مقبوضہ کشمیر میں لوک سبھا کی 3 نشستوں کے لیے الیکشن کو بھارت نے ماضی کے انتخابات کے قطعی برعکس اِس بار بھارت کی حمایت یا نریندر مودی کی پالیسیوں کے حق میں ریفرنڈم بناکر پیش کرنے سے کلی گریز کا راستہ اختیار کیا۔ عمومی طور پر نریندر مودی نے کشمیر میں خود کو ٹارزن بناکر پیش کرنے کے بجائے ہلکے سُروں میں کسی کسی جلسے میں آزادکشمیر پر اپنا دعویٰ ظاہر کیا مگر صاف لگ رہا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے خالی ہاتھ نریندر مودی اپنے ووٹر کا دل خوش کرنے کی ایک نیم دلانہ کوشش کررہے ہیں۔ حد تو یہ کہ کشمیر کی شناخت، تاریخی تشخص، تہذیب اور عالمی ایوانوں میں اس کی متنازع حیثیت کو 5 اگست2019ء کو بلڈوز کرنے، جی ٹوئنٹی کے انعقاد اور تعمیر وترقی کے دعووں کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیر کے انتخابات میں براہِ راست حصہ لینے سے گریز کیا۔
اگر نریندر مودی کا اعتماد آسمان سے باتیں کررہا تھا تو پھر انہیں ایک عام کشمیری کا سامنا کرنے میں جھجھک کیوں محسوس ہوئی؟ اس کا جواب نریندر مودی اور بھارت کی اُن پالیسیوں میں ہے جو وہ گزشتہ کئی برس سے روا رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد جیلوں میں قید ہیں اور ایک پورا مخالفانہ یا متبادل نکتہ نظر منظر سے کلی غائب ہے۔ یعنی آزادی اور حریت کیمپ کا کشمیر میں بظاہر نام ونشان ہی نہیں چھوڑا گیا۔ اس کیمپ کی جیل سے باہر واحد علامت میرواعظ عمر فاروق ہیں جو مسلسل خانہ نظربند ہیں اور ان کی جامع مسجد مقفل اور خاردار تاروں کے پیچھے محصور ہے۔ آزاد میڈیا قصۂ پارینہ بن چکا ہے اور سول سوسائٹی کا وجود ہی ختم کردیا گیا ہے۔ دن کو مخالفانہ نکتہ نظر بیان کرنے والا شام کو کسی عقوبت خانے میں پایا جاتا ہے۔ شخصی اور اجتماعی آزادیاں سلب کی جا چکی ہیں۔ کشمیریوں کا احساسِ غلامی غیر کشمیری بیوروکریٹس کو مسلط کرنے کے ذریعے بڑھا دیا گیا ہے۔ دیواروں پر بھارتی ترنگے کے نقش ونگار بھارت سے محبت کی علامت بنا دیے گئے ہیں۔ اس سے باہر سے آنے والے سیاح کوتو جذباتی کیا جا سکتا ہے مگر کشمیریوں کے لیے یہ محض رنگوں کا ایک بے تاثر کھیل ہے۔
اس ماحول میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے پَلّے کچھ بھی نہیں تھا کہ وہ ایک عام کشمیری کا سامنا کرتی، یا کشمیر کے انتخابات کو بھارت کی حمایت یا نریندر مودی کی پالیسیوں کے حق میں ریفرنڈم قرار دیتی۔ اسی لیے مودی حکومت نے کیموفلاج کی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے دو مقامی کشمیری جماعتوں الطاف بخاری کی ’اپنی پارٹی‘ اور سجاد لون کی ’پیپلزکانفرنس‘ کے پیچھے چھپ کر انتخابی کھیل میں اپنا حصہ ڈالنے کی حکمتِ عملی اختیار کی۔ بی بی سی سمیت بعض اداروں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ 1989ء کے بعد پہلی بار کشمیریوں نے انتخابات میں ریکارڈ ووٹ ڈالے، کشمیری حریت پسندوں نے اِس بار بائیکاٹ کی کال نہیں دی، اور یہ کہ بعض آزادی پسندوں نے انتخابات میں ووٹ ڈالا۔
یہ سراسر ایک مغالطہ آرائی ہے۔ پہلی بات یہ کہ الیکشن جس ماحول میں منعقد ہوئے اس میں مخالفانہ آواز کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ایک پہلوان کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے اکھاڑے سے باہر کھڑا کردیا گیا تھا اور دوسرا پہلوان یک طرفہ طور پر ہوا میں مکے لہراتا ہوا اپنی جیت کا اعلان کررہا تھا۔ دوئم یہ کہ کشمیرکی کسی سیاسی جماعت نے ان انتخابات کو رائے شماری کا نعم البدل نہیں کہا۔ اسے مقامی مسائل اور نعروں تک محدود رکھا گیا۔ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس تو ہمیشہ سے یہ بات کہتی رہی ہے کہ کشمیر کے انتخابات کا رائے شماری یا کشمیر کی متنازع حیثیت سے کوئی تعلق نہیں۔ سوئم یہ کہ کشمیرمیں جماعت اسلامی اور پیپلزکانفرنس انتخابات لڑتی رہی ہیں۔ مسلم متحدہ محاذ 9 آزادی پسند جماعتوں کا اتحاد تھا جن میں انقلابی جدوجہد کرنے والی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ اس اتحاد نے 1987ء کے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا مگر بھارت نے دھاندلی کرکے محاذ کو ہرا دیا۔ الیکشن کا بائیکاٹ اُس وقت مسئلہ بنا جب سارک سربراہ کانفرنس منعقدہ اسلام آباد میں جنوبی ایشیائی ملکوں کے سربراہ، کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرنس کررہے تھے تو ایک صحافی نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے سوال پوچھا کہ کشمیر میں رائے شماری کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ جس پر راجیو گاندھی نے جواب دیا کہ کشمیر میں تو کئی انتخابات ہوچکے ہیں، وہاں اب رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ راجیو گاندھی کا یہ جملہ کشمیریوں کے دل میں تیر کی طرح ترازوہوگیا اور انہوں نے اگلے ہی لوک سبھا انتخابات کا تاریخی بائیکاٹ کرکے بھارت کو پیغام دیا کہ انتخابات رائے شماری کا نعم البدل اور متبادل نہیں ہوسکتے۔ یہاں تک کہ کانگریس کی ریاستی شاخ کے صدر غلام رسول کار نے اعتراف کیا کہ ان کے پولنگ اسٹیشن سے تین ووٹ برآمد ہوئے، اُن کا، اُن کی بیگم اور نوکر کا۔ اس طرح کشمیریوں نے بھارت کے اس دعوے کو باطل ثابت کرنے کے لیے الیکشن کا بائیکاٹ کرنا شروع کیا کہ انتخابات کے بعد رائے شماری کا نعرہ یا اقوام متحدہ کی قراردادیں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ بعد کے ادوار میں حریت پسند اسی دعوے کا جواب دینے کے لیے انتخابات کے بائیکاٹ کی کال دیتے رہے جس پر کشمیری عوام نے ہمیشہ بھرپور ردعمل ظاہر کیا۔
اِس بار بھارت نے حریت پسند سیاست کا قافیہ تنگ کرکے ان کے لیے کام کی اسپیس ہی نہیں چھوڑی تھی، اس لیے انہیں بائیکاٹ مہم چلانے کی فرصت نہیں مل سکی۔ اس کے باوجود نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے جلسوں میں ’’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘‘ اور ’’جیل کا بدلہ ووٹ سے‘‘ کے نعرے گونجتے رہے۔ وادی میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں تھی جس نے انتخابی مہم میں پاکستان یا حریت پسندوں کی مخالفت میں ایک لفظ تک زبان سے ادا کیا ہو،کیونکہ وہ اس کا مفہوم اور نتیجہ بخوبی جانتے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ ایسی صورت میں کشمیری انہیں اچھوت بنا سکتے ہیں۔