کے الیکٹرک کے ہاتھوں کراچی کے عوام یرغمال

موجودہ بدترین صورتِ حال میں کراچی کا مستقبل کیا ہے؟ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر بجلی کے دیرینہ بحران کا شکار ہے۔ گرمیوں کے موسم میں شہر کے باشندوں کو اکثر روزانہ 10 گھنٹے تو عام سی بات ہے اس سے بھی زیادہ بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق مختلف علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 14 سے 15 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ علاقوں میں بھی 4 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ یہ بحران نہ صرف روزمرہ کی زندگی کو متاثر کررہا ہے بلکہ کاروبار کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے اور شہر کی معیشت کو تباہ و برباد کررہا ہے۔ کراچی میں بجلی کے بحران کی بنیادی وجہ کے الیکٹرک کی غفلت ہے۔ یہ کمپنی، جو شہر کو بجلی فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، برسوں سے خراب انتظام اور بدعنوانی کی وجہ سے لوگوں کو اذیت و تکلیف دے رہی ہے۔ کے الیکٹرک کے بجلی کے گرڈ کو برقرار رکھنے اور اپ ڈیٹ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے بار بار خرابیاں اور بجلی کی کمی ہوتی ہے۔ بجلی کی کمی کے علاوہ، کے الیکٹرک کے صارفین کو اکثر بھاری بھرکم بلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یعنی کئی کئی گھنٹے بجلی معطل رہتی ہے، اس کے باوجود بڑی رقم کے بل بھیج دیے جاتے ہیں۔ کبھی گیس اور فرنس آئل میں کمی، اور کبھی پلانٹ میں خرابی اور ٹیکنیکل فالٹ کے بہانے کیے جاتے ہیں، اور لوڈ مینجمنٹ کے نام پر شہریوں کو طویل دورانیے تک بجلی سے محروم رکھا جاتا ہے۔

ایک طرف یہ صورتِ حال ہے اور دوسری طرف ’کے الیکٹرک‘ ٹیرف میں اضافہ کیا جارہا ہے جس سے عوام کے اندر پائی جانے والی بے چینی و اضطراب میں اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ کے الیکٹرک نے سندھ حکومت سے واجبات نہ ملنے پر شہر میں طویل لوڈشیڈنگ کی دھمکی دے دی۔ سندھ حکومت کو اربوں روپے بجلی کی مد میں دینے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں بجلی کے بحران کے باعث سندھ حکومت اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی آمنے سامنے آگئے ہیں۔ کراچی کو بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی نے سندھ حکومت کو بجلی کی مد میں اربوں روپے کے واجبات کی ادائیگی کے لیے خط لکھ دیا۔ اس حوالے سے سندھ حکومت کے سیکریٹری فنانس اور انرجی سمیت میئر کراچی اور دیگر حکام کو مکتوب ارسال کردیے گئے ہیں۔

خط میں لکھا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے سنگین بحران کا سامنا ہے۔ سندھ حکومت کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ واٹر بورڈ کے ذمے پانچ ارب روپے واجب الادا ہیں، حکومتِ سندھ کے ادائیگی نہ کرنے سے مالیاتی بحران ہے۔ کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ مالیاتی بحران کی وجہ سے نیٹ ورک مرمت میں مشکلات پیش آرہی ہیں، اگر فوری ادائیگی نہ ہوئی تو شدید گرمیوں میں نیٹ ورک بیٹھ سکتا ہے اور بجلی کی طویل بندش ہوسکتی ہے۔

کے الیکٹرک اور سندھ حکومت کی لڑائی میں تکلیف کا شکار شہر کراچی کے لوگ ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور نہ صرف احتجاج کررہی ہے بلکہ ہر ہر فورم پر آواز اٹھا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق اور کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی کے درمیان بھی تلخ کلامی ہوئی اور مونس نے جماعت اسلامی کو کے الیکٹرک کا دشمن قرار دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر توانائی و پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ صوبہ سندھ سید ناصر حسین شاہ کی زیر صدارت کے الیکٹرک کی انتظامیہ اور سندھ اسمبلی کے پارلیمانی لیڈرز و ارکانِ اسمبلی کے اجلاس میں جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے کراچی میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ پر کے الیکٹرک انتظامیہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ کے الیکٹرک AT&Cنقصانات کی بنیاد پر نیپرا قوانین کے برخلاف لوڈشیڈنگ کررہی ہے۔ محمد فاروق نے جب کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مونس علوی سے مطالبہ کیا کہ وہ رات 11بجے سے صبح 8بجے تک لوڈشیڈنگ ختم کریں تاکہ عوام کو کم از کم رات میں تو سکون مل سکے، اس پر مونس علوی نے کہا کہ ہم رات کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکتے۔ مونس علوی کی جانب سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے سے انکار پر محمدفاروق نے کہا کہ اس غیر قانونی لوڈشیڈنگ پر نیپرا نے 3اپریل 2024ء کو کے الیکٹرک کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے 5کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا تو کیا کے الیکٹرک پھر بھی نیپرا کے فیصلے اور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ جاری رکھے گی؟ محمد فاروق کے سوال پر مونس علوی آگ بگولہ ہوگئے اور کہا کہ ہم نے جرمانہ ادا کردیا ہے لوڈشیڈنگ جاری رہے گی، جماعت اسلامی کے الیکٹرک کی سب سے بڑی دشمن بنی ہوئی ہے۔ مونس علوی کے ان ریمارکس پر محمد فاروق نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی اور اس کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے اہلِ کراچی پر کے الیکٹرک کے ظلم اور لوٹ مار کے خلاف مسلسل جدوجہد کی اور اہلِ کراچی کی توانا آواز بنے۔ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو کا نیپرا قوانین ماننے سے انکار آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، کے الیکٹرک کے سی ای او کا رویہ عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ اتنا جارحانہ اور غیر مناسب ہے، یہی وجہ ہے کہ کے الیکٹرک کے دفاتر میں شہریوں کے ساتھ بدتمیزی اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے، نچلی سطح پر یہ رویہ کے الیکٹرک کے اعلیٰ سطح پر اختیار کیے جانے والے رویّے کے باعث ہی پہنچا ہے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے بھی سی ای او کے طرزعمل کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ رویہ کسی صورت قبول نہیں۔ اجلاس میں رکن قومی اسمبلی نبیل گبول، رکن سندھ اسمبلی یوسف بلوچ، آصف خان، نجم مرزا، اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی، کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی کے علاوہ سی ڈی او سعدیہ دادا، کنسلٹنٹ کے الیکٹرک شیزی حسن، ریجنل ہیڈ ہمایوں صغیر شیخ، فرح ناز، نند لال شرما، وزارت توانائی کے کنسلٹنٹ حسن رضا و دیگر بھی موجود تھے۔ جس کے بعد رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے نامناسب رویہ اختیار کرنے کے خلاف سندھ اسمبلی میں تحریک استحقاق بھی جمع کرادی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر مونس علوی کے رویّے اور طرزعمل پر اسمبلی کی خصوصی کمیٹی تشکیل دے کر ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ آئندہ اس قسم کا رویہ اور بدسلوکی کسی اور رکن اسمبلی کے ساتھ نہ ہو، اور سندھ اسمبلی کا استحقاق بھی مجروح ہونے سے بچایا جاسکے۔ محمد فاروق نے اپنی تحریکِ استحقاق میں مزید کہا ہے کہ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مونس علوی نے بحیثیت منتخب ممبر سندھ اسمبلی نہ صرف میرا استحقاق مجروح کیا بلکہ انہوں نے نیپرا کے قوانین اور فیصلے کو ماننے سے بھی انکار کیا۔ نیپرا کا قیام پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ، ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور ایکٹ، 1997 (نیپرا ایکٹ) کے ذریعے کیا گیا تھا۔ کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے اس طرزعمل اور رویّے پر فوری طور ان کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ایسا لگتا ہے کے الیکٹرک خود ریاست کے اندر ریاست ہے اور اس کو پوری آزادی حاصل ہے کہ جو چاہے کرے، شہر کے عوام کو لوٹے اور اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہو۔ ریاست اور اس کے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے معذور ہیں۔ شہر کراچی اس وقت بجلی بحران سمیت کئی حوالوں سے مسائلستان بنا ہوا ہے۔ ریاست اور اس کے ادارے کراچی کو اس کا حق دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔ ایسے میں موجودہ بدترین صورت حال میں کراچی کا مستقبل کیا ہے؟ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔