بچوں کا ایک اسپتال بلدیہ کراچی کے زیر اہتمام بنایاجائے،پروفیسر ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ کا فرائیڈے اسپیشل کو انٹریو
’’پاکستان میں قابل لوگوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ ہر قابل فرد خاص طور پر ڈاکٹرز باہر جارہے ہیں‘‘۔ اس سوچ کی عملی تردید پروفیسر ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جان کر آپ یہ محسوس کریں گے کہ ابھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس دھرتی سے محبت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سلطان نے MBBS ڈائو میڈیکل کالج سے 1989ء میں کیا۔ ہائوس جاب سول اسپتال کراچی میں کی۔ ڈاکٹر صاحب کے تقریباً سارے ہی دوست اور کلاس فیلو باہر کی شہریت اختیار کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ ڈاکٹر سنبل بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کا مشن ماں کی خدمت بنالیا۔ وہ اسپتال سے آکر ماں کی خدمت کرتے۔ ان کی امی بیمار ہوئیں تو انہوں نے گھر کو ICU میں تبدیل کرلیا، ماں کی خدمت میں مصروف رہتے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی خدمت کرنے والے کو عظیم ترین رتبہ دیا۔ حضرت اویس قرنیؒ ماں کی خدمت کرتے رہے، انہیں بلند ترین درجہ ملنے کی تصدیق کی۔ ڈاکٹر صاحب ماں کی خدمت کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ترقی کی منزلیں عطا کرتا رہا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی ماں کے علاوہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں زلزلہ، سیلاب اور قحط کی آزمائش کے موقع پر غریب اور مستحق مریضوں کی اُن کے علاقوں میں جاکر خدمت کی۔ آزاد کشمیر، اسکردو اور گلگت کے سرد علاقوں، بلوچستان کے دور دراز علاقوں اور صحرائے تھر… ہر جگہ ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ اپنی، بچوں کے ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ خود موجود ہوتے تھے۔ چند واقعات کا تو میں خود گواہ ہوں۔ تھر میں قحط اور بچوں کے مرنے کی خبریں آئیں۔ ڈاکٹرز کی تنظیم پیما نے کام شروع کیا۔ عباسی شہید اسپتال سے ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ کی ٹیم نے ہماری بہت مدد کی۔ اسلام کوٹ کے دور دراز علاقے میں ڈاکٹر صاحب نے بچوں کی OPD کیں۔ ڈاکٹرز اور عملہ کی تربیت کی، بچوں کے اساتذہ کی تربیت کی اور چھوٹے بڑے بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کیں۔ حاملہ خواتین اور داخل خواتین کے لیے دودھ، انڈا، مکھن وغیرہ روزانہ مہیا کرنے کا انتظام کیا۔ یہ کام تین چار ماہ تک روزانہ جاری رہا۔ دادو کے علاقے گائوں بکھر جمالی سے خبر آئی کہ 60، 70 لوگوں کا انتقال ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ نے بچوں کے ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ کیرتھر پہاڑوں کے دامن میں بکھر جمالی میں مستقل کیمپ لگایا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میں خود بھی تھا۔ کراچی سے لیب کا انتظام بھی کیا۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب نے وہاں مسئلے کی تشخیص کی، صحت کے لیے ادویہ فراہم کیں اور مستقبل میں ایسے حادثے سے بچنے کے لیے لائحہ عمل دیا۔
کچے کے علاقے میں سیلاب سے تباہی کے بعد تقریباً ایک سال تک ڈاکٹر صاحب اپنی زیر قیادت میڈیکل ریلیف کیمپ کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب خود نہ جاتے تو بچوں کے ڈاکٹرز کی ٹیم ان کی اہلیہ سنبل کی قیادت میں یہ خدمت انجام دیتی۔ اس پورے عرصے میں بچوں کے لیے دودھ، پروٹین، وٹامن ڈی وغیرہ کا انتظام کیا۔ مریضوں کی دعائوں سے ڈاکٹر صاحب نے تعلیمی میدان میں ترقی کی۔ MCPS اور FCPS، بچوں کے شعبے میں کالج آف فزیشن اینڈ سرجن پاکستان سے کیا۔
پاکستان میں بچوں کی طب کے حوالے سے میڈیکل کے طلبہ کو ہزاروں لیکچر دیے۔ 22 سال سے بچوں کے وارڈ کے سربراہ اور 13 سال سے پروفیسر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کراچی میں میڈیکل کی تعلیم کے لیے بچوں کے میڈیکل جرنلز کے ایڈیٹر رہے، بچوں کی بیماری کی تشخیص اور علاج پر 6 کتابیں لکھیں، بہت سے ریسرچ پیپر لکھے اور ڈاکٹرز سے ریسرچ کرواتے ہیں۔کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے پرنسپل رہے ہیں، حال ہی میں KMDC یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کے لیے پروفیسر ممبر منتخب ہوئے ہیں۔
بچوں کے سو سے زیادہ اسپیشلسٹMD، MCPS، FCPS کو تربیت دی۔ 227 میڈیکل ڈاکٹرز ان کی زیر نگرانی بچوں کے ICU اور پیدائش کے بعد والے بچوں کے NICU میں تربیت لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سلطان سے ہم نے کراچی میں بچوں کی صحت اور عباسی شہید اسپتال میں بچوں کے شعبے کے حوالے سے گفتگو کی۔
فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹر صاحب! عباسی شہید اسپتال میں آپ بچوں کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ کون سے شعبے آپ کے یہاں قائم ہیں؟
ڈاکٹر سلطان: ہم نے یہاں بچوں کے لیے گردے کا شعبہ قائم کیا ہے، اس کے علاوہ بچوں کے دماغی امراض کے حوالے سے بچوں کا نیورولوجی کا شعبہ قائم کیا ہے، بچوں کے ICU کے شعبے کو بھی جدید ترین خطوط پر استوار کیا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل:آپ بچوں کے علاج کے حوالے سے کیا مسائل دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر سلطان: بچوں کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اور اس اضافے سے ہماری ایمرجنسی میں مریض بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ ہماری بچوں کی ایمرجنسی میں ہر سال 70، 80 ہزار بچے آتے ہیں، اتنی بڑی تعداد میں بچوں کو ایمرجنسی فراہم کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ عباسی شہید اسپتال میں بچوں کے 2 یونٹ ہیں جن میں بستروں کی کُل تعداد 175ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ایمرجنسی کے 70 ہزار مریضوں کے لیے 175 بیڈ… یہ تو بہت کم ہیں؟
ڈاکٹر سلطان: روزانہ تقریباً ڈیڑھ دو سو بچے ایمرجنسی میں آتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بچوں کو اسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہوتی ہے، بعض مرتبہ اتنے زیادہ مریض داخل کرنے پڑتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے بیڈ نہیں ہوتے، ہمیں مجبوراً ایک بیڈ پر دو مریض داخل کرنے پڑتے ہیں۔ مریضوں کے رشتے دار اعتراض کرتے ہیں، ہمیں بھی یہ ٹھیک نہیں لگتا، لیکن اکثر ہماری مجبوری ہوتی ہے۔ ہم شدید مرض والے بچے کو اسپتال میں داخل کرنے سے منع نہیں کرسکتے، نہ ہی اسے گھر بھیج سکتے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: کس بیماری کے مریض بچے زیادہ آتے ہیں؟
ڈاکٹر سلطان: سردیوں میں سانس کی بیماری، نمونیا کے بچے زیادہ آتے ہیں۔ گرمیوں میں پیٹ اور دستوں کی بیماریوں کے مریض زیادہ آتے ہیں۔ داخل مریضوں میں نمونیااور ٹائیفائیڈ کے مریض زیادہ ہیں خاص طور پر ایسے مریض جن کا ٹائیفائیڈ منہ سے کھائی جانے والی اینٹی بائیوٹک ادویہ سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ خسرہ، چکن پاکس، ملیریا، ڈینگی اور ہیپاٹائٹس کے مریض آتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت جب اسپتال لائی جاتی ہے تو یہ سیریس حالت میں ہوتی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ڈاکٹر صاحب! مسئلے کا حل کیا ہے؟
ڈاکٹر سلطان: بہت سے مسائل تو صاف پانی کی فراہمی، موسمی آلودگی سے دور رہنے، صفائی پر زور دینے، Vaccination لگوانے وغیرہ سے کم ہوسکتے ہیں۔ ہم اسپتال آنے والے بچوں کو OPD ایمرجنسی وارڈ میں ہیلتھ ایجوکیشن دیتے ہیں، لیکن بہت سے مسائل کا حل بچوں کا باقاعدہ اسپتال بنانے میں ہے۔ مثلاً ہمارے اسپتال میں بچوں کی سرجری کا شعبہ نہیں ہے۔ نومولود بچوں میں ہرنیا، آنتوں کی رکاوٹ وغیرہ سرجیکل ایمرجنسی ہوتی ہے، ہمارے اسپتال میں بچوں کی سرجری کا شعبہ نہیں ہے۔ بچوں کی ادویہ اکثر دستیاب نہیں ہوتیں۔ ہم فنڈ جمع کرکے، اور زکوٰۃ کے ذریعے دوائیں مہیا کررہے ہوتے ہیں۔
کراچی کے ضلع وسطی میں لیاقت آباد، نارتھ کراچی، سہراب گوٹھ، نیو کراچی، اورنگی ٹائون، ناظم آباد، منگھوپیر اور بلوچستان سے بھی مریض بچے ایمرجنسی میں آتے ہیں، لیکن ہمارے پاس بچوں کے لیے صرف 175 بیڈ، 20انکیو بیٹر (Incubators) اور 10 وینٹی لیٹر ہیں۔
کراچی میں بچوں کے اسپتالوں میں وفاقی حکومت کا جناح اسپتال کے ساتھ قائم NICH اور سندھ گورنمنٹ کا بچہ اسپتال کورنگی میں ہے۔ اس لیے وسطی و دیگر علاقوں کے بچوں کا ان اسپتالوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ بلدیہ کراچی کے عباسی شہید اسپتال کو 1973ء میں بنایا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کا ایک اسپتال بلدیہ کراچی کے زیر اہتمام بنایا جائے، جس طرح دل کا KIHD ہے، اسی طرح Karachi institute of Child Health بلدیہ کراچی کے زیر اہتمام بنایا جائے۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں بچوں کے مختلف شعبے قائم کیے جائیں، جن میں بچوں کی سانس کی بیماری کا شعبہ، بچوں کی آنتوں اور جگر کا شعبہ، انفیکشن ڈیزیز کا شعبہ، بچوں کی پیدائشی بیماریوں کا شعبہ، بچوں کی ذیابیطس کا شعبہ، بچوں کے ہارمون کی بیماری کا شعبہ، بچوں کے کینسر کا شعبہ، بچوں کی ہڈی جوڑ اور پیدائشی نقص و فزیوتھراپی کا شعبہ، بچوں کے دانتوں کا شعبہ، بچوں کے مخصوص ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری، بچوں کا ریڈیالوجی کا شعبہ۔ ایکسیڈنٹ کی ایمرجنسی الگ ہو۔
کراچی میں بلدیہ کے تحت قائم یہ انسٹی ٹیوٹ مریضوں کے لیے براہِ راست بھی فائدہ مند ہوگا، اور اس میں ڈاکٹرز کی اتنے شعبوں میں تربیت (Training System) کراچی شہر میں بہت سے تربیت یافتہ ڈاکٹرز میں اضافے کا سبب بنے گی۔
مختلف شعبوں میں تربیت یافتہ ڈاکٹرز اپنے علاقوں میں بھی بچوں کی صحت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔