جینے کی آرزو اور مرنے کا حوصلہ

موت کا اسرار زندگی کے اسرار سے بہت بڑا ہے۔

بہت سے لوگ زندگی اور موت میں تضاد کا رشتہ دیکھتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ زندگی اور موت ایک تکمیلی (Complimentary) تعلق میں باہم مربوط ہیں، اس لیے زندگی کے بغیر موت کی اور موت کے بغیر زندگی کی معنویت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ ایک اصولی بات اور ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک اور اعتراف نایاب ہوتا جارہا ہے۔ معاف کیجیے گا، میرا ایک شعر ہے:

وہ آدمی عجب ہے اس آدمی کے اندر
جینے کی آرزو ہے مرنے کا حوصلہ ہے

آپ اسے ایک تصورِ انسان یا تصورِ زندگی کہہ سکتے ہیں، ایسا تصورِ انسان اور ایسا تصورِ زندگی جو کبھی بالکل عام تھا۔ لوگ جینے کی آرزو بھی رکھتے ہیں اور مرنے کا حوصلہ بھی، لیکن فی زمانہ تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ لوگ یا تو زندگی کے عشق میں مبتلا ہوکر مرنے کا حوصلہ کھو دیتے ہیں، یا پھر کسی بھی وجہ سے ان پر موت کی خواہش اس طرح غالب آجاتی ہے کہ ان میں جینے کی آرزو ہی باقی نہیں رہتی۔ انہیں زندگی کا اگر کوئی مصرف نظر آتا ہے تو صرف یہ کہ اسے فنا کردیا جائے۔

جینے کی آرزو کے ساتھ مرنے کے حوصلے کی موجوگی روانی اور ایک اکائی کی علامت ہے۔ آپ دھاگے کے دونوں سروں کو باہم ملا کر دھاگے کو پھیلا لیں تو ایک دائرہ بن جاتا ہے جس میں نہ کوئی ابتدا ہے، نہ اختتام اور نہ کوئی خانہ بندی، لیکن آپ دھاگے کو ایک لکیر کی صورت میں پھیلا دیں گے تو اس کا ایک سرا دوسرے سرے کی انتہا بن جائے گا اور شاید اس کا تضاد بھی۔ فی زمانہ انسانوں کے ساتھ زندگی اور موت کے تناظر میں یہی حادثہ ہوگیا ہے۔ ان کے لیے زندگی لکیر کی طرح پھیلے ہوئے دھاگے کے دو سِروں میں تبدیل ہوگئی ہے۔ لیکن بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔

آج کل زندگی اور موت کے درمیان تعلق کی جو نوعیت محسوس کی جاتی ہے، اسے لفظوں میں بیان کرنا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ زندگی ایک ہیرو ہے اور موت ایک ولن۔ لیکن زندگی ایک ایسا ہیرو ہے جس میں ولن کے مقابلے کی تاب نہیں، بلکہ وہ اس کے تصور سے ہی کانپنے لگتا ہے اور اس کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ کاش اس ولن سے کبھی واسطہ نہ پڑے۔ لیکن انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خدا کا انکار کرسکتا ہے، مذہب کی تردید کر سکتا ہے، مگر موت کا انکار نہیں کر سکتا۔ موت اٹل ہے۔ آج نہیں تو کل اسے ضرور آنا ہے۔ اسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ اس کی پیشگوئی بھی نہیں کی جاسکتی۔

موت سے گریز اور موت کا خوف کوئی نئی بات نہیں۔ یہ روزِ اوّل سے انسان کے ساتھ ہے، بلکہ کہنے والوں نے تو یہ تک کہا ہے کہ مذہب بھی موت کے خوف پر قابو پانے کی خواہش سے پیدا ہوا ہے اور انسان کی تمام تخلیقی اور تہذیبی سرگرمیوں کا ہدف بھی یہی ہے کہ موت کے خوف پر غالب آیا جاسکے۔ یہ فکر جیسی کچھ بھی ہے انسان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ موت کا خوف اپنی جگہ اہمیت کا حامل سہی، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسان زندگی کے عشق میں جس طرح آج مبتلا ہوا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس عشق کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انسان نے اپنی زندگی کو موت کے تصور سے بالکل کاٹ لیا ہے۔ اصولی اعتبار سے زندگی کو موت کے تصور سے کاٹ لینے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ موت کا خوف کم ہوجاتا، لیکن ہوا اس کے برعکس یہ ہے کہ موت کا خوف پہلے سے بہت بڑھ گیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس کے سوا کچھ اور ہو بھی نہیں سکتا، موت کے تصور کو جب بھی زندگی سے الگ کیا جائے گا، موت کا خوف بڑھ جائے گا۔ چلیے یہ بات اپنی جگہ، لیکن انسان کو موت کے تصور سے کٹ کر زندگی تو بھرپور نصیب ہونا چاہیے تھی۔

خیر کہا تو یہی جاتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ جسے عام طور پر بھرپور زندگی کہا جاتا ہے وہ بھرپور سطحی زندگی کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ بھرپور سطحی زندگی موت سے بھاگنے، اس سے گریز کرنے اور اس کو نظرانداز کرنے والوں کا مقدر ہے، اس لیے کہ زندگی میں معنویت، گہرائی، تہذیب، وقار صرف زندگی سے نہیں، زندگی اور موت کے مربوط تصور سے پیدا ہوتا ہے۔

زندگی اور موت کا مربوط تصور ایک بڑا دائرہ بناتا ہے۔ آپ اس بڑے دائرے سے موت کو خارج یا نظرانداز کردیجیے تو یہ دائرہ ازخود چھوٹا رہ جاتا ہے۔ چھوٹے دائرے کی چیزیں اور باتیں بھی چھوٹی ہوں گی۔ ان میں گہرائی اور گیرائی دونوں کا فقدان ہوگا۔ ہوتا بھی یہی ہے۔ لیکن انسان میں خودفریبی کا غیر معمولی اور کبھی نہ ختم ہونے والا مادہ پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی سرگرمی اور تحرک میں اضافہ کرلیتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی وسیع اور عمیق ہوگئی ہے۔ لیکن وسعت کا تعلق کینوس سے، اور عمق کا تعلق اصلِ اصول سے ہوتا ہے۔ جو زندگی موت کے تصور سے بے نیاز ہوجائے اُس کا نہ تو کوئی کینوس ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اصل اصول۔ لیکن یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے، زندگی اور موت یوں تو دونوں ہی ماوراء اور نامعلوم کا مظہر اور علامت ہیں، لیکن اس سلسلے میں موت کو بہرحال زندگی پر فوقیت حاصل ہے، موت کا اسرار زندگی کے اسرار سے بہت بڑا ہے۔ ماورا، نامعلوم اور اسرار محض لفظ نہیں، اگر انہیں صرف لفظ سمجھ لیا جائے تو بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان لفظوں کے اثرات (خواہ کسی کے نزدیک ان کے معنی کچھ بھی ہوں) زندگی میں گہرائی اور گیرائی پیدا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو موت کے تصور سے محروم ہونے کا مطلب ماورا، نامعلوم اور اسرار کے بے شمار پہلوئوں اور زاویوں سے محروم ہوجانا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موت کا خوف پیدا ہی کیوں ہوتا ہے؟

موت کا خوف دراصل زندگی ہی کے خوف سے پیدا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر مذہب ہماری بحث میں درآتا ہے۔ انسان خدا، مذہب اور حیات بعدالموت کا انکار کردیتا ہے لیکن وہ اس خیال سے نجات حاصل نہیں کرپاتا کہ زندگی میں جو کچھ بھی کرتا ہے اس کے اثرات و مضمرات کہیں ضرور مرتب ہوں گے۔ ضروری نہیں کہ یہ خیال بہت شعوری ہو، لیکن بہرحال یہ خیال انسان کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں موت کا خوف پیدا نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ اور انسان مرنے کے حوصلے سے محروم نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ جو لوگ جینے کی آرزو سے محروم ہوجاتے ہیں اور انہیں مرنے کی آرزو کے سوا کوئی بات یاد نہیں رہتی، ان کا معاملہ کیا ہوتا ہے؟ بات یہ ہے کہ سب سے بڑی تہذیب یہ ہے کہ انسان زندگی کو، جیسی وہ ہے، قبول کرلے۔ قبول کرنے کا مطلب طوعاً یا کرہاً قبول کرنا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ زندگی کبھی بھی حسن سے، خیر سے اور معنویت سے محروم نہیں ہوتی، لیکن یہ بات اُس وقت معلوم ہوتی ہے جب زندگی کو قبول کرلیا جاتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ نتیجہ زندگی سے بے زاری کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اور انسان موت کو گلے لگانے پر تلا رہتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ موت کی یہ محبت، موت کی محبت نہیں ہوتی بلکہ اس کی جڑیں بھی زندگی کی محبت میں پیوست ہوتی ہیں۔

داستانوں میں ہے کہ دیو کی جان طوطے میں ہوتی تھی۔ اس بات کو علامتی معنوں میں بھی سمجھا جا سکتا ہے اور اسے بعض قدیم تصورات کی روشنی میں حقیقی سطح پر بھی بیان کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔ یہاں ہمارے لیے اس بات کی اہمیت صرف یہ ہے کہ دیو کی جان ایک طوطے میں ہوا کرتی تھی لیکن ہماری جان ایک ہزار چیزوں میں اٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ کاروبار، بینک بیلنس، عزت، شہرت، مسابقت، کار، کوٹھی، سماجی مرتبہ۔ زندگی کی اس تقسیم اور اس پھیلائو کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ زندگی جو ایک سیّال شے ہے، فی زمانہ پتھر سے زیادہ ٹھوس ہوگئی ہے۔ چنانچہ اب بات محض ایک وجود سے جان نکلنے کی نہیں ہے۔ اب تو ایک بہت بڑا ڈھانچا زمیں بوس ہوتا ہے تو جان نکلتی ہے۔ اس صورتِ حال میں انسان موت سے جتنا خوف کرے اور وہ موت کو جتنا فراموش کرے، کم ہے۔