”طوفان الاقصیٰ.. حقیقت، اسباب اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں“

طوفانِ اقصیٰ نے لوگوں کے زاویہ فکر کو تبدیل کردیا ہے
فلسطین کی موجودہ صورت حال پر تازہ ترین کتاب کی اشاعت

یکم جون 2024ء کو مرکز ِتعلیم و تحقیق اسلام آباد کے زیراہتمام کتاب ’’طوفان الاقصیٰ.. حقیقت، اسباب اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں‘‘ کی تقریبِ رونمائی منعقد کی گئی، جس میں مصنفِ کتاب اور مہمانِ خصوصی جعفر منصور نے گفتگو کی، جبکہ ادارے کے مدیر ڈاکٹر حبیب الرحمٰن نے صدارتی کلمات ارشاد فرمائے۔

صاحب ِکتاب(راقم الحروف) نے کتاب کا تعارف پیش کرتے ہوئے تین نکات پر گفتگو کی۔

پہلا نکتہ: مرکز تعلیم وتحقیق کے قیام کے آغاز سے ہی آزادیِ فلسطین کے حوالے سے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس ادارے کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ فلسطین کی موجودہ صورتِ حال اور اسرائیل کی نسل کُشی و ظلم ستم کو بیان کرنے کے لیے وہ علماء کرام تشریف لاتے ہیں جن کا تعلق فلسطین سے ہوتا ہے اور جو اِس وقت مختلف ممالک میں ہجرت کی زندگی گزار رے ہیں۔ جون 2023ء میں ہیئہ علماء فلسطین کے مرکزی ذمہ داران ڈاکٹر نواف تکروری، ڈاکٹر ابراہیم عباس مہنا تشریف لائے، جن کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ادارے نے راولپنڈی، اسلام آباد میں 8 مقامات پر مسئلہ فلسطین پر سیمینارز کا انعقاد کیا، جن سے 2500 افراد مستفید ہوئے اور فلسطین کی موجودہ صورت حال اور کرنے کے کاموں کے حوالے سے آگاہی ملی۔

اسی طرح 2024ء کے آغاز میں طوفان الاقصیٰ سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں درج بالا دو مہمانوں کے علاوہ حماس کے رہنما ڈاکٹر خالد قدومی، جماعت اسلامی لبنان کے امینِ عام ڈاکٹر عزام ایوبی نے خصوصی شرکت کرکے اس معرکے کے اہداف و مقاصد کو بیان کیا۔

ورکشاپ کے انعقاد کے ساتھ ساتھ جہاد بالقلم کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کی ایک صورت یہ کتاب ہے جو ”طوفان الاقصیٰ.. حقیقت، اسباب اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داریاں“ کے عنوان سے اسلامک پبلی کیشنر لاہور سے شایع ہوچکی ہے۔ گویا مرکز، فلسطین کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔

دوسرا نکتہ: اس کتاب میں کُل 9 مضامین ہیں۔ آغاز میں حماس کی جانب سے ’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘ دستاویز کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے، جس میں اس معرکے کی حقیقت، وجوہات، اور اس سے متعلق پروپیگنڈے کے جوابات، اور حماس کی حقیقت کے ساتھ ساتھ اس معرکے کے مقاصد کی وضاحت کی گئی ہے۔

دوسرا مضمون حماس کے مرکزی رہنما اسماعیل ہنیہ کی تقریر ہے جو 4 نکات پر مشتمل ہے۔ اول نکتہ اس بات پر مشتمل ہے کہ ہم نے اس معرکے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا اسرائیل خونریزی کا بازار گرم کرکے اپنے اہداف حاصل کرچکا ہے؟ ہم اس معرکے کے توسط سے کیا چاہتے ہیں؟ امتِ مسلمہ اور علماء کرام کی اس صورتِ حال میں کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں۔

تیسرے مضمون میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس طوفانِ اقصیٰ نے مزید طوفانوں کے دروازے کھول دیے ہیں، جس میں میڈیا کا طوفان ہے کہ اس کے توسط سے فلسطین کی آزادی کی تحریک کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب ومعاشرت کی اشاعت کی جائے، اپنے مال کے ذریعے اہلِ غزہ کی مدد کی جائے، قرآن وسنت کی دعوت کو عام کیا جائے۔ جس طرح غزہ کے خاتمے کے لیے عالمِ کفر ایک ہوچکا ہے اسی طرح امتِ مسلمہ کو ایک ہونا ہوگا۔

چوتھے مضمون میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس معرکے کو الیکٹرانک گیمز کی صورت میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اہلِ مغرب جدید آلات کے توسط سے اس وقت کی نسل کو تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، تو اس معرکے کے نتیجے میں ایمانی قوت اور اللہ پر توکل کے ساتھ نئے نئے معجزات کا عامۃ الناس نے مشاہدہ کیا ہے، ان کو الیکٹرانک گیمز میں ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔فوری طور پر تو اس گیم کا نام طوفانِ اقصیٰ، ابوعبیدہ، مسافۃ صفر یا الیاسین ہوسکتے ہیں، اور کھیل کے ٹولز میں اس اسلحے کے نام ہوسکتے ہیں جو کتائب القسام کے مجاہدین نے اس معرکے میں استعمال کیے، جیسے قذائف الیاسین 105، قذائف ٹی بی جی، کورنیٹ میزائل، متبر 1 وغیرہ۔ اس کے علاوہ جو اسلحہ مجاہدین نے اسرائیل سے مقابلے کے لیے استعمال کی۔ اس کے علاوہ کتائب القسام کی ویڈیو میں استعمال ہونے والا مثلث (جو ٹینک مجاہدین کے بنائے گئے ہدف کو نمایاں کرتا ہے) کے علاوہ مجاہدین کی سرنگیں، تباہ شدہ عمارتوں اور جدید ترین مرکاوا ٹینک استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس گیم میں چیلنج اور تعجب و حیرت کے عنصر کو شامل کیا جائے کہ کس طرح جدید ترین گاڑیوں اور ٹینکوں کو صفر فاصلے سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس گیم کے لیے ایک اچھے گیم پروگرامر، مارکیٹنگ ویلیو کے ماہر، بڑے پیمانے پر گیم کی تیاری اور تقسیم کے لیے فنڈنگ کی ضرورت ہے۔

پانچویں مضمون میں غزہ کے باسی عمر یوسف کے، بچوں سے خطاب کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ چھٹے مضمون میں جنرل سیسی اور نیتن یاہو کے غزہ کے حوالے سے منصوبے کو اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ ساتویں مضمون میں ابوعبیدہ کے 83 دن گزرنے کے بعد خطاب کے نکات کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ آٹھویں مضمون میں رمضان اور اہلِ غزہ کی ثابت قدمی، جبکہ آخری مضمون میں غزہ اور غزوئہ بدر کے حوالے سے نکات قلم بند کیے گئے ہیں۔

گفتگو کا آخری نکتہ اس امر پر مشتمل تھا کہ جنگ کے 240 دن سے زائد گزرنے کے بعد ہم نے فلسطین کی آزادی کے لیے کیا کردار ادا کیا؟ اس حوالے سے بتایا گیا کہ اس وقت فلسطین کی آزادی کے مختلف طریقے سامنے آچکےہیں، جیسے: اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے وہاں کی خبریں پھیلانا، مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا، احتجاج اور مظاہروں میں شریک ہونا، فلسطینی رومال کو اپنے لباس کا حصہ بنانا، مجاہدینِ غزہ اور وہاں کے مسلمانوں کے لیے مستقل دعائیں کرتے رہنا، اپنے بچوں کو وہاں کی حقیقت سے آگاہ رکھنا وغیرہ۔

جعفر منصور تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے جو مشرقی ایشیا کے امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے غزہ کی موجودہ صورتِ حال پر گفتگو کی جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

”مجھے اس کتاب کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کرکے بہت خوشی اور مسرت محسوس ہورہی ہے۔ میں اس کتاب کو بطور ایک تحریری محاذ کے، فرضِ کفایہ سمجھتا ہوں جو محترم عبدالوحید شہزاد صاحب نے ادا کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اُس تاریخ پر روشنی ڈالی ہے جو اِس وقت ہمارے سامنے Unfold ہورہی ہے اور نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ذمہ داریاں یاد دلانے کی کوشش کی ہے جو اس ”طوفان الاقصیٰ“ کے حقیقی سبق ہیں۔

ہم آپ کے سامنے دل کی بات رکھنا چاہیں گے، یہ باتیں یقیناً آپ کے لیے نئی نہیں ہوں گی، لیکن تذکیر کے طور پر آپ کے گوش گزار کرنا ضروری ہیں۔

جہاں تک طوفان الاقصیٰ کا معاملہ ہے، جب آپ اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اس کے اسباب خلاصتاً معلوم ہوجائیں گے۔ طوفان اقصیٰ دراصل ایک جذباتی عمل نہیں تھا کہ حماس کو راتوں رات خواب آیا کہ انہیں اسرائیل پر حملہ کرنا ہے، یقیناً یہ ایک بہت بڑی پلاننگ کا نتیجہ ہے اور اس سے بڑھ کر اُن مظالم کا ردعمل ہے جو گزشتہ 76 نہیں بلکہ 130برس سے جاری ہیں۔ یہ خطہ تین ادیان کے لیے بہت ہی زیادہ مقدس اور محترم ہے۔ ان میں اسلام سرفہرست ہے، اسی طرح یہودیوں کا وہاں ایک stakeموجود ہے اور عیسائی بھی اس خطے کے حوالے سے اپنی دلچسپی اور اہتمام show کرتے ہیں۔ فلسطین کے حوالے سے یہ بات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ ارض الانبیاء ہے اور اس خطے کی حیثیت پوری دنیا میں مسلمہ ہے۔ القدس کا جو اسٹیٹس ہے، بطور مسلمان ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ یہ فلسطین کا دارالحکومت ہے، لیکن برطانوی، صہیونی اور امریکی سازش کے نتیجے میں جب 1947ء میں اسرائیل کی تشکیل ہوئی، اس کو فلسطین میں قائم کیا گیا۔ القدس الشریف کو International City قرار دیا گیا، یعنی یہ ایک بین الاقوامی شہر ہے جس کا انتظامی کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس ہوگا۔ جس طریقے سے اسرائیل نے اقوام متحدہ کی درگت بنا رکھی ہے وہ سب کے سامنے ہے، حالانکہ جو اس کی سندِ جواز ہے وہ اِس عالمی ادارے نے ہی دی تھی۔ اسرائیل عالمی ادارے کے چارٹرز کو ہر روز جس طرح پھاڑ پھاڑ کر پھینک رہا ہے، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔

ہمارے دفتر خارجہ، اقوام متحدہ، او آئی سی اور عرب لیگ کا جو کردار تھا انہوں نے ادا کرلیا ہے۔ اب یہ کردار امتِ مسلمہ خاص طور پر امت کے نوجوانوں کو ادا کرنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ طوفان الاقصیٰ ہمارے لیے تذکیر کا سامان ہے۔ اس طوفان نے سفارتی، علاقائی سمیت مختلف محاذوں پر دنیا بھر کے چہروں سے نقاب الٹ دیا ہے، خاص طور پر مغرب جو خود کو انسانیت اور حقوقِ انسانی کا چیمپئن سمجھتا ہے اِس طوفان نے اُس کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔

اسرائیل تو ہر روز یہی نعرہ لگاتا ہے کہ ہم جنگ کو اُس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اس خطے میں حماس موجود ہے۔ اسرائیل کو شاید معلوم نہیں ہے کہ فلسطین کا بچہ بچہ مزاحمت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ وہ اس مصیبت اور ابتلاء میں بھی سوشل میڈیا کے ہر کلپ میں یہی کہتے نظر آئیں گے الحمدللہ، حسبنا اللہ ونعم الوکیل۔ اس کی بنیادی وجہ ان کا مضبوط عقیدہ اور ایمان ہے اور اپنی اس زمین کے ساتھ محبت ہے۔ اس بنا پر کہ مسجدِ اقصیٰ، قبلہ اول محترم اور مکرم ہے، اس کی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنا، اس کی خاطر ایک بڑی جنگ لڑنا اور قبلہ اول کی آزادی کو یقینی بنانا ان کا مقصد ہے۔

اس طوفان الاقصیٰ کے حوالے سے عالم ِعرب کا کیا کردار ہے؟ عالم عرب میں ایسے ممالک موجود ہیں جو حالتِ جنگ میں بھی آج آمریکہ سے اسلحے کی خریداری کررہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ وہ کس کے دفاع کے لیے یہ خریداری کررہے ہیں؟ تو ان کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں اہلِ فلسطین کے ساتھ یا آمریکہ کے ساتھ؟

اس کے مقابلے میں یورپ،بالخصوص امریکہ… ابتدا میں ان کی خاموشی، پھر اس کے بعد ان کا ایکٹوازم۔ وہاں کے جو تعلیمی ادارے ہیں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سراپا احتجاج ہیں، وہ بلا تمیز رنگ، نسل و مذہب احتجاج کر رہے ہیں۔تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس طرح سے اس تحریک کو روکا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے وہی تشدد کا راستہ اختیار کیا۔

یہ طوفان الاقصیٰ ہی کی برکت ہے جس کے ذریعے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اسرائیل کی پرورش کون کرتا ہے۔ اب بچے بچے کو معلوم ہے کہ اسرائیل کی پرورش کس انداز سے ہوتی ہے،اس میں کون کون سے تعلیمی ادارے شامل ہیں اور کون کون سے انڈومنٹ فنڈ ہیں جن کے ذریعے سے اسرائیل کی سرپرستی ہوتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ جیسی باندی اور اس کے ڈرامے ہمارے سامنے ہیں،اس کی کئی طرح کی قراردادیں امریکہ نے ویٹو کی ہیں۔اس خطے میں جن یہودی آبادکاروں کو بسایا گیا تھا، اس عالم سفاکی کی وجہ سے وہ تمام کے تمام اپنے اصل وطن کی طرف جہاز بھر بھر کےواپس جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ٹی کی بڑی کمپنیاں اور انجینئرز واپس جاچکے ہیں۔ اسرائیلی حکومت جو ایک نام نہاد حکومت ہے اس کی قیادت کرپشن کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔

اسرائیل اس خطے کی اسلامی شناخت کے درپے ہے۔ وہاں کے شہروں کے جو اسلامی نام ہیں ان کو عبرانی ناموں سے تبدیل کیا جارہا ہے، تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے اسلامی شناخت کو پوری طرح محو کیا جائے۔

امت ِمسلمہ کی قضیہ فلسطین سے متعلق ذمہ داریاں:

ہمارے علمائے کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لوگوں کی ان باتوں کی طرف رہنمائی کریں، خاص طور پر قبلہ اول کی اہمیت اور تقدس سے متعلق رہنمائی کریں۔ ان مقامات کو منہدم کرنے کی اسرائیلی پلاننگ سے لوگوں کو آگاہ کریں۔

سوشل میڈیا کا استعمال کرکے ان مظلوم فلسطینیوں کی خاطر آواز اٹھائی جائے۔ یہ بھی ہمارے لیے ایک جہاد ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی حتی الوسع مالی معاونت کی جائے۔“

تقریب کے آخر میں مدیر مرکز تعلیم و تحقیق ڈاکٹر حبیب الرحمٰن نے صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پوری امت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ فلسطین کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ طوفانِ اقصیٰ کے حوالے سے سیکولر عناصر اس بات پر مُصر ہیں کہ حماس اس تباہی کی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح دو ریاستی حل کی تائید کی جاتی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اہلِ فلسطین اور مزاحمتی تحریکیں اس امر پر مُصر ہیں کہ ہم فلسطین کا ایک انچ بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ اور اس کے لیے وہ اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ ان حالات میں اس معرکے کی حقیقت، اسباب اور مقاصد کو تحریری شکل میں مرتب کرنا اردودان طبقے کے لیے بہت بڑی خدمت ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو فلسطین کی آزادی میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔