جدید ہونے پر اصرار کے بووجود ماضی میں جڑوں کی تلاش
قدیم و جدید کا ’’حسین امتزاج‘‘ عصرِ حاضر کا نہ صرف یہ کہ ایک مقبول علمی نعرہ ہے بلکہ عوام اور خواص دونوں اس تصور کے گرویدہ ہیں۔ یہاں تک کہ جدید مغرب جو سر سے پیر تک جدیدیت میں ڈوبا ہوا ہے، اس کا کہنا بھی یہی ہے کہ چونکہ وہ جدید و قدیم میں رابطہ رکھتا ہے اور ان کا امتزاج پیش کرتا ہے، اس لیے اس کے کیا کہنے! جدید مغرب کو اپنی اس تاریخی حیثیت پر فخر ہے۔ اس فخر کا اظہار مختلف دائروں اور سطحوں پر ہوتا ہے۔
جدید مغرب کی قدیم سے ربط اور دل چسپی کی بات عجیب معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ جدید مغرب نہ صرف یہ کہ سرتاپا جدید نظر آتا ہے بلکہ اس کا سارا اصرار ہی جدید ہونے پر ہے۔ اس جدیدیت پر اسے فخر بھی ہے۔ یہ بات غلط نہیں، مغرب کا اصرار یقیناً یہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب سوال جڑوں کی تلاش کا شروع ہوتا ہے تو مغرب ’’یونانی تہذیب‘‘ کا رُخ کرتا ہے اور اپنے ہر بنیادی تصور کی بنیاد یونان سے کھود نکالتا ہے، اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے سب ہی کچھ یونان سے لیا ہے۔ مثلاً فلسفہ، عقلیت، آرٹ، کلچر۔ صرف ایک قانون ایسی چیز ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مغرب نے یہ چیز عبرانیت سے حاصل کی ہے۔ اس بنیاد پر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مغربی تہذیب یونانی اور عبرانی تہذیب کے امتزاج کا حاصل ہے، لیکن ان دونوں عناصر کے درمیان ایک جدلیاتی تعلق پایا جاتا ہے۔ چنانچہ مغربی تہذیب میں کبھی یونانیت کا پلڑا بھاری ہوجاتا ہے اور کبھی عبرانیت کا۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن یہاں ہماری دل چسپی کی بات یہ ہے کہ جدید مغرب یونانی تہذیب سے اپنا تعلق استوار کرتے ہوئے اس تہذیب کے بارے میں کس تاثر کو عام کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور پھر اس تصور سے کیا کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں؟
اس امر سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ یونانی تہذیب ایک قدیم تہذیب تھی، لیکن جدید مغرب نے اس مغالطے کو ایک علم بلکہ ایک عقیدہ بنادیا ہے کہ یونانی تہذیب نہ صرف یہ کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب تھی بلکہ وہ دنیا کی ’’واحد‘‘ قدیم ترین تہذیب بھی تھی، اور دنیا کی تمام دیگر تہذیبوں نے جو کچھ سیکھا ہے، اسی تہذیب سے سیکھا ہے۔ گویا دنیا کی تمام تہذیبوں کے بہترین عناصر یونانی تہذیب کی مرہونِ منت ہیں اور اس اعتبار سے ہر تہذیب یونانی تہذیب کی مرہونِ احسان ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اس دعوے کو درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر اس کے دوسرے نتائج کو بھی درست تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً یہ نتیجہ کہ چونکہ جدید مغرب یونانی تہذیب کا اصل وارث اور علَم بردار ہے، اس لیے دنیا کی دیگر تہذیبوں پر اس کی تہذیبی و علمی برتری ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ جدید مغرب نہ صرف یہ کہ اس نتیجے کو بڑے ولولے کے ساتھ تاریخی مدار سے برآمد کرچکا ہے بلکہ وہ صدیوں سے اس نتیجے کے تہذیبی، علمی، سیاسی اور سماجی فوائد سمیٹنے میں بھی مصروف ہے۔ تو کیا یونان کی تہذیب واقعتاً انتہائی قدیم ترین بلکہ واحد قدیم ترین تہذیب تھی؟
تاریخی حوالے اس دعوے کی واضح اور مدلل تردید کرتے ہیں۔ جدید مغرب یونان کی جس تہذیب میں اپنی جڑیں تلاش کرتا ہے، اسی عہد میں کم از کم چار بڑی اور قدیم تہذیبیں روئے زمین پر نہ صرف یہ کہ موجود تھیں بلکہ پھل پھول بھی رہی تھیں، اور ان کے پاس علم و حکمت اور تہذیب کا ایسا سرمایہ بھی تھا جس کے سامنے یونانی تہذیب کا سرمایہ ہیچ تھا۔ مثلاً مصر، فونیشیا، ہند اور فارس کی تہذیبیں نہ صرف یہ کہ یونان کی تہذیب سے زیادہ قدیم تھیں بلکہ ایک عظیم الشان علمی سرمائے کی بھی حامل تھیں۔ اور نہ صرف یہ، بلکہ اس امر کے شواہد بھی موجود ہیں کہ خود یونان کی تہذیب نے ان تہذیبوں سے بہت کچھ سیکھا۔ مثال کے طور پر افلاطون صاحب کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ مصری، یونان کی تہذیب اور اس تہذیب کے اساسی افکار کو بچکانہ سمجھتے ہیں۔ اس بات کو مزید سہل بنایا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مصریوں کے نزدیک یونانی فلسفے کے بنیادی افکار ابتدائی، کچے اور سرسری نوعیت کے تھے۔ آخر اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ افلاطون نے یہ بیان تو ریکارڈ کرا دیا لیکن یہ کہیں نہیں کہا کہ مصریوں کی رائے غلط ہے۔ اچھا‘ افلاطون صاحب کے بارے میں یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ سقراط کے زہر پینے کے واقعے کے خلاف جو بغاوت برپا ہوئی، اس نے افلاطون کو بہت عرصے کے لیے یونان چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ وہ برسوں تک اِدھر اُدھر کی سیاحت کرتا رہا۔ وہ مصر بھی گیا اور بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ ہندوستان بھی آیا اور اس نے ہندو فلسفے کا مطالعہ کیا اور اس سے متاثر ہوا، اور اس کے بعض افکار اسی تاثر پذیری کا نتیجہ ہیں، لیکن افلاطون کا زمانہ تو بہت بعد کا زمانہ ہے۔ افلاطون سے بہت پہلے جب یونانی فلسفہ ابھی گھٹنوں چل رہا تھا، اُس وقت بھی یونان کے فلسفی دور دراز کا سفر اختیار کررہے تھے۔ مثلاً ڈیمو کریٹس جو Atomism کے فلسفے کا صورت گر تسلیم کیا گیا ہے، اُس کے بارے میں وثوق سے کہا گیا ہے کہ وہ نہ صرف ہندوستان آیا تھا بلکہ اس کا ’’جوہریت‘‘ کا فلسفہ ہندو فلسفے ہی سے ماخوذ ہے۔ ’’جوہریت‘‘ کا فلسفہ جین ازم اور بدھ ازم میں مزید نمایاں ہوا، اور یہ ڈیموکریٹس سے بہت پہلے کی بات ہے۔
ان آراء سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ یونانی تہذیب نہ صرف یہ کہ قدیم ترین تہذیب نہیں ہے بلکہ وہ اپنے سے کہیں زیادہ قدیم تہذیبوں سے استفادہ بھی کرتی رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جدید مغرب اس صورتِ حال سے واقف نہیں، بلکہ بالادستی کا زعم اسے یہ تسلیم نہیں کرنے دیتا۔ تاہمِ یہ یونانی تہذیب سے جدید مغرب کے تعلق کا محض ایک رُخ ہے۔
دوسرا رُخ یہ ہے کہ جدید مغرب یونانی تہذیب کے جس دور سے اپنی جڑوں کا سراغ لگاتا ہے، وہ یونانی تہذیب کا ’’عہدِ زریں‘‘ نہیں بلکہ ’’دورِ زوال‘‘ ہے۔ اس کا اجمالی جائزہ عسکری صاحب نے ’’جدیدیت‘‘ میں مرتب کیا ہے، جہاں انہوں نے رینے گینوں کی مدد سے دکھایا ہے کہ یونانیوں کے جتنے بھی باطنی علوم تھے، وہ افلاطون اور اس کے استاد سقراط کو حاصل نہیں ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ارسطو کو یونانی روایت کا صرف خارجی اور ظاہری علم حاصل تھا۔
عسکری صاحب کا خیال ہے کہ ارسطو کو عقلِ کلی (Intellect) اور عقلِ جزوی (Reason) کا اندازہ تو تھا لیکن اس نے دونوں کو گڈمد کردیا۔ چنانچہ سولہویں صدی تک آتے آتے یہ امتیاز ایسا مبہم ہونا شروع ہوا کہ سترہویں صدی کے وسط تک ’’عقلیت‘‘ کی تحریک یورپ کے ذہن پر قابض ہوگئی۔ یہ بحث طویل ہے اور جسے اس سے دلچسپی ہو اس کی تفصیل عسکری صاحب کی ’’جدیدیت‘‘ میں ملاحظہ کرلے۔
اس گفتگو سے دو باتیں واضح ہوئیں، ایک یہ کہ نہ صرف یونانی تہذیب دُنیا کی واحد قدیم تہذیب نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ قدیم تہذیبیں موجود تھیں جن سے یونانی تہذیب نے استفادہ کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جدید مغرب جس یونانی تہذیب میں اپنی جڑیں تلاش کرتا ہے وہ یونانی تہذیب کا عہدِ زوال ہے، اس لیے جدید مغرب حقیقی یونانی تہذیب کا عہدِ زوال ہے، نیز وہ حقیقی یونانی تہذیب کا وارث بھی نہیں ہے۔ پھر یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ مغرب نے یونان سے بھی جو کچھ لیا اسے بھی اس نے برباد کرڈالا، اس لیے یونان سے جدید مغرب کا تعلق تائید کا تعلق نہیں بلکہ انحراف کا تعلق ہے۔ البتہ یہ بات مغربی تہذیب کے سخت ترین ناقد رینے گینوں نے بھی تسلیم کی ہے کہ یونان کے پاس Form یا ہئیت زبردست موجود تھی اور اس کا کمال یہ ہے کہ ُاس نے اِدھر اُدھر سے مواد حاصل کرکے اسے اپنی ذہنیت کے مطابق اپنی ہیئت میں استعمال کر لیا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو جدید مغرب قدیم اور جدید کے حسین امتزاج کے بجائے جدید اور جدید تر کے حسین امتزاج کا منظر پیش کرتا نظر آتا ہے۔ چنانچہ قدامت یا قدیم کی اگر کوئی عظمت ہوتی ہے تو وہ بہرحال جدید مغرب کے پاس نہیں۔