نظام صحت پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے

انسانی خدمت کے اداروں کا فائدہ بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پہنچ رہا ہے، ڈیجیٹل صحت کے پروفیسر ڈاکٹر ذکی الدین احمد سے گفتگو

ڈاکٹر ذکی الدین احمد نے ایم بی بی ایس 1992ء میں سندھ میڈیکل کالج کراچی سے کیا، اس کے بعد ہیلتھ مینجمنٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈائریکٹر برائے صحت کی بہتری اور تحفظ اور پاکستان ڈیجیٹل ہیلتھ سروس اکیڈمی میں ڈیجیٹل صحت کے پروفیسر ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے لیکن آپ اس پر مطمئن نہیں، کیوں؟

ڈاکٹر ذکی: ماڈرن میڈیکل سائنس ہیلتھ کیئر پر نہیں بلکہ Sick Care یعنی بیمار کے علاج پر کام کرتی ہے۔ جو بیمار کلینک یا اسپتال آجائے اس کے ٹیسٹ کرالیں اور دوا دے دیں۔ یہی طریقہ کار ہے ماڈرن میڈیسن کا۔ ترقی لیب ٹیسٹ اور دوائوں کے علم میں ہوتی ہے۔ ان دونوں کا فائدہ بین الاقوامی سرمایہ دار کمپنیوں کو پہنچتا ہے۔ انفرادی طور پر ڈاکٹر محنت کرتے ہیں لیکن اصل مالی فائدہ سرمایہ داروں کو ہوتا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:پھر کیا بیمار کا علاج نہ کریں؟

ڈاکٹر ذکی: بیمار کا علاج کریں۔ اگر صرف علاج کیا تو آپ میڈیکل منیجر ہیں۔ لیکن لوگوں کی صحت کے بارے میں بھی سوچیں، بیماری کی وجوہات اور طرزِ زندگی پر بھی کام کریں۔ موجودہ نظام Reactive ہے۔ یعنی جو مسئلہ پیدا ہوا اس کا حل نکالنے کی کوشش کرلی۔ لیب اور دوا دونوں کا فائدہ سرمایہ داروں کو ہوا۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ رفاہی ادارے زکوٰۃ جمع کرتے ہیں، وہ معاشرے کی صحت کا معیار بلند کرنے کے بجائے لیبارٹری ٹیسٹ اور دوائوں کی مد میں خرچ ہوجاتے ہیں اور لوگوں کی زکوٰۃ کا فائدہ بھی سرمایہ دار کمپنیوں کو مل جاتا ہے۔ ہمیں صحت کے نظام پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

فرائیڈے اسپیشل:میڈیکل منیجر اور صحت سائنس دان ڈاکٹر کا فرق کیا ہے؟

ڈاکٹر ذکی: میڈیکل منیجر وہ فرد ہے جو صحت کا ذمہ دار ہے۔ بیمار مریض اس کے پاس جاتے ہیں، وہ ان کی بیماری تشخیص کرنے کی کوشش کرے، بہت سے لیبارٹری ٹیسٹ کرائے اور وجہ معلوم کرے کہ کیوں مریض درد میں مبتلا ہے۔ وہ صرف یہ توجہ دیتا ہے کہ مریض کی بیماری کا نام دے دو، Diagnosis کردو۔ ڈاکٹر نے مرض تشخیص کرلیا۔ وہ مریض کو دوا لکھ کر دیتا ہے، مریض دوا لے لے اور اس کی تکلیف میں کمی ہوجائے۔

ایسا ماہر صحت اس پر مطمئن ہوتا ہے کہ اس نے مریض کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کی اور اپنا کام مکمل کرلیا۔ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ یہ مریض کیوں بیمار ہوا۔ یا اکثر اس کے کلینک پر آتا ہے اور دوا لیتا ہے۔ میڈیکل منیجر اس پر مطمئن رہتا ہے کہ وہ کتنے زیادہ لوگوں کو دوا دے کر ان کے دکھ درد میں کمی کررہا ہے۔

میڈیکل منیجر کی سوچ ہمارے اکثر ویلفیئر کے اداروں، NGO`s کے رویّے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ویلفیئر والے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے اتنے ہزار افراد کو کلینک میں دیکھا اور دوا دی۔

فرائیڈے اسپیشل:کیا زیادہ لوگوں کی خدمت کرنا اچھی سوچ نہیں؟

ڈاکٹر ذکی: میڈیکل منیجر کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ وہ مریضوں کی تعداد پر زیادہ زور دیتا ہے۔ رفاہی اداروں میں میڈیکل منیجرز کی سوچ اکثر نمایاں ہوتی ہے۔ وہ خود بھی اس پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے اتنے زیادہ لوگوں کا علاج کیا اور اپنے عملہ سے بھی یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج کریں۔

فرائیڈے اسپیشل: اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟

ڈاکٹر ذکی: ہمارے معاشرے میں ثواب کا یہ تصور عام ہے ایک مریض کی دعا لیں یا 1000 کی۔ سوچ یہ ہے کہ 1000 کی دعا کا زیادہ ثواب ہوگا۔ یہی سوچ ڈاکٹرز، عملہ اور ویلفیئر ادارے والوں، سب کی ہے۔

میڈیکل منیجر کی سوچ سے فرد مطمئن ہوتا ہے۔ (NGO) ادارہ مطمئن ہوتا ہے اور ویلفیئر ادارے زیادہ مریض دیکھنے کی رپورٹ سے اپنے Donors کو مطمئن کرتے ہیں۔ اکثر Donors بھی زیادہ مریض دیکھنے کی سوچ پر مطمئن ہوتے ہیں۔

فرائیڈے اسپیشل:سر! کیا ثواب کمانا خود بہترین بات نہیں؟

ڈاکٹر ذکی: ہمیں یہ تعلیم دی گئی ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کو بچالیا“۔ قرآنی سوچ کے مطابق تو ایک بھی جان بچانے کی جدوجہد کرنا بہت بڑا ثواب ہے۔ مثال سے سمجھیں۔ ذیابیطس کی بیماری کو دیکھیں، آج کل ذیابیطس کا مرض بڑھتا چلا جارہا ہے۔ میڈیکل سے متعلق تمام لوگ اس پر بات کررہے ہیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیاکہ:

٭ذیابیطس کے ماہر ڈاکٹرز جو بیماری تشخیص کرکے دوا تجویز کرسکیں، ان کے کورسز کرائے جارہے ہیں۔

٭ذیابیطس کے کلینک اور اسپتال کھولے جارہے ہیں۔

٭ذیابیطس کی تشخیص میں نئے لیبارٹری ٹیسٹ پر ریسرچ ہورہی ہے۔

حکومت، پرائیویٹ سیکٹر اور رفاہی ادارے ذیابیطس کے مریضوں کے علاج کے لیے بہترین سہولیات دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ذیابیطس معاشرے میں کیوں پھیل رہی ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس پر غور و فکر اور ریسرچ نہیں کی جارہی۔ ان وجوہات سے بچنے کے بارے میں پلاننگ کرنا… یہ سوچ فزیشن سائنسدان کی سوچ ہے۔ لیکن یہ سوچ موجود نہیں۔

فرائیڈے اسپیشل: غور و فکر اور ریسرچ کے لیے تو ڈاکٹروں وغیرہ کے پاس وقت نہیں ہے؟

ڈاکٹر ذکی: میں اقبالؒ کا یہ شعر اکثر سناتا ہوں:

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

ہم سوچیں آج سے 30، 40 سال پہلے ذیابیطس کی دوائیں کتنی تھیں، ماہرینِ ذیابیطس اور ذیابیطس کے اسپتال کتنے تھے؟ جواب یہ ہے کہ بہت کم تھے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ 5 گنا زیادہ دوائیں، 100 گنا سے زیادہ ڈاکٹر اور ذیابیطس کے اسپتال ہیں۔ لیکن مرض بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ڈاکٹروں اور دواؤں کے اضافے سے مریضوں میں کمی آنی چاہیے تھی۔ اگر ہماری سوچ فزیشن سائنسدان کی ہوتی تو ہم اس پر ہر سطح پر غور کرتے کہ ذیابیطس کیوں بڑھ رہی ہے اور اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارا نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔

فرائیڈے اسپیشل: مسئلے کا حل کیا ہے؟

ڈاکٹر ذکی: ہم ماضی میں دیکھیں کہ مسلمانوں کے ڈاکٹرز بوعلی سینا و دیگر ریسرچ میں وقت لگاتے، غور و فکر کرنے کو ثواب سمجھتے، انہوں نے معاشرے کو بیماریوں سے بچانے کے لیے جو کوششیں کیں، دنیا کے سارے معاشرے آج 1000 سال بعد بھی ان کے معترف ہیں۔

ہمارے ڈاکٹرز کو کلینک پر مرض کی تشخیص کے علاوہ غور و فکر پر وقت لگانا ہوگا۔ اگر ہم اپنے آباو اجداد مسلمان سائنسدان ڈاکٹرز کو اپنا آئیڈیل سمجھیں تو مسئلہ حل کی طرف جائے گا۔ سوچ کی یہ تبدیلی ہمیں میڈیکل منیجر سے فریشن سائنٹسٹ (Physician Scientist)بنادے گی۔ ہم معاشرے کی اصل خدمت کرسکیں گے۔ صحت مند معاشرے کے لیے کوشش کریں گے۔

فرائیڈے اسپیشل:مسئلے کے حل کے لیے کیسے کام کو منظم کیا جائے؟

ڈاکٹر ذکی: یہ سمجھ لیں ہیلتھ کیئر ان 4 ستونوں پر کھڑی ہے: SELF

یہ 4 بنیادی باتیں معاشرے کو سکھانی ہوں گی:

(1) S, Sleep(نیند)

(2) E, Exercise (ورزش)

(3) L, Life Style(طرزِ زندگی)

(4) F, Food (غذا)

میں نے سب سے پہلے خود پر یہ تجربہ کیا۔ اپنی رہائش ایسی جگہ کی جہاں آسانی سے پودوں، درختوں کے درمیان پیدل چل سکوں۔ تازہ ہوا، وقت پر سونا، غذا کی تبدیلی… اس سے صحت میں بہتری آئی۔ یہ آگاہی مرحلہ وار پہنچانی ہے:

-1 ڈاکٹروں اور صحت کے دیگر عملہ میں آگاہی

2۔ NGO، رفاہی اداروں میں آگہی.. تاکہ یہ ادارے اپنے میڈیکل سینٹرز میں ڈاکٹرز کے غور و فکر کرنے کے کام کو بھی ان کی نوکری کا حصہ (Job Discription) حصہ بنائیں۔

رفاہی ادارے اپنے رپورٹس سسٹم میں تبدیلی لائیں۔ آج کل رفاہی ادارے صرف بیمار مریضوں کی تعداد میں اضافے کو کارکردگی بتاتے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ وہ اس کے ساتھ صحت کے بارے میں آگاہی اور کوشش کو بھی اپنی رپورٹ کا حصہ بنائیں۔ مثلاً کتنے لوگوں کو ہاتھ دھلانے کی تربیت دی، کتنے لوگوں کو کھانسنے، چھینکنے کا طریقہ سکھایا، کتنے افراد کو غذا کے استعمال کے بارے میں سکھایا وغیرہ۔ یہ نکات ماہانہ میڈیکل رپورٹ کا حصہ ہوں تاکہ ہمارے ہدف یعنی صحت مند معاشرے کی طرف سفر میں تیزی آئے۔