غزہ کی مزاحمت: رچرڈ گولڈ اسٹون کون؟

(چوبیسویں قسط )

خیر، اسرائیل کا گولڈ اسٹون رپورٹ کے حوالے سے بہت حساس ہونا کچھ ایسا ناقابلِ فہم بھی نہ تھا۔ گولڈ اسٹون محض یہودی نہ تھا بلکہ صہیونی بھی تھا۔ اُس نے پوری پختہ عمر صہیونیت کے فروغ اور اسرائیل کی خدمت کے لیے کام کیا تھا۔ وہ اسرائیل کے وجود کو برقرار رکھنے کے حق کو تسلیم کرتا تھا اور اس نظریے کا پورے جوش و خروش سے حامی تھا کہ دنیا بھر کے یہودیوں کے لیے اپنا ایک وطن ہونا ہی چاہیے۔ وہ ایک ایسی تنظیم کا سربراہ تھا جو اسرائیل کے طول و عرض میں پیشہ ورانہ تربیت کے اسکول چلاتی تھی۔ اُسے اسرائیل کی ہبریو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ملی تھی۔ وہ ہبریو یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا حصہ بھی رہا تھا۔ اُس کی والدہ صہیونیت کی تحریک میں متحرک کردار کی حامل رہیں۔ اُس کی بیٹی نے اسرائیل میں سکونت اختیار کی۔ وہ بھی کٹّر صہیونی ہے۔ گولڈ اسٹون کا اس بات پر پختہ یقین تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازی جرمنوں نے یہودیوں پر جو مظالم (ہولو کاسٹ) ڈھائے اُن کے بطن سے بین الاقوامی قانون اور بنیادی حقوق کی تطبیقِ نو کی راہ ہموار ہوئی۔ اگر تفتیشی رپورٹ کسی غیر یہودی نے مرتب کی ہوتی تو اسرائیل آرام سے تردید کرسکتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ رچرڈ گولڈ اسٹون عام یہودی بھی نہ تھا، صہیونی تھا۔ وہ اپنے نظریات میں بہت پختہ تھا اور اسرائیل اُس کی رائے کو محض سرسری تبصرہ قرار دے کر نظرانداز اور مسترد نہیں کرسکتا تھا۔ اسرائیل کے پاس ایک بڑا ’’نظریاتی‘‘ ہتھیار یہ تھا کہ جب کوئی اُس پر تنقید کرتا تھا تب وہ سُکون سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتا تھا کہ یہ تو ہولو کاسٹ کا انکاری ہے۔ حقیقت پسندی کی بنیاد پر کی جانے والی شدید تنقید کو بھی اسرائیل نے اس ہتھیار سے ناکام بنایا تھا۔ رچرڈ گولڈ اسٹون کے معاملے میں ایسا نہیں تھا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ گِڈین لیوی نے انتہائی واضح الفاظ میں کہا ’’اِس بار قاصد پروپیگنڈا پروف ہے۔‘‘ انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل کے وزیرِ خزانہ یُوال اسٹینز نے رچرڈ گولڈ اسٹون کو یہودیوں کا مخالف قرار دے کر اُس کی ساکھ پر سوال اٹھانے کی کوشش کی، اور فلسفے کے پروفیسر ایزا کاشر نے کہا کہ گولڈ اسٹون یہودیت مخالف نظریات سے متاثر دکھائی دیتے ہیں اور اُن کی رپورٹ یہودیوں کو ڈِس کریڈٹ کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ اسرائیل کے وزیرِ اطلاعات یُولی ایڈلسٹائن نے یہاں تک کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ سے ویسی ہی یہودیت مخالف سوچ جھلکتی ہے جس نے دوسری جنگِ عظیم میں نازی جرمنوں کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کے قتلِ عام کی راہ ہموار کی تھی۔ گولڈ اسٹون رپورٹ کے اجرا کے صرف ایک ہفتے بعد رچرڈ گولڈ اسٹون اینٹی سیمِٹ غزہ کے الفاظ سے سرچ کیے جانے پر گوگل پر 75 ویب سائٹس دکھائی دیں۔ خیر، اسرائیلیوں کی اپنی حماقت سے اُن کا پروپیگنڈا بُری طرح ناکام ہوا۔ جب گولڈ اسٹون کو بدنام کرنے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور اُسے یہودیوں یا صہیونیوں کا مخالف بھی ثابت نہ کیا جاسکا تب یہ کہا گیا کہ شاید اُس کا ایجنڈا کچھ اور تھا۔ یہ قیاس آرائی کی گئی کہ وہ شاید امن کا نوبیل انعام جیتنا چاہتا تھا یا اقوامِ متحدہ کی سربراہی کا خواہش مند تھا۔ گولڈ اسٹون کی ساکھ بہت اچھی تھی۔ وہ اِن تمام قیاس آرائیوں کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔ بہرحال شور شرابے کا تھوڑا بہت اثر ضرور ہوا۔ گولڈ اسٹون نے اپنی رپورٹ کی اشاعت کے بعد انٹرویوز اور بیانات میں اسرائیل کی مذمت کے حوالے سے تھوڑی سی پسپائی اختیار کی اور قتلِ عام کے حوالے سے اسرائیل کی ذمہ داری کو تھوڑا سا گھٹانے کی کوشش ضرور کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ رپورٹ پختہ نہیں تھی اور اِسے اپنے نام سے شائع کرکے گولڈ اسٹون نے اپنی ساکھ کو کسی حد تک داؤ پر لگادیا تھا۔

گولڈ اسٹون نے عالمی اداروں میں شاندار خدمات انجام دی تھیں۔ ایسے میں اگر اُس نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی فوج کے مظالم کھل کر بیان کیے تھے تو یہی سمجھا جانا چاہیے کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے حوالے سے گولڈ اسٹون نے اسرائیلی حکومت کو موردِ الزام ٹھیرایا ہے۔ اُس کی مجموعی شخصیت اور ساکھ، اور صہیونیت سے اُس کی کمٹمنٹ کو دیکھتے ہوئے یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ اُس نے اپنی رپورٹ میں اسرائیلی فوج کو کسی کے کہنے پر موردِ الزام ٹھیرایا ہوگا۔ اسرائیلی پروپیگنڈے کا سب سے مضحکہ خیز پہلو یہ تھا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کے معاملے میں اس نے پیغام کے بجائے پیغام رساں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیلی قیادت کے لیے یہ بہت پریشان کن لمحہ تھا۔ وہ حقائق کو جُھٹلا نہیں سکتی تھی۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر ایک خاص حد تک ہی یا جزوی طور پر ہی پردہ ڈالا جاسکتا تھا۔ اسرائیلی قیادت کا بدحواس ہو اُٹھنا فطری امر تھا، کیونکہ دنیا بھر میں کوئی بھی باشعور، غیرت مند اور حقیقت پسند انسان اُس کی بات سننے اور اُس کے بیانیے کو درست سمجھنے کے لیے تیار نہ تھا۔ سیاست و معیشت اور اسٹرے ٹیجک امور کے اسرائیلی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ مستقبل میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کی راہ مسدود کرسکتی ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے گولڈ اسٹون تھریٹ کو نمایاں طور پر بیان کیا اور کہا کہ اِس سے اسرائیل کو حکمتِ عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑسکتا ہے۔ گولڈ اسٹون رپورٹ کی اشاعت کے فوراً بعد انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے اعلان کیا کہ وہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران ایک اسرائیلی فوجی افسر کے جنگی جرائم کی تفتیش شروع کرنے والی ہے۔ دسمبر 2009ء میں ایک برطانوی عدالت نے زِپی لِونی کو یہ کہتے ہوئے برطانیہ آنے سے روک دیا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیلی وزیرِ خارجہ کی حیثیت اُس نے جنگی جرائم کے ارتکاب کی راہ ہموار کی تھی۔ جون 2010ء میں بیلجیم کے دو وکلا نے ایک فلسطینی گروپ کی طرف سے زپی لِونی اور سابق وزیراعظم ایہود بارک سمیت 14 اسرائیلی سیاست دانوں پر آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران جنگی جرائم کے ارتکاب کی راہ ہموار کرنے کا الزام عائد کیا۔

رچرڈ گولڈ اسٹون بھوت بن کر یہودیوں سے چمٹ گیا تھا۔ جنوبی افریقا کے یہودی لیڈرز نے ایک موقع پر گولڈ اسٹون کو اُس کے پوتے کی ایک مذہبی رسم سے دور رکھنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے خوب پبلسٹی بھی کی گئی، مگر جب وہ پبلسٹی آسمان کی طرف پھینکے گئے تھوک کی طرح اپنے ہی منہ پر واپس آگری تب یہ فیصلہ واپس لیا گیا۔ اسرائیل کے پاس جب کوئی اور ڈھنگ کا راستہ نہ بچا تو اُس نے جنوبی افریقا میں نسل پرستی کے عہد میں عدالتی منصب پر گولڈ اسٹون کی خدمات کو نشانہ بنایا اور امریکہ میں چند صحافیوں کو خرید کر گولڈ اسٹون کی کردارکُشی کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ان میں دی اٹلانٹک کا رپورٹر جیفری گولڈ برگ اور دی نیو ری پبلک کا جوناتھن چیٹ نمایاں تھے۔ جنوبی افریقا میں جج کی حیثیت سے گولڈ اسٹون کی کارکردگی کو نشانہ بناتے ہوئے اُسے ہینگنگ جج قرار دیا گیا۔ فارن افیئرز میگزین کی سینئر ایڈیٹر اور ’’دی اَن اسپوکن الائنس : اسرائیلز سیکریٹ ریلیشن شپ وِد اپارتھائیڈ ساؤتھ افریقا‘‘ کی مصنفہ ساشا پالاکو سُرانسکی نے لکھا ’’جب جنوبی افریقا میں خالص نسل پرست حکومت قائم تھی تب اسرائیل نے اندرونی سطح پر غیر معمولی مظالم ڈھانے کے لیے نسل پرست انتظامیہ کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھی۔ یوں جنوبی افریقا کی نسل پرست انتظامیہ کی جتنی مدد اسرائیل نے کی گولڈ اسٹون نے تو اُس کا عشرِ عشیر بھی نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب جنوبی افریقا کی سیاہ فام اکثریت کے خلاف سفید فام اقلیت کے مظالم نقطۂ عروج پر تھے تب اُس وقت کے وزیرِدفاع شمعون پیریز نے یہاں تک کہا کہ جنوبی افریقا کی انتظامیہ کا ساتھ دینا اسرائیل کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ دونوں کے مفادات ایک ہیں اور اسرائیل بھی ناانصافی کے خلاف لڑائی میں پہلے مورچے پر ہے!‘‘

اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم آئزک رابن نے بھی (جو بعد میں ایک انتہا پسند یہودی نوجوان کے ہاتھوں قتل کردیے گئے) کہا کہ اسرائیل اور جنوبی افریقا کے آدرش اور مفادات یکساں ہیں۔ شمعون پیریز کی منافقت بہت جلد دنیا پر عیاں ہوگئی۔ ایک طرف تو اُس نے جنوبی افریقا کی نسل پرست انتظامیہ کے خلاف بیان بازی کی اور دوسری طرف آئزک رابن کے ساتھ مل کر جنوبی افریقا سے گٹھ جوڑ کیا، اور یہ سب کچھ نسل پرست انتظامیہ کے خاتمے تک بخوبی چلتا رہا۔

جب کوئی اور ہتھیار کام نہ آیا تو اسرائیل کی ہبریو یونیورسٹی نے رچرڈ گولڈ اسٹون کو اپنے بورڈ آف گورنرز سے نکال پھینکا۔ ساتھ ہی ساتھ امریکی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ جنوبی افریقا کی نسل پرست انتظامیہ کے دور میں جج کی حیثیت سے دیے گئے فیصلوں کی بنیاد پر گولڈ اسٹون کا داخلہ روک دے۔ اس کی تحریک اے آئی پی اے سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیل شر نے دی تھی۔ وہ اس لیے ناکام رہا کہ خود اس پر ہولو کاسٹ کے متاثرین کو دیے جانے والے معاوضے کی رقوم اپنی پُرتعیش تعطیلات پر خرچ کرنے کا الزام تھا۔

اسرائیل نے بہت کوشش کی مگر گولڈ اسٹون سے اُسے جو نقصان پہنچ سکتا تھا اُسے روکنے میں وہ ناکام ہی رہا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ نے اسرائیلی قیادت کی بے حِسی اور انسانیت کے لیے بے توقیری کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا۔ ایک صہیونی اب کہہ رہا تھا کہ صہیونیت سے حساب لیا جائے اور دوسری طرف انٹرنیشنل کرمنل کورٹ بھی میدان میں تھی جس نے جنگی جرائم کے ارتکاب کے حوالے سے اسرائیل کے فوجی افسران کے خلاف تحقیقات کا ڈول ڈال دیا تھا۔

آپریشن کاسٹ لیڈ کی تحقیقات کی بنیاد پر گولڈ اسٹون نے جو الزامات اسرائیلی قیادت اور فوج پر عائد کیے اُن سے ایک اور بڑا دھماکا ہوا … یہ کہ لبرل صہیونیت منظرِعام پر آئی۔ اسرائیلی قیادت نے تو سوچا ہی نہ تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ اگر گولڈ اسٹون رپورٹ کسی غیر یہودی نے مرتب کی ہوتی تو وہ بہت آسانی سے جان چُھڑا سکتی تھی، مگر گولڈ اسٹون کے صہیونی ہونے کی حقیقت اسرائیل کے گلے میں پھندے کے طور پر سامنے آئی۔

رچرڈ گولڈ اسٹون نے اپنی طرزِ فکر و عمل سے ثابت کردیا کہ وہ صہیونی ہونے کے باوجود انتہائی باضمیر انسان ہے اور ہر حال میں قانون کی بالادستی اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کا حامی ہے۔ اُس نے کسی بھی مرحلے پر کمزوری کا ثبوت دیے بغیر اپنے آپ کو انصاف کے علَم بردار کی حیثیت سے سامنے رکھا۔ یوں اُس کی توقیر میں مزید اضافہ ہوا، اور دوسری طرف اسرائیلی قیادت کے لیے مزید ہزیمت کا سامان ہوا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ اسرائیلی قیادت کے لیے بہت بڑا مخمصہ بن گئی۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اِس طوق کو اپنی گردن سے نکالنے میں ناکام رہی۔ (جاری ہے)