لیاقت آباد اور فیڈرل کیپٹل ایریا کے بلدیاتی حلقے سے جہاں ہماری رہائش تھی، چار امیدواروں کا انتخاب ہونا تھا، اور جماعت نے ان میں سے صرف دو پر اپنے امیدوار نامزد کیے تھے۔ ان میں سے ایک پروفیسر غفور احمد تھے جنہوں نے بعد میں قومی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کیا اور ملک کے موجودہ متفقہ آئین کی تیاری میں ان کا حصہ تاریخ ساز قرار پایا، دوسرے امیدوار لیاقت آباد جماعت کے کارکن عبدالستار خان شارق تھے جو بعد میں ناظم علاقہ شرقی بھی رہے۔ غفور صاحب کو جھگی اور شارق صاحب کو سائیکل کا انتخابی نشان الاٹ ہوا تھا۔ بلدیاتی الیکشن کی تیاری گھر گھر لوگوں سے رابطے کرکے کی گئی۔ پولنگ والے دن لیاقت آباد کی ناخواندہ خواتین بھی ووٹ دینے کے لیے بڑی تعداد میں نکلیں، جن کا کہنا تھا کہ وہ دواخانے والی پارٹی کو ووٹ دینے آئی ہیں۔ جماعت کی یہ شہرت اس کے گشتی شفاخانوں کی وجہ سے تھی جو ویگنوں میں قائم ہوتے تھے اور شہر کی عوامی بستیوں میں لوگوں کو ان کے گھر کی دہلیز پر علاج معالجے کی سہولت فراہم کرتے تھے۔ پولنگ کے عمل کے دوران جماعت کے الیکشن ورکر ووٹروں سے کہتے تھے کہ چار پرچیوں میں سے ایک جھگی اور ایک سائیکل والے ڈبے میں، اور باقی دو پھاڑ کر کالے ڈبے میں ڈال دیں، جو پولنگ بوتھ میں اسی لیے رکھا گیا تھا کہ اگر ووٹر کسی کو اپنے اعتماد کا حق دار نہ سمجھے تو اپنا ووٹ اس طرح ضائع کرکے اپنی رائے کا اظہار کرسکے۔
شام کو نتائج آئے تو میری یادداشت کے مطابق آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ جھگی، اور اس سے دوچار کم سائیکل کو ملے تھے، جبکہ تیسرے کامیاب قرار پانے والے امیدوار کے ووٹ ایک ہزار کے لگ بھگ تھے حالانکہ وہ بھی متعدد تعلیمی اداروں کے بانی ایک ممتاز اور نیک نام شخص تھے۔ یعنی صرف جماعت کے کہنے پر سات ہزار ووٹروں نے دو پرچیاں کالے ڈبے میں ڈال کر یہ اعلان کیا تھا کہ ان کے نزدیک جماعت اسلامی کے سوا کوئی ان کی نمائندگی کا اہل نہیں۔ مکمل نتائج سامنے آئے تو پتا چلا کہ جماعت نے اپنے لگ بھگ جو 25 کارکن الیکشن میں کھڑے کیے تھے ان میں سے 23 یا22 حریفوں پر بالعموم بھاری سبقت کے ساتھ کامیاب ہوگئے ہیں۔ اُس وقت الیکشن میں دھاندلی کے آج جیسے ترقی یافتہ طریقے ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ پھر بھی بعض حلقوں میں بیلٹ باکس وغیرہ بدلے جانے کی شکایات سامنے آئی تھیں۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس الیکشن میں جماعت تمام نشستوں پر اپنے امیدوار لاسکتی تو ملک کے دارالحکومت کی بلدیاتی قیادت اسی کو ملتی۔
اگر میری یادداشت درست کام کررہی ہے تو معروف بیوروکریٹ روئیداد خان نے غالباً اپنی کتاب ’’پاکستان۔ اے ڈریم گون سور‘‘ میں لکھا ہے کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے محض چند ماہ بعد اکتوبر1958ء میں ملک میں ایوب خان کے ہاتھوں لگنے والے مارشل لا کی ایک بڑی وجہ اس الیکشن میں جماعت اسلامی کی غیر معمولی مقبولیت کا انکشاف تھا، جس کی بنا پر اسلام سے الرجک مقامی عناصر ہی نہیں، امریکی پالیسی سازوں تک کو خطرہ محسوس ہوا کہ فروری 1959ء میں پاکستان میں جو عام انتخابات ہونے والے ہیں ان میں جماعت اسلامی ملک بھر میں بڑی کامیابی حاصل کرسکتی ہے، اور یوں ایک حقیقی اسلامی نظریاتی ریاست کی تشکیل میں نتیجہ خیز کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ لہٰذا پاکستان میں امریکا کی تائید سے آئین اور جمہوریت سب کی بساط لپیٹ دی گئی۔
(ثروت جمال اصمعی ،کراچی نمبر،ستمبر 2021)