پاکستان میں اندھیر نگری، چوپٹ راج حافظ نعیم الرحمان کی پُرہجوم پریس کانفرنس
ہم نے مرغیوں کی بے وفائی کا تذکرہ بچپن میں سنا تھا کہ یہ رہتی کسی گھر میں ہیں جب کہ انڈے کہیں اور دیتی ہیں۔ یہی حال پاکستان کی کرپٹ قیادت کا ہے جس میں سیاست دان، بیوروکریٹ، ٹیکنوکریٹ اور جرنیل سمیت بڑے بڑے عہدوں پر براجمان وہ طبقہ شامل ہے جو پاکستان کی جڑوں کو کرپشن کے ذریعے تیزی سے کھوکھلا کررہا ہے، اس کی مثال دبئی لیکس کا حالیہ اسکینڈل ہے۔ ایک جانب تو وطنِ عزیز پاکستان میں کوئی انویسٹمنٹ کرنے کو تیار نہیں، دوسری جانب پاکستان کی کرپٹ قیادت نے ساڑھے تین ہزار ارب روپے کی خطیر رقم دبئی میں انویسٹ کردی۔ اس کرپٹ قیادت میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی قیادت کے علاوہ بڑے بڑے نام ہیں جو پوری دنیا کے سامنے آشکار ہوچکے ہیں۔ ایک جانب تو یہ حکمران ٹولہ خود باہر دولت بھیج رہا ہے، جب کہ دوسری جانب سرمایہ کاری کرنے کا بھاشن دیا جارہا ہے۔ اس کھلے تضاد پر دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہوگی۔
ماضی میں پاناما لیکس اسکینڈل ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بہت اچھالا، مہینوں اس ایک موضوع پر ٹاک شوز ہوئے، جب کہ کئی ماہ خبرنامے کا نصف سے زائد حصہ پاناما لیکس کے موضوع پر مشتمل رہا، جب کہ دبئی لیکس جیسے اسکینڈل کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کی ماضی میں جس طرح دلچسپی پاناما لیکس میں تھی، وہ دبئی لیکس کے معاملے میں نظر نہیں آرہی، اور اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس بہتی گنگا میں ان کے قائدین نے بھی ہاتھ دھوئے ہیں۔ دبئی لیکس تو صرف ایک ملک میں پاکستانی حکمرانوں اور قیادت کی سرمایہ کاری ہے، جب کہ مزید بیسیوں ممالک ہیں جہاں ان کی املاک ہیں۔ پاکستانی عوام ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ پیسہ کہاں سے ان کے پاس آیا اور پاکستان سے چوری چھپے اتنی خطیر رقم کیسے دبئی پہنچی؟ کیا یہ رقم ٹیکس ادا کرکے بھیجی گئی؟
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں پُرہجوم پریس کانفرنس میں دبئی لیکس اور طبقاتی تعلیم جیسے اہم موضوع پر طویل پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے اپنے شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دبئی لیکس جیسے بڑے اسکینڈل کو دبانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس اسکینڈل میں ملوث افراد منی ٹریل دیں۔ سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن ان سے جواب طلب کریں۔ ملوث افراد وزیر تو پاکستان میں ہیں لیکن ان کا پیسہ باہر ہے۔ دبئی میں سرمایہ رکھنے والے دبئی کے وزیر بن جائیں۔ 12 اعشاریہ 5 بلین ڈالر جو تقریباً ساڑھے تین ہزار ارب روپے بنتے ہیں باہر چلے گئے، جب کہ پاکستان پائی پائی کا محتاج تھا۔ یہ کرپٹ سیاست دان یہاں سے پیسے لے کر دبئی میں سرمایہ کاری کرنے پہنچ گئے۔ غیر ملکی افراد اور اوورسیز پاکستانی تو رقم یہاں بھیجیں لیکن حکمران طبقہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری باہر کردے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کرپٹ سیاست دانوں کا پیسہ کتنا قانونی ہے۔ ہر آدمی جس نے باہر سرمایہ کاری کی ہے اُس کو حساب دینا ہوگا۔ ایک مخصوص طبقہ پاکستان کی دولت باہر لے کر جارہا ہے، وہ اپنے اثاثوں کو بھی ظاہر نہیں کرتا۔ پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچاکر اپنی تجوریاں بھرنے والے قومی مجرم ہیں۔ سپریم کورٹ اس معاملے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس میں ملوث طاقت ور سے طاقت ور افراد کو سزا دے چاہے وہ سیاست دان ہو یا فوجی افسر۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن گزشتہ چالیس برس سے حکومت میں ہے۔ کوئی ایک ایسا تعلیمی ادارہ بتائیں جہاں آصف زرداری اور مریم نواز اپنے خاندان کے کسی ایک فرد کو تعلیم دلوانے کے لیے تیار ہوں۔ پنجاب میں تعلیم کی پرائیویٹائزیشن کے عمل کو مسترد کرتے ہیں۔ شہریوں کو تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی آئینِ پاکستان کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر تعلیم جیسی بنیادی ذمہ داری سے حکومت جان چھڑانا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی تعلیم تباہ کرنے کی پالیسی تسلیم نہیں کرنے دے گی۔ پنجاب کا تعلیمی بجٹ 595 ارب روپے ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ 537 ارب روپے غیر ترقیاتی بجٹ ہے۔ تعلیم کے فروغ کے لیے صرف 57 ارب روپے رکھے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری تعلیمی ادارے تباہی کی جانب گامزن ہیں۔ تعلیم کی سہولت سے غریب اور مڈل کلاس طبقہ محروم ہے۔ طبقاتی نظامِ تعلیم ہے جہاں جتنے پیسے انویسٹ کرو گے اچھی تعلیم ملے گی، اور اگر نہیں کرو گے تو محروم رہ جائو گے۔ پنجاب میں پہلے مرحلے میں 13 ہزار، پھر 30 ہزار اسکول پبلک پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنے کی پلاننگ ہورہی ہے۔ حکومت تعلیم کے پورے معاملے سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ 1985ء سے پنجاب میں مسلم لیگ ن حکومت کررہی ہے، 6 ہزار ایسے اسکول ہیں جہاں صرف ایک ٹیچر موجود ہے۔ یہ 13 ہزار اسکول ایک بیمار صنعت ہیں، لہٰذا ان کو کسی اور کے حوالے کریں گے، ایسا کیوں ہے۔ شعبہ تعلیم اس نالائق حکومت کے لیے بوجھ ہے جس سے بھاگنے کی تیاریاں ہیں۔ اگر ان حکمرانوں کو تعلیم سے اتنی ہی محبت ہے تو بتائیں گزشتہ 40 سالوں میں ان کی گورننس کیا ہے؟ یہ ان سرکاری تعلیمی اداروں کو چلا ہی نہیں سکے، بچوں کو تعلیم فراہم نہیں کرسکے، اساتذہ کی ٹریننگ نہیں کرسکے۔ جو حکومت اپنے ہی ماتحت اداروں کی گورننس نہ کرسکے وہ ان کی مانیٹرنگ کیسے کرے گی جس کو آپ اپنے تعلیمی ادارے ٹھیکے کے طور پر دے رہے ہیں! حکومت عوام کی کسٹوڈین ہوتی ہے جو عوام کو سہولیات فراہم کرتی ہے۔ تعلیم کے شعبے کو فروخت کردینا سراسر نا انصافی ہے۔ دوسروں کو تعلیم کا شعبہ حوالے کردینا مذاق ہے۔ زرداری اور مسلم لیگ ن چالیس چالیس سال سے پنجاب اور سندھ پر قابض ہیں، بتائیں انہوں نے کوئی ایک تعلیمی ادارہ ایسا بنایا جو قابلِ فخر ہو؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی رکن قومی و صوبائی اسمبلی تو درکنار، کونسلر کا بچہ بھی سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کرتا۔ صرف غریبوں کے بچے سرکاری اسکول جاتے ہیں، ان کو بھی تعلیم اچھی نہیں دی جاتی۔
حافظ نعیم الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی شعبہ تعلیم میں بڑی خدمات ہیں۔ ہمارے اسکول، کالجز، مدارس نسلِ نو کو تعلیم کا زیور دے رہے ہیں۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہم فیس لیتے ہیں کیونکہ ہم کو ادارے چلانا ہوتے ہیں، ہمارے بس میں ہوتا تو ہم یہ معقول فیس بھی نہ لیتے۔ لیکن بدقسمتی سے پرائیویٹ اسکولوں میں غریب کا بچہ مہنگی تعلیم ہونے کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتا۔ تعلیم کو تجارت نہ بنایا جائے۔ اگر سرکاری تعلیمی اداروں میں اچھی تعلیم دی جائے تو کروڑوں شاہین پیدا کیے جا سکتے ہیں جو پاکستان کا روشن مستقبل ہوں گے۔ جماعت اسلامی اس سارے معاملے کو باریکی سے دیکھ رہی ہے جس پر ہم خاموش نہیں رہیں گے۔