(پانچواں اور آخری حصہ)
تاریخ کا سوال
بعد از جنگ la literature engage کے منشور میں سارتر نے پہلی بار اس ضرورت کی جانب اشارہ کیا کہ موضوعی تصور کی وجودیت سے مارکسزم کی جانب پیش رفت کی جائے۔ یہ وہ پیش رفت ہے جو پچاس کی دہائی کے بعد سارتر کی فلسفیانہ تحریروں کی بنیاد بنی۔ خاص طور پر اُس کی Critique of Dialectical Reason کے دو والیومز۔ سارتر کہتا ہے کہ تمام ذمہ دار مصنفین کا حتمی ہدف غیر طبقاتی سماج سے آگاہی ہونا چاہیے۔ اس خیال کو اس نے Existentialism and Literature کے ماحصل میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تصور کے الگ تھلگ شعور کو ہتھیار ڈال کر اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ مستند آزادی اب ایک تاریخی انقلاب کا یوٹوپیائی ہدف ہونا چاہیے کہ جہاں جمالیاتی اور اخلاقی قدریں مخالفت سے محفوظ رہیں، اور ایک ذمہ دار ادب اس طرح ترتیب دیا جائے جو اجتماعی آرزوؤں کا ترجمان ہو۔ ایک ایسا سماج جہاں پیہم انقلاب آجائے۔ ایک ایسا سماج جو لفظوں اور اعمال کی اعلیٰ مثال ہو۔ جہاں خودفریب تصور کی مذمت کی جائے۔ صرف اسی ہدف کو ذہن میں رکھتے ہوئے سارتر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ایسا ہی معاشرہ ہے جہاں ہم اخلاقیات قائم کرسکتے ہیں۔
کچھ مبصرین سارتر کی انفرادیت سے اجتماعیت کی جانب مراجعت پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرRené Girard اسے وجودی تصور کا منطقی نتیجہ قرار دیتا ہے کہ جو سب کی نفی کردیتا ہے، یہاں تک کہ دنیا کی بھی، اور ایک خالی خولی ناقابلِ شناخت عدمیت پر اپنا خاتمہ کرتا ہے۔ وجودیت کے معاصر مفکرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ مکمل طور پر بے مہار ہے، اور اس طرح خود پرومیتھین خوابوں کا سلسلہ دراز کرتے ہیں کہ جس سے جدید دنیا چارو ناچار چمٹی ہوئی ہے، اور جو ڈھٹائی سے اس عالمِ انتشار میں ازادی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ وہ کہتا ہےکہ ایک وجود کبھی بھی دوسروں سے قریب نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنی ’’میں‘‘ میں غرق رہتا ہے۔
جدید بورژوائیت کی انفرادیت پرستی خود کو مکمل طور پر ہر طرح کے مواد سے خالی کرچکی ہے۔ وجودیت کی دیومالائی باتیں تنہائی، تلخی، تحقیر، یہاں تک کہ تصوف اب روز روپ بدل رہی ہیں اور عین مخالف دیومالائیت ہی کی مانند ہیں، جو کہتی ہیں کہ تاریخی وجود سماجی اور اجتماعی صورتوں سے مکمل لاتعلق ہے۔
جیرارڈ کے تجزیے کی ساکھ سے قطع نظر یہ فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ سارتر کا انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف منتقل ہونا ایک اخلاقی محرک تھا تاکہ انسان پرستی کی قدروں کا دفاع کیا جائے۔ وہ بخوبی جانتا تھا کہ اگر تصور کی نفی کا معاملہ اس کے اپنے ذرائع پر چھوڑ دیا گیا تو یہ وجود کے خالی پن کے اندھیروں میں جا پڑے گا، مثالیت پرستی کا چراغ دھیما پڑ جائے گا اور جدید آدمی کا انسان پرست ایجنڈا المیے کی نذر ہوجائے گا اور محض منفیت کا جھاڑ جھنکاڑ رہ جائے گا۔ اس طرح سارتر اس یقین تک پہنچا کہ تاریخِ فلسفہ کی ایک ہی اپیل باقی رہ گئی ہے کہ فرد کی آزادی کو اجتماعی آزادی کے سامنے جواب دہ بنایا جائے۔ یقیناً یہی اس کے ذہن میں تھا کہ جب اس نے کہا کہ مارکسزم جدید فلسفے کے افق کا ناقابلِ عبور مرحلہ ہے۔ اجتماعی ذمہ داری کا یہی افق تنہا انسان پرستی کے وجودی منصوبے کی سرحد ہے۔
اور یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ سارتر کی دلیل اُسے مثالیت پسند اسلوب سے دور لے جارہی ہے اور وہ چراغ سے آئینے کی طرف لوٹ رہا ہے۔ بے شک یہ روایتی اسلوب مارکسی موڑ کاٹ کر انقلابی انسان پرستی بنادیا گیا تھا، کہ جہاں نقل کا یہ سلسلہ کسی ماورائی معنی کا تابع نہیں، مگر یہ انقلابی نقالی ہماری تاریخ میں جہدِ مسلسل سے برآمد کی گئی ہے۔ اب سارا اخلاقی اور سیاسی آرٹ بھڑکتا ہوا ایک ایسا آئینہ بن جاتا ہے جو ہر اُس چیز کو جلا ڈالتا ہے جو اس میں سے منعکس ہوتی ہے۔
وجودی تصور کی یہ خود منسوخی ایک ایسے چراغ کا بہروپ بھرلیتی ہے جو پھر آئینہ بن چکا ہے۔ یہ ذمہ دار آرٹ حتمی طور پر محض تصوراتی آرٹ سے بالادست سمجھا گیا، کہ یہ سماجی افادیت کو جمالیاتی بے معنویت پر فوقیت دیتا ہے۔ سارتر نے یہ ضروری سمجھا کہ وجودیت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے تاکہ انسان پرستی کا بھرم قائم رکھا جاسکے، ایک قدم پیچھے ہٹ کر روشن خیال معقولیت کو مارکسیت کے شانہ بہ شانہ چلایا جائے۔
اختتام
ایسا لگتا ہے کہ سارتر کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ تصور کے ابتدائی فلسفے کے انفرادیت پرست دعووں اور انسان پرست کائناتی دعووں دونوں سے بیک وقت نباہ نہیں کیا جا سکتا۔ وجودی تصور کے ارادے کی کامل خودمختاری ہر فرد کو اس کی ذات میں قید کررہی تھی۔ یہ جدیدیت کو عذاب میں مبتلا کررہی تھی اور وجود کی حماقتوں سے بوجھل کررہی تھی۔
سارتر کے ساتھ، وجودی تصور خود کو ایک ایسی زندگی میں پاتا تھا جو المناک نفی پر مبنی تھی۔ ایک ایسی زندگی جس میں دوسروں کے لیے کسی اخلاقی ذمہ داری کا امکان نہیں تھا۔ایک انکاری شعور آزاد نہیں ہوسکتا کہ جب وہ دوسرے انسانوں سے اخلاقی تعلق بھی قائم رکھنا چاہتا ہو۔ کیونکہ اجتماعی زندگی میں فرد کو اپنی ازادی قربان کرتے ہوئے ذمہ دار بننا پڑتا ہے۔ وہ اس نکتے پر زور دیتا ہے کہ انسانی تصور دوسروں سے لاتعلق رہ کر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ انسانی شعور کو لازماً اپنی غیر موجودگی میں بھی دوسروں کی موجودگی کو ممکن بنانا ہوگا۔ نہ تو ہم کسی کے ساتھ جی سکتے ہیں اور نہ کسی کے بغیر رہ سکتے ہیں، اور اس معاملے کو حل کرنے کی ساری کوششیں سوائے بدنیتی کے کچھ نہ ہوں گی۔ وجودی تصور صرف اُس وقت ہی لائقِ اعتبار ہوگا جب بے معنویت کی حالت کو چاروناچار قبول کرلے۔ اور ایسی حالت کو لازمی نتیجے کے طور پر قبول کرنا ناگزیر ہے خواہ کوئی کسی بار میں نشے کی حالت میں ڈوبا پڑا ہو یا کسی انقلاب میں مگن ہو۔
سارتر وجودی تصور اور انسانی اخلاقیات کے دعووں کے مابین مصالحت میں ناکام نظر آتا ہے۔ سارتر مکمل عدمیت اور اجتماعی ذمہ داری کے درمیان الجھا ہوا نظر آتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ اجتماعیت کے حق میں ہے اگرچہ اس نے یہ کھل کر کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اُس کے دلائل اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وجودی تصور کو انسان پرست فرد کی زندگی بچانے کے لیے اپنی جان دے دینی چاہیے۔
ما بعد جدید کے فلسفی، انسان پرستی کے احیا کی ایسی تمام امیدوں پر پانی پھیرتے نظر آتے ہیں۔ وہ انسان پرستی کے قائل نہیں۔ سارتر کا منصوبہ مسترد کردیا جاتا ہے۔ مابعد جدید پسند تناظر میں تصور کا مقدر انسان کی تقدیر سے نتھی نظر آتا ہے اور ان میں سے کسی پر بھی تاسف نہیں کیا جاتا۔