مولانا عبدالحلیم قاسمی، ان کے بھائی مولانا عبدالعلیم قاسمی (جامعہ قاسمیہ گلبرگ)، مولانا محمد حسین نعیمی(جامعہ نعیمیہ)، مولانا عبدالقادر روپڑی (جامع مسجد اہلِ حدیث، چوک دالگراں)، مولانا بہاء الحق قاسمی (والد عطا الحق قاسمی، ماڈل ٹائون)، مولانا عبدالرحمان اشرفی (جامعہ اشرفیہ)، مولانا عبیداللہ انور (شیرانوالہ گیٹ)، مولانا ابوالبرکات سید احمد (حزب الاحناف)، مولانا محمد بخش مسلم (مسلم مسجد انارکلی)، پروفیسر ابوبکر غزنوی (تقویۃ الایمان شیش محل روڈ)، شورش کاشمیری (ہفت روزہ چٹان)، علامہ علاء الدین صدیقی (صدر شعبہ اسلامیات جامعہ پنجاب)، مولانا ملک غلام علی(مرکز جماعت اسلامی اچھرہ لاہور)… ان کے علاوہ بہت سے اہلِ علم ہیں جن کے نام اس وقت یاد نہیں آرہے۔ جن شخصیات کے نام اوپر لکھے گئے ہیں، ان میں سے اکثر کے لیکچرز کا اہتمام ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا۔ ان حضرات کا لیکچر حبیبہ ہال میں ہوا کرتا تھا جس کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹہ، اور پھر چند منٹ سوال و جواب کے لیے ہوا کرتے تھے۔
اس ہال میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اعزازی طور پر اکتوبر 1939ء سے لے کر ستمبر 1940ء تک مسلسل اعزازی لیکچرز دیے تھے جن کے نتیجے میں بہت سے طالب علم اور اساتذہ اسلام کے حقیقی پیغام سے روشناس ہوئے۔ آپ کے ان خطابات کا تذکرہ کئی مصنفین نے اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ بعد میں معلوم نہیں کن وجوہات سے یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ ہمارے دور میں ہفتہ وار لیکچر کے بعد مہمانانِ گرامی کے لیے چائے اور تواضع کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ کالج کے خدام مولانا عبدالحئی فاروقی صاحب کی ہدایات کے مطابق ضیافت کا سامان کینٹین سے لا کر ان کے دفتر میں میزوں پر سجا دیتے۔ جب مہمان دفتر میں آتے تو گرما گرم چائے اور ٹھنڈا پانی بھی میزوں پر رکھ دیا جاتا۔ اکثر مہمان بہت کم بسکٹ، کیک وغیرہ لیتے۔ تاہم خشک میوہ جات اور نمکو وغیرہ زیادہ استعمال ہوتے۔ ضیافت کی خاصی چیزیں بچ جاتیں۔
مجھے آج بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو چہرے پر مسکراہٹ آجاتی اور دل پر عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ پروفیسر فاروقی صاحب اسلامک سوسائٹی کے ذمہ دار، تین چار طلبہ سے جو اس موقع پر حاضر ہوتے، فرماتے: ’’نوجوانو! یہ سب چیزیں جو ہیں ان کی قیمت ادا کی گئی ہے، آپ ان کو ضائع نہ کریں، ان کو استعمال کریں۔‘‘ چناں چہ ہمارے بعض ساتھی پھر اس ’’جہاد‘‘ کا حق بڑی بہادری سے ادا کرتے۔ وہ بھی کیا خوب دور تھا اور کیسا خوشگوار ماحول اور کتنے عظیم طلبہ و اساتذہ ہوا کرتے تھے!
اسلامیہ کالج کے پرنسپل پروفیسر عبدالحئی بٹ تھے۔ موصوف ہمارے مشفق و مہربان استاد پروفیسر عبدالقیوم صاحب کے بڑے بھائی تھے، جن سے ہم نے بی اے کی کلاسوں میں جی سی میں عربی پڑھی تھی۔ بٹ صاحب اپنی وضع میں بہت منفرد تھے۔ آپ کی چال ڈھال، قد کاٹھ اور ڈیل ڈول میں عجیب و غریب قسم کا طنطنہ تھا۔ ان کا گھر جامع مسجد مبارک (اہلِ حدیث) کے ساتھ جانبِ شمال واقع تھا۔ گھر کی کھڑکیاں کالج کی طرف گلی میں کھلتی تھیں۔ کالج اور ان کے گھر کے درمیان چند قدم کا فاصلہ تھا، گھرسے نکل کر پیدل کالج میں آتے تو ان کو دیکھ کر طلبہ و اساتذہ سبھی ’’باملاحظہ و باہوشیار‘‘ ہوجاتے۔ ان سے پہلی مرتبہ گفتگو ہوئی تو پتا چلا کہ ان کی ظاہری ہیبت کے مقابلے میں ان کا لب و لہجہ خاصا نرم اور مشفقانہ تھا۔ کئی طلبہ (اور شاید بعض اساتذہ بھی) ان کے ڈیل ڈول اور رعب و دبدبے کی وجہ سے ان کو ہٹلر بھی کہتے تھے، مگر یہ سوچ بالکل غلط تھی۔ موصوف ڈسپلن کے معاملے میں سمجھوتے کے ہرگز قائل نہیں تھے، مگر ویسے بہت اچھی طبیعت کے مالک تھے۔
اسلامیہ کالج سے ملحق جامع مسجد مبارک اہلِ حدیث تھی۔ اس کے دو راستے تھے۔ ایک کالج کے مرکزیدروازے سے شمال کی طرف ہمارے ہاسٹل کے سامنے سے گزر کر مسجد کے دروازے پر پہنچ جاتا تھا۔ دوسرا سرکلر روڈ کی طرف سے ایک گلی میں کھلتا اور چند قدم پر مسجد کے دروازے پر لے آتا تھا۔ جمعہ کا خطبہ مولانا محمدعطااللہ حنیف بھوجیانویؒ دیا کرتے تھے۔ آپ بڑے خوش مزاج، سادہ لباس اور ملنسار عالم دین تھے۔ سادگی ایسی کہ کوئی ناواقف ان کو دیکھ کر بالکل اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ ایک جیّد عالمِ دین ہیں۔ ان کے ساتھ تعارف ہوا تو پھر اکثر ان سے جمعہ کے روز علیک سلیک ہوجاتی اور بڑی اپنائیت کے ساتھ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا جاتا۔
مولانا عطا اللہ بہت بڑے عالم دین تھے اور میں کالج کا ایک مبتدی طالب علم، اس کے باوجود آپ جس محبت سے مجھ سے ملتے وہ آپ کی عظمت اور میرے لیے اعزاز تھا۔ میں کئی مرتبہ آپ سے کسی دینی موضوع پر کوئی سوال بھی پوچھ لیتا جس کا آپ بڑی محبت سے جواب دیتے۔ کئی امور میں، مَیں مرحوم سے اختلاف کرتا تو وہ کبھی برا نہیں مانتے تھے۔ بعد میں مرحوم کے بیٹے برادرم احمد شاکر صاحب (ناشر دارالکتب سلفیہ) اور ان کے بیٹوں سے بھی محبت کا تعلق قائم رہا۔ اب تک بھی احمد شاکر مرحوم کے بچوں سے تعلقات قائم ہیں۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کا باغیچہ سلامت رہے۔
ہمارے کالج سے جنوب کی جانب کچھ فاصلے پر جامع مسجد مبارک عبدالکریم روڈ، قلعہ گوجر سنگھ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ہفتہ وار درسِ قرآن ہر اتوار کو ہوا کرتا تھا۔ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ ہمارے کالج سے ملحق مسجد اہلِ حدیث کی طرح اس مسجد کا نام بھی مبارک مسجد تھا۔ ہم کالج کے کئی ساتھی مولانا مودودیؒ کے اس درس میں شرکت کے لیے ہوسٹل سے پیدل روانہ ہوتے اور درس میں حاضری کا شرف حاصل کرتے۔ پہلی مرتبہ جوں ہی مسجد میں پہنچے تو مولانا مودودیؒ بھی تشریف لے آئے۔ مسجد بڑی تھی مگر صاف ستھری تھی۔ پہلے روز یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ درس شروع ہوتے ہی مسجد کا ہال بھرگیا اور کافی لوگ صحن میں بھی بیٹھ گئے۔
اس یادگار درس میں جن لوگوں کو پہلی بار دیکھا اور جن سے بعد میں بہت قریبی، ذاتی دوستی اور باہمی محبت کے گہرے تعلقات قائم ہوئے، ان میں پہلوان عبدالستار (منتظم مسجد)، چودھری غلام جیلانی مدیر ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ اور امیر جماعت اسلامی لاہور، (مرحوم کے حالات راقم کی کتاب ’’مسافرانِ راہ وفا‘‘، صفحہ 66تا 79 میں بیان ہوئے ہیں)، محمدیوسف خاں، (’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد چہارم، صفحہ:277تا 282 )، عبدالوحید خاں (’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد چہارم، صفحہ: 233تا 241)، صفدر حسن صدیقی، عبدالحمید کھوکھر، سعید مغل، ملک محمد اسلم (’’عزیمت کے راہی‘‘ جلدششم، صفحہ:141تا 165 )،رانا اللہ داد خان، (’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد اول، صفحہ: 215تا 228)، خواجہ علاء الدین مرحوم (’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد پنجم صفحہ 139تا 147)، راجہ احسان الحق، شیخ فقیرحسین (’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد چہارم، صفحہ:73تا 89)، صاحبزادہ محمدابراہیم (’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد چہارم،صفحہ: 342تا 359)،حاجی محمد رفیق اشرفی، حاجی محمد سلیم آف رام گلی اور کئی دیگراللہ والے شامل تھے۔ اب اس درس میں بروقت پہنچنا ہمارا مستقل معمول بن گیا تھا۔
تحریکِ اسلامی کے قافلۂ سخت جان کے فکری وعملی سفر کے دوران کئی کٹھن مرحلے اور منزلیں آتی ہیں۔ جماعت اسلامی کو ہر دور میں سیاسی نشیب وفراز کا سامنا رہا ہے۔ فوجی آمریت (ایوبی دورِ حکومت) میں انتقامی سیاست کے تحت اس درسِ قرآن کے پاکیزہ پروگرام میں تعطل آگیا۔ ہوا یوں کہ ہماری حاضری کے کچھ عرصے بعد مولانا مودودیؒ اور دیگر تحریکی قائدین ایوبی آمریت کے انتقامی حربوں کی زد میں آگئے اور غیر قانونی طور پر پابندِ سلاسل کردیے گئے۔ اس طرح درس کا یہ سلسلہ عارضی طور پر بند ہوگیا۔ عدلیہ کے فیصلے کے نتیجے میں مولانا کی رہائی عمل میں آئی تو اس کے بعد پھر یہ ہفتہ وار دروس شروع ہوئے۔ اب میں گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم، نیوہاسٹل میں مقیم تھا۔ وہاں سے کبھی پیدل اور کبھی تانگے پر درس میں شرکت کے لیے چند دوستوں کے ساتھ مبارک مسجد میں حاضر ہوا کرتا۔ ایک دن ہم مسجد میں پہنچے تو کئی بزرگوں سے ملاقات ہوئی جن سے پہلے بھی باہمی تعارف ہوچکا تھا، مگر ایک نیا چہرہ بھی نظر آیا جس سے مانوسیت محسوس ہوئی، حالانکہ پہلے سے ملاقات نہیں تھی۔ یہ سلسلۂ دروس ایک عظیم نعمت اور رحمتِ خداوندی تھی۔
وہ منظر اب تک یاد ہے جب اُس روز مولانا کا درس شروع ہونے سے قبل اس نفیس باریش نوجوان نے جو صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے، ایک بڑے سے ٹیپ ریکارڈر کو سیٹ کرکے ریکارڈنگ کے لیے تیار کرلیا۔ یہی میرے لیے نیا چہرہ تھا۔ سیاہ داڑھی، آنکھوں پر چشمہ اور چہرے پر سنجیدگی، بات کرتے تو سامنے کے سفید دانت نظرآتے، خاموش ہوتے تو لگتا کہ اوپر کا ہونٹ پوری طرح بند ہونے کے باوجود قدرے کھلا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ موصوف کا نام حفیظ الرحمٰن احسن ہے اور کسی کالج میں تدریس کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔ بعد میں مرحوم سے طویل عرصے تک محبت و دوستی کا تعلق رہا۔ (مرحوم کے حالات میں نے اپنی کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد ہشتم از صفحہ312 تا329 میں لکھے ہیں)
اسلامیہ کالج میں حافظ عبدالرئوف، مستنصر میر، محمد طفیل سالک، ملک محمد اکرم، عبدالحفیظ، عزیز الرحمان، محمد صوبہ، محمد صدیق، محمد شفیق، ممتاز گوجر، ممتاز راجہ اور بہت سے دیگر احباب سے بے تکلفی اور گہری دوستی قائم ہوگئی تھی۔ ناظم لاہور عطا اللہ چودھری صاحب کی رہنمائی میں اسلامی جمعیت طلبہ، حلقہ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ منظم ہوا تو اس کی نظامت کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی۔ اس دوران میں ہم دروسِ قرآن و حدیث اور مطالعۂ لٹریچر کے ذریعے اپنے ہفتہ وار اجتماعات منعقد کیا کرتے تھے۔ مرکزی نظم کی ہدایات کے مطابق اجتماع میں سب ساتھی ذاتی رپورٹ بھی پیش کرتے۔ بہت یکسوئی کے ساتھ کام شروع کردیا گیا۔ ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ لاہور جمعیت کے دفتر گوالمنڈی بھی حاضری ہوا کرتی تھی۔
ہمارے کالج سے گوالمنڈی مغرب کی جانب ریلوے روڈ پر واقع تھی۔ اس سے ذرا آگے ایک مرکز علم و محبت تھا۔ یہ تھا ہفت روزہ ’’آئین‘‘ کا دفتر! دفتر کیا تھا، ایک چھوٹا سا کھوکھا نما کمرہ، جس میں کتابوں کا ایک ڈھیر، رسائل کی فائلوں کا ایک پہاڑ اور دوچار پرانی کرسیاں، ایک میز اور ایک بینچ۔ اپنے وقت کے ولی اللہ مظفر بیگؒ یہاں تشریف فرما ہوتے تھے۔ گٹھا ہوا جسم، درمیانی قد، گورا رنگ، کلین شیو، دھیمی آواز، محبت بھرا انداز، بولتے تو زبان سے پھول جھڑتے، خاموش ہوتے تو معلوم ہوتا کسی گہری سوچ میں گم ہیں۔ پہلی مرتبہ موصوف سے ملاقات اور تعارف ہوا تو میں نے کہا کہ ہفت روزہ آئین کا قاری ہوں اور پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا بھی شوق ہے۔ یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئے اورفرمانے لگے ’’آئین کے لیے بھی کچھ لکھا کریں۔‘‘ میں نے ہامی بھر لی، پھر ہفت روزہ آئین میں میرے کئی مضامین چھپے۔
یہ مضامین مختلف موضوعات پر لکھے گئے۔ بعد میں مجھے خیال آیا کہ میری اصل دلچسپی سیرتِ نبوی اور سیرتِ صحابہ کے مطالعے سے ہے تو کیوں نا اسی موضوع پر سلسلہ وار لکھا جائے۔ چناںچہ میرا ایک مضمون حضرت مصعب بن عمیرؓ کے حالات پر ’’ آئین‘‘ میں چھپا تو مظفر بیگ صاحب کے علاوہ کئی دیگر احباب نے بھی اصرار کیا کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے۔ چناں چہ یکے بعد دیگرے مختلف صحابہ کی سیرت پر مضامین چھپتے رہے۔ سیرتِ صحابہ پر چھپنے والے ان مضامین میں سے بیس مضامین ’’روشنی کے مینار‘‘ کے نام سے بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ اب تک اس کے بیسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
ریلوے روڈ سے آگے میو اسپتال سے گزر کر مال روڈ پر کلنٹن مارکیٹ انارکلی میں ایک چھوٹی سی مسجد کے اندر لاہور جمعیت کا ہفتہ وار اجتماع ہوا کرتا تھا۔ اس مسجد کے ساتھ جمعیت کے سابق رکن اور سابق صدر پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین نصراللہ شیخ مرحوم اور ان کے بھائیوں کا پولٹری کا ہول سیل بزنس تھا۔ یہاں جمعیت کے اجتماع میں چودھری عطا اللہ، رانا عبدالقادر مرحوم، جاوید نواز، محمود حسین، عبدالحئی، احمد رانا مرحوم، سلیم بن امیر مرحوم، محمد رمضان عادل مرحوم، صفدر علی چودھری مرحوم، ذوالقرنین مرحوم، ارشاد احمد اور بعض دیگر ساتھی شریک ہوتے تھے۔ جونیئر لوگوں میں سے میں ہی تھا جو اجتماع میں حاضر ہوتا تھا۔ ان تمام سینئر ساتھیوں کے ساتھ طویل عرصے تک گہری دوستی اور محبت کا تعلق رہا۔ اسی زمانے میں سابق ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ محترم شیخ محبوب علی سے لاہور جمعیت کے اس اجتماع میں پہلی بار ملاقات ہوئی۔ پھر تو بہت قریبی اور یادگار تعلقات کا ایک خوشگوار باب کھل گیا۔ شیخ محبوب علی مرحوم کے حالات میں نے اپنی کتاب ’’چاند اور تارے‘‘ صفحہ 75تا 86 میں لکھے ہیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ کی سرگرمیوں، اپنی تعلیم اور مولانا مودودیؒ کے دروسِ قرآن و عصری مجالس کے ساتھ لاہور کے ہر اہم مقام اور ادارے کی سیر کا شوق بھی اس دور میں پورا کرتا رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنے وقت کی اچھے انداز میں بجٹنگ (Budgeting) کر رکھی تھی۔(جاری ہے)