’’وا معتصماہ!‘‘

آج ہماری اُٹھی ہوئی گردنیں جھک گئی ہیں۔ آج ہمارے پھیلے ہوئے سینے سُکڑ کر رہ گئے ہیں۔ آج ہماری آوازیں کجلا گئی ہیں۔ آج ہماری روحیں مرجھا گئی ہیں۔ آج ہمارے دل بیٹھ گئے ہیں۔آج ہمارے حوصلے پست ہوگئے ہیں۔ آج ہمارے اعصاب ٹوٹ گئے ہیں۔آج ہمارے جسم چھلنی ہیں اور ہمارے دل زخمی ہیں۔ ہمارے جگر پھٹ رہے ہیں۔

ہماری عبادتوں میں خشوع و خضوع ناپید ہے۔ ہماری دعائیں منتشر اور شور زدہ ہیں۔ آٹھ، نو مہینوں سے علناً و جہاراً، لیلاً و نہاراً مظلوم و مقہور فلسطینیوں بالخصوص اہلِ غزہ پر جس ڈھٹائی اور بے حیائی سے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں وہ اندوہناک ہے، شرمناک ہے اور خطرناک ہے۔ تمام دنیا تماشائی ہے۔ عالمِ اسلام شہر خموشاں ہے۔ ’’الکفر ملۃ واحدہ‘‘ علی الاعلان، برسرِ میدان ظالم نیتن یاہُو کی پشتی بان ہے اور مسلمان حکمران خوابِ غفلت میں، عیش و عشرت میں مست و مدہوش ہیں۔

کس کس کو یاد دلاؤں؟ سلطنتِ روما اور خلافتِ بغداد دونوں پُرانے حریف تھے۔ یہ سن 223 ہجری کا ذکر ہے۔ رومی پونے دو لاکھ کا لشکر لے کر عموریہ میں در آئے۔ مسلمان مردوں کو قتل کردیا۔ ان کی خواتین اور اُن کے بچوں کو گرفتار کرلیا۔ مردوں کی آنکھوں میں دہکتی ہوئی گرم سلائیاں پھیری گئیں اور اُن کے ناک کان کاٹ ڈالے گئے۔ گرفتار شدہ عورتوں میں سے ایک ہاشمی عورت نے بلند آواز سے فریاد کی ’’وا معتصماہ!‘‘ اے معتصم! میری مدد کر! یہ فریاد خلیفہ معتصم باللہ تک پہنچ گئی۔ اگرچہ وہ بدشگونی پکڑنے والا تھا۔ مگر اس دُہائی اور فریاد کو سننے کے بعد وہ بذاتِ خود، بنفسِ نفیس رومیوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہوا۔ وہ خود بھی بہادر اور جنگ آزما تھا۔ اُس کے درباریوں اور مشیروں نے اسے بہتیرا خوف دلایا اور ڈرایا۔ بدشگونی کے لیے بہت سی بے پر کی باتیں اُڑائیں۔ لیکن خلیفہ معتصم باللہ223ہجری میں جنگی ہتھیاروں سے لیس ہوکر عموریہ آگیا اور بھرپور جنگ کے بعد فتح حاصل کرکے مسلمان ماؤں، بہنوں اور بچوں کو چھڑا لایا۔ رومیوں کے دانت کھٹے کردیے۔

اسی طرح مالابار کے عرب تاجروں اور مبلغین کی مسلمان خواتین کو راجا داہر کے بحری قزاقوں نے یرغمال بنایا تو ایک مسلمان خاتون نے حجاج سے فریاد کی۔ اگرچہ حجاج بن یوسف ظالم و جابر اور قاتل حکمران تھا، لیکن اُس نے بھی مسلمان ماؤں، بہنوں اور بچوں کو چھڑانے کے لیے اپنے سترہ سالہ بھتیجے محمد بن قاسم کو بھیجا۔ اُس نے دیبل سے ملتان تک اسلام کا پرچم لہرایا اور مسلم خواتین کو عزت و احترام کے ساتھ اُن کے گھروالوں تک بھجوا دیا۔

آج ہم اپنی مظلوم فلسطینی ماؤں، بہنوں، بچوں اور بچیوں کے لیے کس کو دُہائی دیں؟ کس سے فریاد کریں؟ کون ہے جو اہلِ غزہ کی مدد کو پہنچ سکے؟ کیا ہم ’’وا نعیماہ‘‘ کہہ کر فریاد کریں؟ اے حافظ نعیم الرحمٰن ان کی مدد کو پہنچ۔ ان کے پاس جوش و جذبہ اور تڑپنے والا دل تو ہے لیکن تہی دست ہیں۔

ہمارے طاقتور حکمران، جو اسلحہ بھی رکھتے ہیں اور طاقت بھی، شتر مرغ کی طرح سر ریت میں ڈال کر یہ نعرہ لگا رہے ہیں ’’لَا طَاقَۃَ لَنَاالْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَ جُنُوْدِہٖ‘‘۔ آج تو ہم میں طاقت نہیں کہ جالوت اور اس کے لشکروں سے لڑیں۔ (البقرہ، آیت: 249)

اللہ تعالیٰ ہمارے فلسطینی بھائیوں، بہنوں، ماؤں اور بچوں کی غیب سے مدد و حفاظت فرمائے۔ آمین