ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی سے روزگار کے مواقع بھی محدود ہوں گے
جمہوریت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، مگر جو بجٹ اِس ماہ میں آنے والا ہے اس میں نہ کہیں عوام ہیں، نہ جمہوریت اور نہ ہی اسلامی مساوات۔ بجٹ میں سب کچھ پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کے لیے ہے، یوں سمجھ لیجیے کہ یہ غریبوںکے نام پر امیروں کا بجٹ ہوگا۔ بجٹ چونکہ آئی ایم ایف کی ہدایت اور اُس کی نگرانی میں بنایاگیا ہے، اس لیے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کو غیروں کا بنایا ہوا بجٹ اپنوں پر نافذ کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ ہر چیز پر جی ایس ٹی نافذ کیا جائے اور اس کی شرح بھی یکساں کردی جائے۔ بجٹ تجویز یہ ہے کہ اب ادویہ پر بھی جی ایس ٹی لگے گا۔
پاکستان کے عوام کو سب سے زیادہ مشکلات بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی میں آرہی ہیں۔ بجلی کا بحران ایک ایسا بحران ہے جس کی عمر اس وقت تیس سال ہوچکی ہے، گویا ہمارے ملک کی ایک نسل اس بحران میں جوان ہوکر بڑھاپے کی جانب بڑھ رہی ہے اور یہ بحران ابھی تک حل نہیں ہوا بلکہ مزید بڑھ رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ بحران نجی پاور کمپنیوں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اس منصوبے کا ابتدائی خیال محمد خان جونیجو حکومت میں پیش ہوا، اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں اس کے خدوخال طے کیے گئے، اور پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت میں اس منصوبے کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ آئی پی پیپز کے خلاف ملک بھر میں صرف ایک سیاسی جماعت، جماعت اسلامی نے جناب قاضی حسین احمد کی قیادت میں ملک گیر مظاہرے کیے، یوں جماعت اسلامی نے اپنی بساط کی حد تک قوم کی راہنمائی کی، لیکن یہ احتجاج اور مظاہرے حکومت کو کسی معاہدے پر دستخط کرنے سے روک نہیں سکے۔ آئی پی پیز کے معاہدے کے لیے اُس وقت کے امریکی وزیر (سیکرٹری) تیل اور وزیر (سیکرٹری) تجارت دونوں بہت ہی متحرک تھے۔ یہ معاہدے ان شرائط پر ہوئے ہیں کہ حکومتِ پاکستان یک طرفہ طور پر انہیں تبدیل یا ختم نہیں کرسکتی۔ سی پیک منصوبوں کے لیے بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگانے کا فیصلہ کیا گیا، یہ فیصلہ کس حد تک ملک کے لیے سودمند ثابت ہوا؟ اس کا فیصلہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ سی پیک معاہدوں میں ایک شق یہ رکھی گئی ہے کہ حکومتِ پاکستان ان معاہدوں کو افشا نہیں کرسکے گی۔ ان معاہدوں کو ہوئے اب دس سال ہوچکے ہیں مگر آج تک پارلیمنٹ کو بھی ان معاہدوں سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے، لیکن آئی پی پیز کے معاہدے ایسے ہیں جن پر غالباً اب نظرثانی ہوسکتی ہے۔ حکومت نظرثانی کرے گی یا نہیں؟ اور پارلیمنٹ اس بارے میں پوچھ گچھ کرے گی یا نہیں؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
بجٹ سے قبل ہی آئی ایم ایف نے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے نئے سالانہ ترقیاتی منصوبے طلب کرلیے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ چاروں صوبائی حکومتیں اپنے ترقیاتی فنڈز کی سیکٹر وائز تقسیم کی تمام تفصیلات پلاننگ کمیشن کو دیں۔ پنجاب اور سندھ حکومتوں نے آئندہ مالی سال کے ترقیاتی منصوبوں اور حکمتِ عملی سے وفاقی حکومت کو آگاہی دے دی ہے، تاہم خیبرپختون خوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اپنے ترقیاتی منصوبوں سے پیشگی آگاہی دینے سے گریز کررہے ہیں۔ پنجاب حکومت اپنے ترقیاتی منصوبے 7 فی صد اضافے کے ساتھ 700 ارب روپے رکھنے کی خواہاں ہے، جس میں مقامی ذرائع سے 577 ارب اور بیرونی ذرائع سے 123 ارب روپے ملنے کا تخمینہ ہے۔ سندھ کا ترقیاتی منصوبہ 32 فی صد اضافے سے 764 ارب روپے رکھے جانے کا تخمینہ ہے، جس میں مقامی ذرائع سے 430 ارب اور بیرونی ذرائع سے 334 ارب روپے ملنے کا تخمینہ ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم پر آئندہ مالی سال میں کرنسی کی قدر میں 16 فیصد کمی کے مفروضے کو نظرانداز کرتے ہوئے نیا بجٹ 295 روپے ڈالر کی شرح تبادلہ پر تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہوا تو بجٹ کے بعد مہنگائی بھی سولہ فی صد بڑھ جائے گی۔ وزارتِ خزانہ نے ایک دفتری میمورنڈم جاری کیا ہے، جس میں مالی سال 2024-25ء کے بجٹ کے لیے مقامی کرنسی کی اوسط قدر 295 روپے فی ڈالر مقرر کی گئی ہے۔ میمورنڈم میں مقامی کرنسی کی قدر میں تقریباً 16 فیصد کمی کے آئی ایم ایف کے مفروضے کے مقابلے میں 3.5 فیصد یا 10 روپے فی ڈالر کی کمی کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت 295 روپے کوئی ہدف نہیں ہے، اس کے بجائے اسے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیوں، خدمات اور سامان کی لاگت کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ 295 روپے ڈالر کی اوسط قیمت بھی ہے، جو تجویز کرتی ہے کہ جون 2025ء میں مالی سال کے آخر میں شرح زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ اپنی رپورٹ میں آئی ایم ایف نے روپے کی قدر کو ایک ڈالر کے مقابلے میں 328.4 روپے فرض کیا تھا، جو اس سال کی اوسط قیمت 285 روپے فی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 16 فیصد زیادہ ہے۔ اس جون کے لیے آئی ایم ایف نے روپے اور ڈالر کی برابری کا تخمینہ 300 روپے لگایا تھا، جو 5 فیصد کم رہا۔گزشتہ مالی سال کے لیے حکومت نے بجٹ کے لیے روپے اور ڈالر کی برابری 290 روپے ایک ڈالر پر رکھی تھی۔ تاہم مالی سال 2023-24ء کے لیے روپے اور ڈالر کی اوسط برابری 285 روپے رہی۔ آئی ایم ایف کی رائے میں مالی ذخائر کی تعمیرنو کے لیے ایک لچک دار شرح مبادلہ ضروری ہے، اور افراطِ زر کو مزید اعتدال پسند سطح پر لانے کے لیے مالیاتی پالیسی کو مستحکم رہنا چاہیے، کیونکہ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی اگلے مالی سال کے لیے تقریباً 1.1 ٹریلین روپے تک پہنچنے کا امکان ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اگلے مالی سال کے قرض پر کُل سود کی ادائیگی کا تخمینہ 9.8 ٹریلین روپے ہوسکتا ہے جو کہ وزارت خزانہ کے تخمینے سے کہیں زیادہ 9 ٹریلین روپے ہے۔ آئی ایم ایف ملکی قرضوں پر 8.5 ٹریلین روپے اور بیرونی قرضوں پر 1.15 ٹریلین روپے کی حد میں سود دیکھتا ہے۔ روپے اور ڈالر کی برابری کا دفاعی بجٹ پر بھی اثر پڑتا ہے۔ وزارتِ دفاع نے 2.27 ٹریلین روپے کے بجٹ کی درخواست کی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے اب تک 2.1 ٹریلین روپے کا عندیہ دیا ہے۔
ملکی معیشت پر اس وقت جو دبائو ہے اس کی روشنی میں وفاقی حکومت نے صوبائی نوعیت کے منصوبوں کے فنڈز میں کمی آئی ایم ایف کی ہدایت پر کردی ہے اور آئندہ مالی سال کے لیے اراکین پارلیمنٹ کی صوابدیدی اسکیمیں مکمل طور پر بند کردی گئی ہیں۔ اس بجٹ میں سب سے پہلا وار ترقیاتی پروگرام پر کیا گیا ہے۔ حکومت جب بھی کوئی ترقیاتی منصوبہ لاتی ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ روزگار کے مواقع کھلیں گے۔ بجٹ میں ترقیاتی پروگرام میں 204 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی ہے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں بجٹ کا توازن برقرار رکھنے کی غرض سے 30 فیصد (184 ارب روپے) کی کٹوتی کی گئی ہے، یوں سالانہ ترقیاتی پروگرام کا حجم 950 ارب روپے سے گھٹ کر 746 ارب روپے ہوگا۔ اس کا مطلب ہوا کہ بجٹ کے نتیجے میں روزگار کے مواقع میں تیس فی صد کمی آئے گی۔
آئی ایم ایف بجٹ تجاویز کے ساتھ کرپشن ختم کرنے پر بھی زوردے رہا ہے۔ اس نے آئندہ بجٹ میں انسدادِ بدعنوانی کے لیے سخت اقدامات تجویز کیے ہیں اور زور دیا ہے کہ وزراء، ارکانِ پارلیمنٹ اور سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کرنے پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ وفاقی حکومت اثاثے عوامی سطح پر ظاہر کرنے کے لیے پورٹل بنانے میں ناکام رہی جس پر آئی ایم ایف نے حکومت سے سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت معاہدے کے تحت پورٹل بناکر اثاثوں کی تفصیلات عام کرنے کی پابند ہے۔
حکومت نے جو بجٹ اہداف مقررکیے ہیں ان کے تحت ملکی اقتصادی ترقی کا تخمینہ 3.6 فیصد جبکہ افراط زرکا ہدف 12 فیصد مقررکیا گیا ہے، لیکن سالانہ پلان کمیٹی کی سفارشات بتاتی ہیں کہ عوام تیسرے سال بھی مہنگائی تلے سسکتے رہیں گے۔ ملکی ترقی اور افراطِ زر کے ہدف کے حصول کا انحصار سیاسی استحکام کے علاوہ اس بات پر بھی ہوگا کہ حکومت بروقت آئی ایم ایف سے پیکیج حاصل کرپاتی ہے یا نہیں۔ ابھی حال ہی میں جب تیل کے نرخ طے کیے جارہے تھے وزیراعظم نے پندرہ روپے کا ریلیف دیا تھا، لیکن وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کا خوف دلاکر اس ریلیف کو چار روپے تک محدود کردیا تھا۔ حالات کچھ ایسے ہیں کہ اگلے سال بھی بیرونی ادائیگیوں کے باعث پاکستانی روپیہ اور زرمبادلہ کے ذخائر دبائوکا شکار رہیں گے۔ حکومت کی طرف سے لگائے جانے والے ٹیکسوں اور آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق اگلے سال بھی پاکستان میں افراطِ زر یا مہنگائی کی شرح 19سے20 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
حکومت نے وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 1.22 ہزار ارب روپے مختص کردیے ہیں، جن میں سے 59 فیصد انفرااسٹرکچر اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ پالیسی میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے حکومت نے ترقیاتی بجٹ کو آئین اور این ایف سی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ حتمی بجٹ تجاویز کے لیے وزیراعظم کی چین سے واپسی کے بعد نیشنل اکنامک کونسل کے اجلاس کے فیصلوں کا انتظار کرنا ہوگا، اس اجلاس کے بعد ہی بجٹ پیش ہوگا۔ سفارشات کے مطابق انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے لیے 378 ارب روپے انرجی سیکٹر کے لیے رکھے گئے ہیں۔ حکومت نے ارکانِ پارلیمان کی اسکیموں کا بجٹ مکمل طور پر ختم کردیا ہے، کیوں کہ عالمی مالیاتی ادارے نے ترقیاتی اسکیموں کے لیے اراکین پارلیمنٹ کے فنڈز ختم کرنے کی تجویز دی ہے ۔ آئی ایم ایف اور عالمی بنک کی تجویز پر صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر فنڈنگ بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سڑکوں، شاہراہوں اور موٹرویز کا ترقیاتی بجٹ 245 ارب روپے سے کم کرکے 173 ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ صحت کا بجٹ 53 فیصد کمی کے ساتھ 17 ارب روپے، تعلیم کا بجٹ 61 فیصد کمی کے ساتھ 32 ارب روپے(جس میں سے ایچ ای سی کے لیے 21 ارب روپے) رکھا گیا ہے۔آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بجٹ بغیر کسی تبدیلی کے 51 ارب روپے رکھا گیا ہے، جبکہ خیبرپختون خوا کے ضم شدہ اضلاع کے لیے بھی بجٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے اور 57 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پہلے سے منظور شدہ اسکیموں کو مکمل کرنے کے لیے 9.8 ہزار ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ بجٹ میں آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 1290 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے جبکہ ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 1250 ارب روپے مقرر کرنے پر اصرار کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ جی ایس ٹی کی معیاری شرح 18 فیصد سے بڑھا کر 19 فیصد کردی جائے۔ اگر اس تجویز کو منظور کیا جاتا ہے تو اس سے ایف بی آر کو اگلے ایک سال میں 180 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ بجٹ میں پرسنل انکم ٹیکس کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف نے زیادہ آمدنی والے طبقے کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ شرح 30 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کرنے کی تجویز دی ہے، جبکہ سرکاری ملازمین کے لیے ٹیکس سلیبز کی تعداد بھی سات سے کم کرکے چار کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔آئی ایم ایف نے
تمام زیرو ریٹنگ سے متعلقہ سیلز ٹیکس ایکٹ سے پانچواں شیڈول ختم کرنے اورما سوائے برآمدات کے دیگرتمام اشیاء کو معیاری شرحِ جی ایس ٹی میں لانے کی تجویز دی ہے۔ غیر ضروری ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، ٹیکسوں کی رعایتی شرح کو صرف اور صرف غذائی اشیاء اور صحت و تعلیم سے متعلق ضروری اشیاء تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ان اشیاء پر بھی اس شرح کو دس فیصد کے لگ بھگ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس وقت وزارتِ خزانہ میں بجٹ سازی اب حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ توقع ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ میں طے شدہ شرائط کو نافذ کرے گی تاکہ بجٹ کی منظوری کے بعد اسٹاف لیول ایگریمنٹ پر دستخط کرنے کا راستہ ہموار ہوسکے اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے تین سالہ قرض کا نیا پروگرام مل سکے۔ وفاقی بجٹ 7 جون کو پیش کیا جانا تھا، مؤخر اس لیے کیا گیا کہ وزیرِاعظم شہبازشریف 4 سے 8 جون تک چین کا دورہ کررہے ہیں۔ وفاقی وزیرِخزانہ محمد اورنگ زیب بھی چین کے دورے میں وزیر اعظم کے ہمراہ ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے نئے قرضے سے قبل یہ بجٹ بہت اہم ہے۔ اس لیے حکومت ہر قیمت پر آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ نئے پیکیج کے تحت پاکستان 6 ارب ڈالر کے قرضوں کا خواہش مند ہے۔
اصل اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ معیشت کی مکمل بحالی اور قرضوں پر انحصار سے نجات پانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی کے وابستگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل ہوکر معاشی بحالی کی ان کوششوں میں عملی تعاون کرنا ہوگا، جبکہ حکومت کو بھی شفاف نظام کے ذریعے مالی وسائل کے درست استعمال کو یقینی بنانا اور کرپشن کی ہرقسم کے مکمل خاتمے کا اہتمام کرنا ہوگا۔اس وقت روزمرہ کی اشیائے ضروریہ، بجلی، ہارڈویئر اور سینیٹری سمیت ہر قسم کے سامان پر 17فیصد جی ایس ٹی نافذ ہے۔آئی ایم ایف کے دبائو پر آنے والے وفاقی بجٹ میں اس کی شرح بڑھ جائے گی، اس سے گرتی ہوئی مہنگائی کو پھر ہوا ملے گی اور عام آدمی کی قوتِ خرید جو پہلے ہی جواب دے چکی ہے،مزید بوجھ تلے دب جائے گی۔ سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ بیرنی قرض نے ہماری قومی ترجیحات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں حقیقت پسندانہ روّیہ اپنانے کے بجائے فکری اور نظری ابہام میں مبتلا کردیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے قومی مستقبل کے تانے بانے بکھر کر رہ گئے ہیں۔