کراچی۔ عظیم الشان ”غزہ ملین مارچ“

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن اورنومنتخب امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کا خطاب

شہر کا موسم شدید گرم تھا، اس کے باوجود شہر بھر سے مختلف طبقات و مکاتب ِفکر اور شعبہ ہائے زندگی سمیت سول سوسائٹی سے وابستہ افراد کا لاکھوں کی تعداد میں شریک

فلسطین میں موت کا رقص جاری ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’اونروا‘ نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی جو 8 ماہ سے اسرائیلی حملوں کا ہدف بنی ہوئی ہے، ملبے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ فلسطینی خاندان ”غیر انسانی“ حالات میں زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اورانہیںپانی، خوراک اور رسد کی کمی کے ساتھ غیر انسانی حالات میں رہنا پڑرہا ہے۔

گزشتہ 7 اکتوبر سے اسرائیلی قابض افواج کی غزہ کی پٹی میں دہشت گردی اور سفاکی کے نتیجے میں دسیوں ہزار معصوم شہری شہید، زخمی اور لاپتا ہونے کے علاوہ 20 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کا 70 فیصد سے زیادہ تباہ ہوچکا ہے اور غزہ کی سخت ناکہ بندی اور مسلسل جنگ کے نتیجے میں گنجان آباد علاقہ قحط کی لپیٹ میں ہے۔ ادویہ، پانی اور خوراک کی قلت کے باعث آئے روز بچوں اور دیگر شہریوں کی اموات کی خبریں آرہی ہیں۔ دوسری جانب غاصب صہیونی دشمن ریاست نے جنگ بندی کی تمام کوششیں ناکام بنادی ہیں اور وہ غزہ میں فلسطینیوں کی منظم اور مسلسل نسل کُشی پر پوری ڈھٹائی کے ساتھ قائم ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں احتجاج ہورہا ہے، لیکن مسلم حکمراں خاموش ہیں۔ عوام پوری طرح سے بیدار نہیں ہیں لیکن انہیں کم از کم ہمدردی اور فلسطینیوں کی تکلیف اور درد کا احساس ضرور ہے اور جب کبھی موقع ملتاہے وہ فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ اسی پس منظر میں فلسطین اور تحریکِ مزاحمت حماس سے اظہار یکجہتی کے لیے اتوار 2 جون کو شارع فیصل پر عظیم الشان ”غزہ ملین مارچ“ کا انعقاد کیا گیا۔

شہر کا موسم شدید گرم تھا، اس کے باوجود شہر بھر سے مختلف طبقات و مکاتب ِفکر اور شعبہ ہائے زندگی سمیت سول سوسائٹی سے وابستہ افراد کا لاکھوں کی تعداد میں شریک ہونا عام حالات سے زیادہ اہم تھا۔ غزہ ملین مارچ سے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”فلسطین اور کشمیر کے لیے پوری قوم قربانیاں دینے اور سربکف ہونے کے لیے تیار ہے، حکمران اور افواجِ پاکستان اپنا کردار ادا کریں، حماس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا جائے، تمام اسلامی ممالک کو جمع کرکے جنگ بندی کے لیے اعلامیہ جاری کیا جائے، فلسطین کے زخمیوں کو پاکستان لایا جائے اور ان کا علاج کیا جائے۔ سابق جنرل باجوہ کے حوالے سے کشمیر کے مسئلے پر سودے بازی کی جو اطلاعات سامنے آرہی ہیں اس پر فوجی قیادت کو وضاحت کرنی چاہیے، ورنہ مسئلہ کشمیر پر فوج پر بھی شکوک و شبہات شروع ہوجائیں گے۔ کشمیر کے مسئلے پر کسی صورت میں بھی سودے بازی نہیں کرنے دی جائے گی۔ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ بتائیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف احتجاج اور حماس کی حمایت کیوں نہیں کرتیں؟ پی ٹی آئی کے عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ جیل سے اسرائیل کے حوالے سے اپنا موقف پیش کریں۔ اقوام متحدہ سے سوال کرتے ہیں کہ مشرقی تیمور کی علیحدگی اور عراق پر حملے کا مسئلہ ہو تو قراردادوں پر عمل درآمد ہوجاتا ہے لیکن کشمیر یا فلسطین کا مسئلہ ہو تو قراردادوں اور عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کو بھی روند دیا جاتا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے احتجاج کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا اور جدوجہد مزید تیز کرنی ہوگا۔ ہمیں اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے بھی لڑنا ہے۔ طویل، پُرامن مزاحمت جاری رکھیں، اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم جاری رکھیں۔ ہم 24 سال امریکہ کی برپا کی ہوئی جنگ کا حصہ بنے رہے۔ افغانستان ہمارا دشمن ملک نہیں، بیٹھ کر بات کریں۔“

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کا مزیدکہنا تھا کہ ”پاکستان خطہ زمین کا نام نہیں بلکہ ایک نظریے اور عقیدے کا نام ہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم نے اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ کہا تھا۔ پاکستان کا فلسطین کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ تحریک پاکستان میں آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی اسرائیل کو ناجائز قرار دیا تھا۔ پاکستان کی مسلم لیگ کو کیا ہوگیا ہے، وہ حماس کی حمایت کیوں نہیں کرتی؟ پاکستان کے بچے، بوڑھے، جوان، مرد و خواتین کسی صورت میں بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔“

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”ہمارے حکمران یاد رکھیں کہ پہلے بھی امریکہ کے عشق میں مبتلا ہونے سے کسی کو کچھ نہیں ملا بلکہ وہ رسوا ہوا اور آئندہ بھی رسوا ہوگا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ ایک مضبوط پاکستان انڈیا کے مسلمانوں کا تحفظ کرے گا۔ بدقسمتی سے انگریزوں کے شاگردوں کے پاس پاکستان کی باگ ڈور آگئی۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان کے پائلٹ نے اسرائیلی جہازوں کو گرایا تھا، پاکستان کی ٹیکنالوجی بوسنیا کے لیے استعمال کی گئی۔ جب پاکستان کا ایٹم بم بنا تو وہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ اہلِ اسلام کا ایٹم بم تھا۔ ہم نے قربانیاں دے کر نیوکلیئر پاکستان بنایا، ہم فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ایٹم بم تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا لیکن آج ایٹم بم کو ہی حفاظت میں رکھا جارہا ہے، قوم نے نیوکلیئر پروگرام کی آبیاری کے لیے قربانیاں دیں لیکن پاکستان کے حکمران کشکول لے کر بھیک مانگتے رہتے ہیں اور پوری قوم کو بھی بھکاری بنادیا ہے۔ پاکستان کے پاس تمام تر وسائل موجود ہیں، محنت کش عوام، مزدور اور کسان بھی ہیں۔ 76 سال سے فوجی ڈکٹیٹر یا اُن کے گملوں میں پلنے والے جاگیردار اور وڈیرے حکومت کررہے ہیں۔“

انہوں نے کہاکہ ”کراچی نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ اہلِ کراچی کے دل اہلِ غزہ و مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ کراچی عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر ہے، حکمرانوں کی نااہلی و ناقص کارکردگی نے کراچی کے عوام کو بے شمار مسائل و مشکلات میں گھیرا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ شہر ہمیشہ امت کے لیے اپنا حق ادا کرتا ہے۔ اہلِ فلسطین جن مظالم کا شکار ہیں اس حوالے سے عالمی سطح پر ایک لہر پیدا ہوگئی ہے۔ 40 ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو شہید کردیا گیا،درندہ اسرائیل پناہ گزیں کیمپوں پر بمباری کررہا ہے۔ امریکہ منافقت اور دہشت گردانہ تاریخ رکھتا ہے، اس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے، ویت نام پر لشکر کشی کی۔ امریکہ کا حکمران طبقہ بھی اپنے عوام کی بات نہیں سنتا اور اسرائیل کا سرپرست بنا ہوا ہے۔ اہلِ فلسطین کے خون اور قربانیوں کے نتیجے میں امریکہ و اسرائیل کی دہشت گردی پوری دنیا میں عیاں ہوگئی ہے، سوشل میڈیا کی دو دھاری تلوار نے امریکہ اور اسرائیل کو ایکسپوز کردیا ہے۔ حماس کے مجاہدین نے 7اکتوبر کو اسرائیل کی فوج اور ٹیکنالوجی کو شکست دی، اسرائیل نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے عورتوں اور بچوں پر بمباری کی۔ امریکہ اور عالم اسلام کے حکمرانوں کی خاموشی نے اسرائیل کو طاقت فراہم کی۔ حماس کے نوجوانوں میں کوئی شیعہ سنی نہیں ہے، سب ایک ہیں، سب سے زیادہ حافظِ قرآن حماس میں ہیں، ان کی روحانیت جذبہ جہاد پر آمادہ کرتی ہے۔حماس کے مجاہدین طاغوت کے آگے سجدہ ریز ہونے پر تیار نہیں ہیں،انہوں نے مزاحمت کو اپناشعار بنایا ہوا ہے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے وہ اسرائیل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ حماس ایک منظم تحریک ہے، جو سیاست بھی کرتی ہے اورجہاد بھی۔ہم حماس کے نوجوانوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جو ڈٹ کرکھڑے ہیں اور جان جانِ آفریں کے سپرد کررہے ہیں۔24 لاکھ افراد غزہ میں ہیں لیکن کسی ایک فرد نے بھی شکست قبول نہیں کی اور کوئی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔حماس نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے بغیر کوئی نقشہ گری مکمل نہیں ہوسکتی۔امریکہ کہتا ہے کہ حماس کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔“

غزہ ملین مارچ سے نومنتخب امیرجماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”کامیاب غزہ ملین مارچ نے ثابت کردیا ہے کہ اہلِ کراچی غزہ و فلسطین کے مسلمانوں کے حق میں بیدار اور جاگ رہے ہیں، 8ماہ سے اسرائیل اہلِ غزہ و فلسطین پر بمباری کررہا ہے اور خونی درندہ بنا ہوا ہے۔ فلسطین کے اسپتالوں، اسکولوں پر بمباری کی جارہی ہے، اہلِ غزہ و فلسطین کی اجتماعی قبریں بنائی جارہی ہیں، امریکہ اسرائیل کی سرپرستی کررہا ہے۔ مسلم دنیا میں امریکہ دندناتا پھر رہا ہے۔ غزہ کے بچے، بوڑھے، جوان اور مرد و خواتین استقامت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے، بچوں اور خواتین پر بمباری کرنے والوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ امریکہ کی جامعات میں طلبہ اہلِ غزہ و فلسطین کے حق میں احتجاج کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ صرف زبانی جمع خرچ اور قراردادیں پاس کرنے کا نام ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے فیصلہ کیا کہ رفح پر بمباری بند کی جائے لیکن اسرائیل نے رفح پر بھی بمباری جاری رکھی۔ اقوام متحدہ سے سوال بنتا ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے باوجود اسرائیل کیسے حملہ کرسکتا ہے؟ حماس نے 7اکتوبر کو یہ بات ثابت کی کہ اسرائیل ناقابلِ شکست نہیں ہے۔ تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود اسرائیل کو شکستِ فاش سے ہم کنار کیا گیا۔ غزہ کے بچوں، ماؤں، بہنوں اور مردوخواتین کا ہم پر قرض ہے کہ ہم اُن کی مدد کریں۔ بیت المقدس قبلہ اول کا تحفظ ہم سب پر فرض ہے۔ ہم اہلِ غزہ و فلسطین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور مزاحمتی تحریک امتِ مسلمہ میں جاری رہے گی۔“

مارچ سے جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق، اقلیتی برادری کے رہنما یونس سوہن ایڈووکیٹ اور اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم آبش نے بھی خطاب کیا۔