برطانیہ کے قومی انتخابات

الیکشن کا سب سے بڑا نعرہ معاشی بحالی ہے، لیکن حیرت انگیز طورپر دونوں بڑی پارٹیوں نے اس نعرے کو پسِ پشت ڈال دیا

برطانیہ کے قومی انتخابات انتہائی اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ گزشتہ 14 سال سے برسر اقتدار کنزرویٹو پارٹی کی اقتدار سے ممکنہ بے دخلی، روس یوکرین جنگ، غزہ میں انسانی نسل کُشی، برطانیہ کی معاشی ابتری، صحتِ عامہ اور روزگار کا بحران ہے۔ ان اہم ترین واقعات نے برطانیہ کے قومی انتخابات کو اہم ترین بنادیا۔ برطانوی عوام ان تمام معاملات پر حکومتی پالیسی میں تبدیلی اور بہتری چاہتے ہیں۔ اس بنیاد پر وہ دو بڑی پارٹیوں میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں یہ ایک سوال ہے، تاہم یہ انتخابات دو پارٹی سسٹم میں بھی ایک بہت بڑی دراڑ ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ چند معاملات جیسے روس یوکرین جنگ، غزہ اور معیشت پر دونوں بڑی پارٹیوں کی کم و بیش یکساں پالیسی ہے۔ ایک جانب کنزرویٹو پارٹی نے گزشتہ تین سال میں معیشت کی ابتری کا ملبہ کورونا اور پھر روس یوکرین جنگ پر ڈالنے کی کوشش کی لیکن صورتِ حال اس کے برعکس رہی۔ اب جبکہ عالمی مالیاتی اداروں نے برطانوی معیشت کی بہتری کی نوید سنائی ہے تو گویا اب ان تمام باتوں یعنی روس یوکرین جنگ کے ہوتے ہوئے اس پر زمین آسمان کے قلابے حکومت کی جانب سے ملائے جارہے ہیں، جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ 2021ء میں ہونے والی مہنگائی جو کہ 20 فیصد تک تھی اس میں محض 2 فیصد کے قریب کمی آئی ہے، یعنی 18 فیصد مہنگائی کا عوام کو تاحال سامنا ہے۔ معاشی صورتِ حال کے علاوہ اب صحتِ عامہ کی صورتِ حال بھی انتہائی ابتر ہے۔ ہنگامی حالات یعنی بغیر ایمبولینس کے اسپتال جانا گویا اپنے آپ کو ذلیل و خوار کرنا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اسپتالوں میں ضروری علاج معالجے کے لیے انتظار کرنے والوں کی جو فہرست کورونا کے دنوں میں طول پکڑ گئی تھی وہ اب لامتناہی بن چکی ہے، اور ذرا بھی وسائل رکھنے والے افراد اب اپنا علاج یا تو برطانیہ میں موجود پرائیویٹ اسپتالوں سے کروا رہے ہیں یا پھر بیرونِ ملک ترکی وغیرہ جاکر کروا رہے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس رقم کی قلت ہے لہٰذا وہ اب علاج کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرپائے گی۔ اس کا ملبہ بھارتی نژاد وزیراعظم رشی سونک نے مہاجرین پر ڈال دیا اور کہا کہ ان کی وجہ سے یہ شعبہ بحران کا شکار ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے اسٹوڈنٹ اور دیگر ویزا پر آنے والوں پر پہلے ہیلتھ سرچارج کی مد میں فی کس فی سال تقریباً 650 پاؤنڈ عائد کیے گئے، اور اس کے بعد اب اِس سال اس رقم کو بڑھاکر فی کس فی سال 1050 پاؤنڈ کردیا گیا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو ویزا فیس کے ساتھ ادا کرنی ہے چاہے آپ ایک پاونڈ کی بھی علاج معالجے کی سہولیات استعمال نہ کریں، اور اس صورتِ حال میں علاج معالجے کی سہولیات کا استعمال جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس نئے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم رشی سونک نے کہا کہ اس سے ایک ارب پاؤنڈ کی رقم حاصل ہوگی جوکہ صحتِ عامہ کے لیے خرچ کی جائے گی۔

ایک جانب اس میں اضافے کا اعلان صحتِ عامہ کے بجٹ کے لیے کیا گیا، اور دوسری جانب کئی ٹرسٹ… جن کے تحت اسپتال چلتے ہیں… ان کا بجٹ کم کردیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اب اسٹوڈنٹ ویزا پالیسی میں بھی تبدیلی کردی گئی اور صرف تحقیق کرنے والے طلبہ ہی اپنے اہلِ خانہ کا ویزا حاصل کرسکیں گے۔ یہ وہ روٹ تھا کہ جس کا استعمال کرکے برطانیہ بہت زیادہ زرمبادلہ حاصل کررہا تھا۔ بین الاقوامی طلبہ کی صرف فیس کی مد میں برطانوی جامعات کو تقریباً 86 ارب پاؤنڈ فی سال کی خطیر رقم حاصل ہوتی ہے اور یہ سو فیصد بین الاقوامی زرمبادلہ تھا جو برطانوی معیشت میں آتا تھا۔ لیکن حکومت کی اس نئی ویزا پالیسی کے بعد اِس سال برطانوی جامعات کے داخلوں میں 57 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور جامعات شدید بحران کا شکار ہیں۔ جامعات نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اب وہ مقامی طلبہ کو فیس میں دی گئی رعایت ختم کردیں گی اور اگر حکومت نے اس کی اجازت نہ دی تو ان کو اپنے کئی پروگرام بند کرنا پڑیں گے۔ جامعات نے اپنے طلبہ کو فیس میں اضافے کی نوید ای میل کے ذریعے سنا دی ہے اور دوسری جانب اب وہ ملازمین میں کمی کا اعلان کررہی ہیں۔ برطانیہ کے شمال میں واقع ٹاؤن یونیورسٹی آف ہرڈس فیلڈ (University of Huddersfield) نے بھی 200 ملازمین کی کمی کا نوٹس دے دیا ہے اور اب ملازمین سراپا احتجاج ہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے، یہی صورتِ حال کم و بیش پورے برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ہے۔

تعلیم کے حوالے سے طلبہ کو بہتر اسکل ٹریننگ کے لیے کنزرویٹو حکومت نے سال 2020ء میں ایک نئی تعلیمی پالیسی متعارف کروائی تھی جس کا مقصد 16 سال کی عمر تک جو کہ لازمی تعلیم کی عمر ہے، اس کے بعد مزید تعلیم نہ حاصل کرنے والوں کو اسکل ٹریننگ دی جائے جس سے وہ برطانوی معیشت میں اپنا قابلِ قدر حصہ ڈال سکیں۔ اس کو T Level Qualifications کا نام دیا گیا اور اس پر حکومت 1.8 ارب پاؤنڈ خرچ کرنے کے باوجود بھی 16 سے 19 سال کی عمر کے محض تین فیصد طلبہ کو اس سے مستفید کرپائی ہے، اور بظاہر شارٹ اسکل ٹریننگ کا یہ پروگرام مکمل طور پر ناکام ہونے جارہا ہے۔

برطانیہ میں تعلیم و صحت.. یہ وہ دو شعبے تھے جن کی دھاک پوری دنیا پر بیٹھی ہوئی تھی۔ ان کی ابتری کی صورتِ حال بیان کردہ معلومات سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے، اور حکومت کی ہر پالیسی ان دونوں شعبوں میں پیدا شدہ بحران کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ حکومت ہر بات کا ملبہ معیشت پر ڈالتی آرہی ہے، اور اس کے بعد غیر قانونی طور پر مہاجرین کی آمد پر اس کی تان ٹوٹتی ہے۔ لیکن صورتِ حال اس کے برعکس ہے، اصل بات یہ ہے کہ حکومت عوام کو غلط رخ دکھاکر راہِ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے۔ چند دن قبل وزیراعظم رشی سونک نے اعلان کیا کہ وہ اگر دوبارہ برسر اقتدار آئے تو 69 ارب پاؤنڈ کی مالی سپورٹ جوکہ کم آمدن والے افراد کو دی جاتی ہے وہ بند کریں گے۔ اور اس کی وجہ انہوں نے رقم کا نہ ہونا اور مالی ابتری بتائی، لیکن حیرت انگیز طور پر اس سے زیادہ رقم روس یوکرین جنگ میں جنگی امداد اور مہاجرین کی آباد کاری و سہولیات پر خرچ کی جاچکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ رقم سالانہ 70 ارب پاؤنڈ سے بھی زیادہ ہے۔ ان حالات میں برطانیہ کی دونوں پارٹیوں کے پاس کوئی واضح مؤقف تاحال نہیں ہے کہ وہ کیسے ان بحرانوں اور آئے دن سنگین تر ہوتی صورتِ حال سے ملک و قوم کو نکال سکیں گے۔

ان حقائق کی روشنی میں اس الیکشن کا سب سے بڑا نعرہ معاشی بحالی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر دونوں بڑی پارٹیوں نے اس نعرے کو پسِ پشت ڈال دیا، اور اب برطانوی ایوانوں میں معیشت سے زیادہ بازگشت غزہ اور اس سے برطانیہ پر پڑنے والے اثرات کی ہے۔ اعلیٰ ترین سطحوں پر جہاں توجہ معیشت کی بحالی پر مرکوز رکھنی تھی وہاں اب ایجنڈا کچھ اور ہے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی ڈویلپمنٹ یہ ہے کہ لیبر پارٹی کے سابق رکن اور موجودہ انڈیپنڈنٹ رکن ہاؤس آف لارڈز (رکن ایوان بالا پارلیمان ) جان ووڈ کک (John Woodcock) جوکہ اس وقت برطانوی حکومت و وزارتِ داخلہ کے مشیر بھی ہیں، نے 291 صفحات پرمشتمل ایک مفصل رپورٹ بعنوان “Protecting our Democracy from Coercion” (برطانوی جمہوریت کو درپیش خطرات) جمع کروائی ہے۔

اس رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ غزہ میں انسانی نسل کُشی اور ماحولیاتی تبدیلی پر احتجاج کرنے والے دراصل برطانوی جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں اور اس پر صرف ہونے والے پولیس کے وسائل اور کاروبار کے نقصانات کو پورا کرنا ان مظاہرین کی ذمہ داری ہے۔ کاروبار کے نقصانات کی بات محض کاروبار کو ان مظاہروں سے پہنچنے والا نقصان ہے، کیونکہ ان مظاہروں میں کسی بھی کاروبار پر توڑپھوڑ کا کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہیں ہوا۔ اس رپورٹ میں وڈ کک نے کہا کہ اگر کوئی تحریک منظم طور پر نظام کی تبدیلی کے لیے برپا کی جائے تو اس کو برپا کرنے والی تنظیم دراصل وہ لکیر عبور کررہی ہے جس کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ مزید عام فہم الفاظ میں لارڈ وڈ کک کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں کوئی بھی ایسی تحریک جو نظام کی تبدیلی کی بات کرے وہ ناقابلِ قبول ہے۔ یہ حیرت انگیز امر ہے کہ مغرب کی جمہوریت جس کی بنیاد ہی جمہور کی آزادی پر ہے، اس پر مکمل قدغن لگانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

یہ امر اس وجہ سے مزید قابلِ توجہ ہے کہ مغرب نے پوری دنیا میں جمہور کی بنیاد پر آزادیِ افکار و نظریات کا جو فلسفہ بیان کیا اور اس کو عوام کی آزادیِ اظہار سے ووٹ اور احتجاج کی صورت میں منسلک کیا اسی کی بنیاد پر اس جمہوریت کو نہ ماننے والوں کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا۔ کبھی نرم اور کبھی گرم طور پر ان ممالک میں اقتدار کی تبدیلی کی گئی۔ ماضیِ قریب میں عراق اور افغانستان پر جنگ مسلط کرکے ان کو ”جمہوری آزادی“ دلوائی گئی۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب اس آزادیِ اظہار کا جادو خود مغرب میں سر چڑھ کر بول رہا ہے، جہاں جمہور خود اب جنس اور شادی کے معاملات بھی طے کرتے ہیں، لیکن اب جمہور کی آزادی کے اسی اصول کو اپناتے ہوئے کوئی جنگ بندی کا مطالبہ اور انسانی نسل کُشی پر صرف احتجاج کرے تو اس کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ مغرب جو خواتین کو مردوں کے مساوی لانا چاہتا ہے اور مسلمانوں پر تنقید کرتا ہے کہ وہ اپنے قیادت کے کردار میں خواتین کو حصہ نہیں دیتے، لیکن اب خود برطانیہ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم مسلم کونسل آف بریٹن کی سربراہ ایک خاتون زارا محمد ہیں تو اب برطانوی وزیر برائے کمیونٹی مائیکل گوو پارلیمان میں خطاب کرکے مسلم کونسل آف بریٹن کو شدت پسند تنظیم قرار دیتے ہیں۔

مغرب کے جمہوری اصول اب خود مغرب میں اس کے لیے چیلنج بن گئے ہیں، لہٰذا اب ان اصولوں کو تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ آمرانہ اقدامات سے جمہوریت کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ حیرت انگیز ترین امر یہ ہے کہ ماضیِ قریب میں خود برطانیہ دو جنگوں افغانستان و عراق میں عسکری طور پر ملوث رہا، ان جنگوں کے خلاف برطانوی دارالحکومت کی سڑکوں پر بڑے بڑے احتجاج ہوتے رہے لیکن ان کو جمہوریت کی خلاف ورزی قرار نہیں دیا گیا۔ اب جبکہ اسرائیل و فلسطین کی جنگ میں کہ جہاں خود برطانیہ عسکری طور پر براہِ راست ملوث نہیں، وہاں اس پر احتجاج کو ہر ممکن طور پر نہ صرف کچلنے بلکہ آئندہ بھی ایسے احتجاج پر پابندی کا فریم ورک تیار کیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں وزیر کمیونٹی مائیکل گوو نے یہودی طلبہ کی نمائندہ تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے جنگ بندی کے احتجاج Antisemitic یعنی یہود مخالف ہیں اور ان پر پابندی عائد کی جائے گی۔ گویا برطانیہ میں برطانیہ کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات پر تو تنقید اور احتجاج کیا جاسکتا ہے لیکن برطانیہ میں اسرائیل کے کسی بھی اقدام پر احتجاج یا تنقید کو ناممکن بنایا جارہا ہے۔

دوسری جانب مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مسلم کونسل آف بریٹن کہ جس کو حکومت نے مبینہ طور پر شدت پسند قرار دینے کا عندیہ دیا ہے، اب ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کے بجائے خم ٹھونک کر میدان میں ہے اور حکومت کو ہر سطح پر چیلنج کررہی ہے۔ مسلم کونسل آف بریٹن نے اب عام انتخابات کے حوالے سے ووٹرز کی رجسٹریشن مہم کا آغاز کردیا ہے، اور اس کے کارکنان ہر مسجد میں جاکر لوگوں کو اپنا ووٹ رجسٹر کروانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ان کی اس کام میں مکمل مدد کررہے ہیں۔ گوکہ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کسی پارٹی یا امیدوار کی سپورٹ نہیں کررہے لیکن ان کا یہ اقدام بھی مقتدر قوتوں کے لیے سوہانِ روح ہے۔ مسلم ووٹرز کا متحرک ہونا، دونوں پارٹیوں پر ان کا عدم اعتماد اور اب حکومت کی تیز ترین مہم جوئی اس خلیج کو مزید بڑھا رہی ہے۔ یہ شاید برطانوی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں اور جنگ بندی پر یقین رکھنے والوں نے دونوں پارٹیوں کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں اور اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ رول آف گیم ہی تبدیل کیے جارہے ہیں، لیکن 7 اکتوبر کے بعد کی صورتِ حال نے گویا مغرب اور خاص طور پر برطانیہ میں ایک ایسی صورتِ حال پیدا کردی ہے جس کا شاید کبھی مقتدر قوتوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ مغرب اب اپنی جمہوری اقدار کی جدوجہد اور ان کو پامال کرنے کا تماشا خود مغرب میں دیکھ رہا ہے اور ہر گزرتا دن جمہوری آزادی اور آزادیِ اظہارِ رائے کے حوالے سے مغرب کی حقیقت کو ازخود واضح کررہا ہے۔

4 جولائی کا انتخاب برطانیہ میں شاید کوئی انقلاب نہ لاسکے لیکن یہ انتخاب مغرب کی جمہوریت کا ایک ایسا ٹیسٹ کیس ہوگا جس کے بعد شاید مغرب خود اپنی جمہوریت سے پناہ طلب کرے یا پھر اس کے موجودہ رول آف گیم ہی تبدیل کردے۔