دنیا بھر میں کروڑوں افراد وزن گھٹانے کی فکر میں گھلے جارہے ہیں
دنیا بھر میں طرح طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم رجحانات کے عہد میں جی رہے ہیں۔ اب کسی بھی معاملے کو رجحان میں تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مہربانی ہے کہ ہر بے تُکی اور بے ڈھنگی بات دیکھتے ہی دیکھتے ”ٹرینڈ“ کرنے لگتی ہے۔
وہ دور کب کا لد چکا جب کسی بھی معاملے کو لوگوں کے حواس پر سوار ہونے میں وقت لگتا تھا، اور کسی بھی چیز کو رجحان ساز ہونے کے لیے واقعی کچھ چیز ہونا پڑتا تھا۔ اب کسی بھی معاملے میں کوئی بھی بات دیکھتے ہی دیکھتے رجحان ساز ہوتی جاتی ہے اور ہم انگشت بہ دنداں ہونے کی زحمت سے بھی بچ گئے ہیں۔ کوئی کس کس بات پر اور کب تک حیرت زدہ رہے؟
اپنا خیال رکھنے کی فکر بہت سوں کو ہوتی ہے۔ خواتین کو حُسن کی حفاظت کی فکر لاحق رہتی ہے جبکہ مرد جسمانی قوت میں اضافے پر کمربستہ رہتے ہیں۔ کئی معاملات میں خواتین اور مرد دونوں ہی یکساں طرزِ فکر و عمل کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ وزن گھٹانے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ خواتین ہی کو نہیں بلکہ مردوں کو بھی فکر لاحق رہتی ہے کہ وزن زیادہ نہ ہوجائے، مٹاپا جسم کو ڈھیلا نہ کردے۔
یہ سب کچھ بے سبب نہیں۔ فی زمانہ بیشتر معاملات پیدا ہوتے نہیں بلکہ پیدا کیے جاتے ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کا کمال یہ ہے کہ nothing میں سے something نکال کر دکھاتے ہیں۔ اب کسی بھی چیز کی ضرورت نہ پائی جاتی ہو تو پیدا کی جاتی ہے تاکہ مارکیٹنگ کا بازار گرم رہے۔ وزن گھٹانے کا رجحان بھی بہت محنت اور توجہ سے پروان چڑھایا گیا ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں افراد وزن گھٹانے کی فکر میں گھلے جارہے ہیں۔ اس حوالے سے جنون کا گراف دن بہ دن بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ وزن گھٹانے کے لیے بازار میں درجنوں دوائیں میسر ہیں تاہم اِن کے شدید منفی اثرات بھی اِتنے ہیں کہ اگر آپ سنیں گے تو ہوش اڑ جائیں گے۔ وزن گھٹانے کا معاملہ ہے ہی اِتنا پیچیدہ کہ کسی بھی طبی پیچیدگی کو پیدا ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ وزن گھٹانے کے شوق میں بہت سے لوگ یا تو انتہائی غیر معیاری چیزیں استعمال کرتے ہیں یا پھر معیاری دواؤں کی بھی زیادہ خوراک لے بیٹھتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں معاملات بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
وزن گھٹانے کی مشہور ترین دواؤں میں اوزیمپک بھی شامل ہے جو بالعموم ذیابیطس (ٹائپ ٹو) کے تدارک کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث اوزیمپک استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس دوا کو وزن گھٹانے کے لیے استعمال کرنے والے بھی بڑھ رہے ہیں۔
امریکی ادارے فیڈرل فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے اوزیمپک کو بنیادی طور پر ذیابیطس کے موثر علاج کے لیے منظور کیا ہے، تاہم اب وزن گھٹانے کی کوشش کرنے والے افراد بھی اِسے بہت بڑے پیمانے پر استعمال کررہے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اوزیمپک کے استعمال سے وزن میں کمی ضرور واقع ہوتی ہے۔ ہاں، اِس کا غیر معیاری یا زائد از ضرورت استعمال بہت سی خرابیوں کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔
اوزیمپک جی ایل پی ون ہارمون کی نقالی کرتا ہے جو بھوک کو گھٹاتا اور دباتا ہے جبکہ تسکین اور سیری کا احساس بڑھاتا ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کی اوزیمپک بہت حد تک دھوکا دینے والی دوا ہے۔ کم از کم وزن گھٹانے کے معاملے میں تو یہ کہا ہی جاسکتا ہے۔
دوسری بہت سی بیماریوں کی دواؤں کی طرح اوزیمپک کے بھی بہت سے سائیڈ ایفیکٹس ہیں جن میں آنتوں کی پیچیدگی، بعض کینسر اور شوگر لیول کا اچانک گر جانا نمایاں ہیں۔ ایف ڈی اے کو بھی زیادہ اور قابلِ اعتبار اندازہ نہ تھا کہ ذیابیطس (ٹائپ ٹو) کے علاج کے لیے منظور کی جانے والی دوا وزن گھٹانے والی دوا کی حیثیت سے ایک انقلاب سا برپا کردے گی۔ اوزیمپک کا استعمال اِتنی تیزی سے بڑھا کہ ماہرین دیکھتے رہ گئے۔ اور پھر اُن کی طرف سے انتباہ جاری ہونے تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اوزیمپک نے مغرب میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کی ہے اور لاکھوں افراد کو اس دوا کے ذریعے وزن نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد ملی ہے، تاہم اس دوا کے سائیڈ ایفیکٹس سامنے آنے پر ہنگامہ برپا ہے۔ بہت سوں نے بتایا ہے کہ اس دوا کے استعمال سے وزن تو گھٹ گیا تاہم بہت سی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئی ہیں۔ طبی معائنے سے معلوم ہوا کہ وزن گھٹانے والی اس دوا نے جسم میں بہت سی پیچیدگیوں کا وزن بڑھادیا ہے۔
اگر آپ انٹرنیٹ پر وزن گھٹانے والی دوائیں تلاش کریں تو اوزیمپک، سیمیگلوٹائیڈ، ویگووی، لائراگلوٹائیڈ اور دوسری بہت سی دواؤں کے نام سامنے آئیں گے۔ بھارت کے شہر پونا میں واقع سہیادری سپر اسپیشلٹی ہاسپٹل کے ذیابیطس، فربہی اور غذا کے جزوِ بدن بننے کے عمل (میٹابولزم) سے متعلق پیچیدگیوں کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر سنجے اگروال کہتے ہیں کہ وزن گھٹانے والی دوائیں جی ایل پی ون (گلوکاگون لائک پیپٹائیڈ) ریسیپٹر ایگونسٹس کہلاتی ہیں۔ سیمیگلوٹائیڈ کے فارمولے کے تحت فروخت ہونے والی دواؤں میں اوزیمپک اور ویگووی مقبول ترین ہیں۔ یہ دونوں دوائیں انجیکشن کے ذریعے دی جاتی ہیں۔ ویگووی کی طاقت زیادہ ہے۔ یہ وزن گھٹانے یا کنٹرول کرنے کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔
ویگووی بارہ سال سے کم عمر میں نہیں دی جاسکتی۔ اس کے لیے باڈی ماس انڈیکس کی بعض شرائط کا پورا کیا جانا لازم ہے۔ ذیابیطس ٹائپ ٹو میں مبتلا افراد بھی ویگووی استعمال کرسکتے ہیں مگر یاد رہے کہ یہ ذیابیطس کے علاج کے لیے تیار نہیں کی جاتی۔
بھارت کے شہر گرو گرام میں سی کے بِرلا ہاسپٹل کے انٹرنل میڈیسن کنسلٹنٹ ڈاکٹر تُشار تیال کہتے ہیں کہ جی ایل پی ون ہارمون کی نقالی کرکے یہ دوائیں ہمیں سیری کا احساس دلاتی ہیں اور بھوک کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتی ہیں۔ عام طور پر جی ایل پی ون لبلبے میں جاکر اُسے، ضرورت پڑنے پر، انسولین بنانے میں مدد دیتی ہے۔ جب گلوکوز کی سطح بلند ہوتی ہے تب جسم کو زیادہ انسولین کی ضرورت پڑتی ہے اور تب اوزیمپک زیادہ انسولین تیار کرنے میں لبلبے کے ساتھ مل کر کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
اوزیمپک کے سائیڈ ایفیکٹس میں معدے کا ورم، اپھارا، اسہال (پیچش)، تیزابیت، ڈکار، شدید سردرد، غشی اور قے کے علاوہ لبلبے اور تھائرائیڈ کینسر، گردوں کی پیچیدگی اور شوگر لیول کا اچانک گر جانا شامل ہیں۔ یہ تمام پیچیدگیاں کسی بھی انسان کو جیتے جی درگور کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اوزیمپک کے دائمی استعمال سے پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیاں انسان کو بیشتر معاملات میں بھرپور توانائی کے حصول اور اُس کے برقرار رکھنے سے دور لے جاتی ہیں۔ (انڈیا ٹوڈے)