے آپ کا شکریہ ادا کیا۔ ان علمی مجلسوں سے بہت استفادہ کیا جا سکتا تھا، مگر ہم تہی دامن بھرپور فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کئی قسم کی مصروفیات، تعلیمی بھی اور تحریکی بھی گلے پڑی ہوئی تھیں، پھر لاہور سے کبھی کبھار گائوں میں والدین اور بیوی بچے کے پاس اپنے گھر بھی جانا ہوتا تھا، اس لیے علمی مجالس میں گنڈے دار حاضری ہی ہوتی تھی۔

پروفیسر ابوبکر غزنوی مرحوم کی عمر اُس زمانے میں تقریباً 40سال تھی اور بڑے بڑے بزرگ علما ان کی مجلس میں بیٹھتے تھے۔ آپ نے جامعہ پنجاب سے ایم اے عربی 1950ء میں فرسٹ پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ آپ نے اسلامیہ کالج سول لائنز، اورینٹل کالج (جامعہ پنجاب) اور انجینئرنگ یونیورسٹی (U.E.T) لاہور میں کئی سال اسلامیات کی تدریس کا فرض ادا کیا۔ یو ای ٹی میں آپ کے بعد شعبہ علوم اسلامیہ میں بیشتر اساتذہ سلفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، جنھوں نے جامعہ میں توحید و سنت کا ماحول قائم کردیا۔ ابوبکرغزنوی صاحب 1972ء میں کسی کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ تشریف لے گئے۔ وہاں لندن میں ایک روز سڑک عبور کرتے ہوئے کسی گاڑی کی زد میں آکر شدید زخمی ہوگئے۔ اسپتال میں کچھ روز داخل رہے، پھر انہی زخموں کی وجہ سے شہید ہوگئے۔ آپ کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا، مگر اُس وقت مجھے گائوں میں ہونے کی وجہ سے اس سانحے کی بروقت اطلاع نہ مل سکی۔ بڑا افسوس ہوتا ہے کہ مرحوم کے جنازے میں شرکت سے محروم رہا۔ اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے۔

پروفیسر عبدالشیرآذری جامعہ پنجاب کے شعبہ اسلامیات میں کوئی ایک مضمون پڑھایا کرتے تھے۔ غالباً آپ وزیٹنگ (Visiting) پروفیسر تھے۔ ان سے بھی عقیدت و محبت کا تعلق رہا۔ زیادہ تر ان کے گھر، نزد موجودہ دفتر جماعت اسلامی لٹن روڈ لاہور، میں یادگار ملاقاتیں ہوئیں۔ آپ بڑی علمی اور پیاری شخصیت تھے۔ ہم کبھی خود علمی رہنمائی کے لیے حاضر ہوتے اور کبھی آپ کے بلانے پر وہاں جاتے۔ شروع میں ایک ملاقات میں ہم کئی ساتھی آپ سے ملنے گئے تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی بے ساختہ ایک مصرع پڑھا ’’تکلف برطرف تجھ سے تیری تصویر اچھی ہے‘‘۔ دراصل میرا نام مختلف سرگرمیوں کی وجہ سے طالب علمی کے زمانے میں کافی معروف ہوگیا تھا۔ اخبارات میں بیانات بھی آتے تھے، مضامین اور خطوط بھی شائع ہوتے اور کبھی کبھار تصویر بھی چھپ جاتی تھی۔ آذری صاحب نے اس روز روزنامہ ’’کوہستان‘‘ میں چھپنے والی میری تصویر دیکھ لی تھی۔ اسی کے پیش نظر یہ مصرع بولا تھا۔ یہ سن کر ہم سب ساتھی خوب ہنسے۔ (جاری ہے)