انسانِ کامل، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ بوجوہ مسلم و غیر مسلم مؤرخین و محققین کے مطالعے و تحقیق اور توجہ کا ہمیشہ سے مرکز رہی ہے۔ غیر مسلم سیرت نگاروں میں برصغیر کے ہندو اور سکھ سیرت نگار حضرات کی مستقل منظوم و منثور کتابیں بھی ملتی ہیں۔ مستقل کتبِ سیرت کے علاوہ ہندو اور سکھ حضرات کی طرف سے بانیانِ مذاہبِ عالم کے بارے میں لکھی گئی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ عقیدت و احترام سے کیا گیا ہے۔ اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن اور تاریخ سے متعلق کتابوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کو موضوعِ بحث بنایاگیا ہے۔ علاوہ ازیں مضامین و مقالات اور مختلف اہم مذہبی، سیاسی اور ثقافتی مواقع پر کی گئی تقاریر میں بھی ان حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ ان میں سے بعض کتب تو ایسی ہیں کہ مولانا عبدالماجد دریا بادی کے الفاظ میں: ’’اکثر مقامات پر ایک مسلمان کو بھی اس خلوصِ نیاز پر رشک آنے لگتا ہے۔‘‘
پیشِ نظر کتاب ’’ہندو اور سکھ سیرت نگار(تعارف و تجزیہ)‘‘ ڈاکٹر حافظ محمد نعیم (ایسوسی ایٹ پروفیسر و سابق صدر شعبہ عربی و علوم اسلامیہ، جی سی یونیورسٹی، لاہور) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد نے 2006ء میں ایم۔ فل کی سند تفویض کی تھی۔ اب یہ مقالہ ترمیم و اضافے کے بعد کتابی صورت میں شائع کیاگیا ہے۔
اس کتاب میں بنیادی طور پر ہندواور سکھ اہلِ قلم کے سیرتی ادب کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان اسباب و محرکات اور وجوہات و تحریکات کا کھوج لگایا گیا ہے جن کے زیرِ اثر ہندو اور سکھ سیرت نگارو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت اور مقامِ بلند کا اعتراف کیا۔ خصوصاً جو مستقل کتب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھی گئیں ان کو اس انداز سے پرکھا گیا ہے کہ ان کے محاسن اور معائب واضح ہوسکیں۔ اُن غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشان دہی بھی کی گئی ہے جو ان سے نادانستہ طور پر یا کم علمی کے باعث سرزد ہوئیں۔ علاوہ ازیں جن ہندو اور سکھ حضرات نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات پر بے جا تنقید کی اور سیرت کے بعض واقعات کو مسخ کرکے حسبِ منشا غلط تعبیر و تحریف کے ساتھ پیش کیا ان کے اسباب و محرکات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ پیشِ نظر کتاب تین ابواب اور متعدد فصول پر مبنی ہے۔ فاضل مصنف نے پہلے باب میں ’’ہندوؤں اور سکھوں کی سیرت نگاری کے محرکات‘‘ میں ان مثبت و منفی محرکات و عوامل کی نشاندہی کی ہے جن کے تحت ہندو اور سکھ مصنفین نے سیرتِ نبویؐ پر قلم اٹھایا۔ اس ضمن میں ہندوؤں اور سکھوں کے 12 مثبت اور4 منفی محرکات/ رویوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
دوسرے باب ’’ہندوؤں اور سکھوں کا سیرتی ادب: تعارف و جائزہ‘‘ کی پہلی فصل میں ہندوؤں اور سکھوں کے سیرتی ادب کی مختلف زبانوں اور تصنیفی عہد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسری فصل میں 23 عدد مستقل کتبِ سیرت کی نشاندہی کی گئی ہے جو مذکورہ غیر مسلم مصنفین کی تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ تیسری فصل میں بانیان مذاہب سے متعلقہ ان کتابوں میں جہاں جہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آیا ہے، کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ چوتھی فصل میں 23 عدد ایسے مطبوعہ مضامین و مقالات کا سراغ لگایا گیا ہے جنہیں مختلف اوقات میں ہندو یا سکھ قلم کاروں نے قلم بند کیا۔ پانچویں فصل میں ہندوؤں اور سکھوں کی منظوم کتبِ سیرت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ چھٹی فصل میں ہندوؤں اور سکھوں کی اُن کتب ِتاریخ سے بھی قارئین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جب کہ ساتویں فصل میں ہندوؤں اور سکھوں کی معاندانہ اور مناظرانہ نقطہ نظر سے لکھی گئی کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
کتاب کے تیسرے اور آخری باب ’’ہندوؤں اور سکھوں کی سیرت نگاری کا ناقدانہ جائزہ‘‘ کی پہلی فصل میں ہندوؤں اور سکھوں کی کتبِ سیرت کے ماخذ، فصل دوم میں ان کی سیرت نگاری کے معائب، اور تیسری فصل میں ان کی سیرت نگاری کے محاسن کو بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ چوتھی فصل میں ہندوؤں اور سکھوں کی سیرت نگاری کا مستشرقین کی سیرت نگاری سے تقابل کیا گیا ہے۔
فاضل مصنف کی محنت اور تلاش و جستجو کا اندازہ کتاب کے آخر میں موجود تین سو سے زائد کتب پر مشتمل فہرست ِمصادر و مراجع سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ فاضل مصنف نے حتی المقدور ہندوؤں اور سکھوں کی کتابوں کا براہِ راست مطالعہ کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس (پرنسپل، کالج آف اورینٹل لینگویجز، جی سی یونیورسٹی، فیصل آباد) رقم طراز ہیں:
’’مصنف نے ہندوؤں اور سکھوں کی سیرت نگاری کا ناقدانہ جائزہ جذباتیت کے تحت نہیں کیا بلکہ خالصتاً دلائل کی روشنی میں کرکے ان کی سیرت نگاری کے دونوں پہلو یعنی معائب و محاسن قاری کے سامنے رکھے ہیں۔ علاوہ ازیں مستشرقین کے علمی رویوں سے تقابل کرکے یہ بھی بتایا کہ غیر مسلموں کے ہاں سیرت نگاری میں کچھ ’’اشتراکات‘‘ ضرور پائے جاتے ہیں۔ وہ زمانی ومکانی اعتبار سے کتنے ہی فاصلوں پر ہوں، دونوں نے کمزور اور ناقابلِ استناد روایات کا سہارا لے کر سیرت پر اعتراضات کی گنجائش نکالی ہے۔ اسے علمی رویہ بہر صورت نہیں کہا جاسکتا، اور نہ یہ انصاف پسندی کی روش ہے۔ لیکن جن غیر مسلموں نے انصاف پسندی کے تحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ پر قلم اٹھایا ہے ان کی سیرت نگاری کو سامنے لانا بہرحال ضروری ہے جیسا کہ اس کتاب میں ہندوؤں اور سکھوں کے مثبت سیرتی ادب کو پیش کیا گیا ہے۔‘‘
بلاشبہ یہ کتاب ’’اپنے موضوع پر اوّلین تصنیف‘‘ کہلانے کا حق رکھتی ہے، جس کے لیے فاضل مصنف ڈاکٹرحافظ محمد نعیم لائقِ صد تحسین و مبارک باد ہیں۔