سیاسی بحران اور معیشت پر اثرات

فی الحال عمران خان جیل سے باہر آتے دکھائی نہیں دے رہے

ملک میں سیاسی بحران کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کا دورانیہ بھی طویل ہے۔ ہر دور میں ہمیں ایک نئے سیاسی بحران کا سامنا رہا۔ حالیہ بحران دراصل اسٹیبلشمنٹ کی مہم جوئی کا نتیجہ ہے۔ پہلے تو اسے نوازشریف کو اقتدار سے بے دخل نہیں کرنا چاہیے تھا، اُن کی جگہ اگر عمران خان کو لایا گیا تو پھر انہیں فارغ نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ اس بحران میں ملک کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ حالیہ بحران سے اعلیٰ عدلیہ کے سابق جج اور سابق آرمی چیف، اسٹیبلشمنٹ کے سابق عہدیدار کسی بھی صورت خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے، اور انتخابی نتائج کے بحران سے آج کی اسٹیبلشمنٹ کسی قیمت پر بری الذمہ قرار نہیں دی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے جو جیت گیا وہ بھی پریشان اور جو ہار گیا وہ بھی پریشان۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) بھی اس بحران میں دو فریق ہیں، تاہم آج نوازشریف کسی حد تک مطمئن ہیں کہ ان کے خلاف مقدمات ختم ہوچکے ہیں اور پارٹی قیادت کے لیے قانونی اور آئینی طور پر وہ اہل قرار پائے ہیں، لیکن عمران خان ابھی تک بھنور میں ہیں کہ میڈیا میں ان کے نام کی اشاعت بھی ممنوع ہے۔

اگرچہ اس ملک کا عام آدمی حالیہ سیاسی بحران سے جتنا پریشان ہے ماضی میں کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا۔ اس کی معاشی زندگی پر اس سیاسی بحران کے براہِ راست اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ملک میں روزگار نہیں رہا، ہر چھوٹے بڑے شہر میں امن و امان کی صورتِ حال تیزی سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ صرف وزراء نہیں لٹ رہے، بلکہ کیا سفارت کار اور کیا عام آدمی… کوئی بھی جرائم پیشہ افراد کی گرفت سے محفوط نہیں ہے۔ ہر سیاسی محفل میں ایک ہی سوال پوچھا جاتا ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور ہمارا کیا بنے گا؟ خیال تھا کہ انتخابات کے بعد ملک میں بحران ختم ہوجائے گا، لیکن تحریک انصاف کے پارٹی نشان کے چھن جانے کے بعد انتخابات میں فارم 45 اور 47 کی بحث نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، عمران خان کے خلاف مقدمات اور ان مقدمات کے فیصلوں نے تو گویا جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، لیکن جس فریق کو تمام مسائل اور سارے بحران کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں، یہ ان کی فرسٹریشن کی انتہا ہے۔ ایک جانب یہ انتہا، اور دوسری جانب بات چیت کے لیے اسی عطار کے لونڈے سے دوا کے طلب گار ہیں۔ کسی بھی سیاسی قوت اور سیاسی جماعت کے بجائے وہ انہی قوتوں کے ساتھ بات چیت بھی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی کا یہ تضاد اور ان کی بے سمت سیاسی حکمت عملی بحران کو مزید گمبھیر بنا رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ ہم بات چیت کا مینڈیٹ نہیں رکھتے، جس کو بھی بات چیت کرنی ہے وہ حکومت سے کرے۔ فی الحال تو گیند کسی کے کورٹ میں نہیں ہے البتہ جنہیں بات چیت کرنی ہے وہی کردار اِدھر اُدھر لڑھک رہے ہیں۔

انتخابات سے قبل عمران خان کو عدالت نے توشہ خانہ، عدت کی مدت میں نکاح اور سائفر کیس میں سزا سنائی ہے، جن میں توشہ خانہ کیس کے بعد سائفر کیس کی سزا معطل ہوچکی ہے، اب عدت والے کیس کی سزا کے باعث وہ جیل میں ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دی ہیں۔ سائفر کیس میں رواں برس 30 جنوری کو عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کا تحریر فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ٹرائل کورٹ کا 30 جنوری 2024ء کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے‘‘۔ عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل منظور کی جاتی ہے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت الزامات سے بری کیا جاتا ہے‘‘۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے ملزمان کی موجودگی میں مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے سزا سنائی تھی، جس کے بعد فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے سزاؤں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پیر کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر خصوصی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دیں۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ’’شام کو کیے گئے ٹرائل کی کیا حیثیت ہوگی؟ اس حوالے سے بھی پوچھیں گے، ایسی کیا بے چینی تھی کہ رات کے نو بجے بھی ٹرائل ہورہا تھا؟ یہ ہائبرڈ قسم کا کیس ہے اور اس میں نئی عدالتی نظیر تیار ہوگی‘‘۔ آرٹیکل 10A کے مطابق فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہیں، اسی آرٹیکل کے باعث نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزائیں کالعدم قرار پائی تھیں کہ انہیں منصفانہ ٹرائل نہیں ملا، یہی آرٹیکل اب عمران خان کی رہائی کے لیے بھی استعال ہوا ہے۔ ماتحت عدالتوں سے ملنے والی سزائوں کا اعلیٰ عدلیہ کی سطح پر ختم ہوجانا ہمارے عدالتی نظام میں بہت بڑے سقم کی نشان دہی کرتا ہے۔ ماتحت عدلیہ سیاسی مقدمات میں دبائو میں آکر فیصلہ دیتی آرہی ہے، یہ طرزعمل سنجیدہ جائزے کا متقاضی ہے۔

امریکی سائفر کا معاملہ کیا تھا؟
سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ 2022ء کو اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل اسلام آباد میں ایک جلسہ عام میں ایک خط (سائفر) لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک غیر ملکی حکومت کی طرف سے لکھا گیا ہے جس میں ان کی حکومت ختم کرنے کی منصوبہ بندی ظاہر ہوتی ہے۔

سائفر ایک سفارتی سرکاری دستاویز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ عمران خان کے خلاف یہ کیس اس بنیاد پر بنایا گیا کہ انہوں نے 2022ء میں امریکہ میں اُس وقت تعینات پاکستان کے سفارت کار اسد مجید کی طرف سے بھیجے گئے سفارتی مراسلے کے مواد کو افشا کیا۔ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی خط کتابت یعنی سائفر سے متعلق عمران خان کا کہنا تھا کہ اپریل 2022ء میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور بطور وزیراعظم بے دخلی امریکی سازش کا حصہ تھی۔ عمران خان کے خلاف امریکی سائفر کو عام کرنے کے جرم میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اڈیالہ جیل میں قائم کی گئی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کا یہی مؤقف رہا کہ سائفر کیس بنتا ہی نہیں تھا، کیونکہ انہوں نے عدالت میں وہ سائفر پیش ہی نہیں کیا۔

اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی عمران خان کو جیل میں کسی ڈیل کی آفر ہوئی؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ یہ آفر اب بھی موجود ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ طاقت ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، لیکن اسٹیبلشمنٹ ان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہ رہی۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ کیسز میں بریت… یہ سب ایک پلان کے تحت ہورہا ہے، لیکن فی الحال عمران خان جیل سے باہر آتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں، ہوسکتا ہے عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں ملنے والی ڈھیل کچھ کام دکھا جائے، لیکن محسوس ہوتا ہے وہ ابھی جیل سے باہر نہیں آرہے، کچھ عرصہ یہی رہے گا کہ مقدمات بنتے رہیں گے اور بریت بھی ہوتی جائے گی اور پھر حالات اس قدر آگے بڑھ جائیں گے کہ سبھی پکڑ میں آجائیں گے، اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ابھی بھی عمران خان کے لیے مہلت ہے کہ بات چیت کی میز پر آجائیں، اگر دیر ہوگئی اور ضد ختم نہ کی تو پھر ایک ایسی حکمت عملی بھی اپنائی جاسکتی ہے کہ وہ خود اپنی پارٹی میں ہی اجنبی قرار پائیں اور پارٹی کے اندر سے ہی ان کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوجائیں۔ جو سمجھتے ہیں کہ عمران خان ایک طلسماتی شخصیت ہیں اور انہیں کوئی توڑ نہیں سکتا، وہ غلطی پر ہیں۔ پرویزالٰہی کی مثال ہمارے سامنے ہیں، رہائی کے بعد کہیں ان کی آواز سننے میں نہیں آرہی۔ شاہ محمود قریشی اور اُن جیسے متعدد دیگر راہنما بھی پرویزالٰہی بن سکتے ہیں۔