قرضوں میں جکڑی معیشت اور خوف زدہ سیاسی قیادت

قرض اور دوست ممالک سے مدد قومی معیشت کو کبھی بھی بحران سے نہیں نکلنے دے گی

آئندہ ہفتے عوام پر بجٹ بم پھٹنے والا ہے، اور عوام کو دینے کے لیے حکومت کے پَلّے کچھ نہیں ہے۔ بجٹ کا سارا انحصار آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی جانب سے ملنے والی طفل تسلیوں پر ہے۔ ملک کی معاشی صورتِ حال میں بہتری سے متعلق حکومتی دعووں کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ملکی معیشت بہتر نہیں ہے، قرضوں کی لعنت اور غلط پالیسیاں ہماری معیشت کو بری طرح جکڑ چکی ہیں۔ اس سے نکلنے کے دو راستے ہیں، پہلا راستہ یہ کہ صدقِ دل سے یہ بات طے کرلی جائے کہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی مدد معیشت بہتر نہیں بنا سکتی، بہتری کے لیے حقائق کے ساتھ وسائل تلاش کیے جائیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اشرافیہ اپنی آسائشوں کی قربانی دے۔ معیشت بہتر کرنے کا کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ قرض اور دوست ممالک سے مدد قومی معیشت کو کبھی بھی بحران سے نہیں نکلنے دے گی۔ ہماری ہر حکومت مستقل علاج کے بجائے قرض کی مے سے معیشت درست کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی کامیابی یہ ہے کہ ملک میں دائیں اور بائیں بازو کے حلقوں میں اُس کے ایجنٹ موجود ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت کو قومی معیشت بہتر کرنے کے نام پر آئی ایم ایف کی دہلیز پر لے جاتے ہیں۔ آج کل بھی یہی کچھ ہورہا ہے، اسی لیے تین ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی پیکیج ختم ہونے کے بعد اگلے پیکیج کے لیے بات چیت شروع ہوگئی ہے، آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان کی درخواست پر طویل مدت کے پیکیج کے لیے بجٹ سے قبل دس روزہ دورہ مکمل کرکے گزشتہ ہفتے ہی واپس گیا ہے۔ فنڈ کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے تصدیق کی کہ آئی ایم ایف اور پاکستان نے قرض کے نئے پروگرام کی جانب اہم پیش رفت کی ہے۔ گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں حالیہ اضافہ آئی ایم ایف کے حکم پر ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سرکاری تحویل میں چلنے والے کاروباری اداروں کی تنظیم نو اور نجکاری کرنے، ٹیکس نیٹ بڑھانے اور اخراجات کم کرنے کی تجویز دے رہا ہے۔ حکومت یہ کام جولائی سے قبل کرے گی یا اپنا قابلِ قبول منصوبہ دے گی، اس کے بعد جولائی میں اسٹاف لیول معاہدہ ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ گویا جون میں پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ کا ’’ زیر، زبر، پیش، حتیٰ کہ فل اسٹاپ اور کوما‘‘ بھی آئی ایم ایف طے کرے گا۔ جو کچھ بھی آئی ایم ایف کہہ رہا ہے حکومت وہ سب کچھ کرنے کی پابند ہوگی۔

بلاشبہ معاشی بحالی ہماری اولین ضرورت ہے لیکن اصلاحاتی عمل میں اس بات کو ملحوظ رکھنا بھی لازمی ہے کہ عام آدمی کی زندگی بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافوں جیسے اقدامات کے باعث مزید دشوار ہوتی نہ چلی جائے۔ اس سمت میں پیش رفت کے لیے ضروری ہے کہ آئی پی پیز سے نجات حاصل کی جائے جنہیں اربوں روپے اُس بجلی کی مد میں بھی ادا کیے جاتے ہیں جو بنائی ہی نہیں جاتی۔ سورج اور ہوا سے بجلی کی تیاری کو فروغ دے کر ان کمپنیوں سے معاہدے بتدریج ختم کیے جائیں یا عوامی مفاد کے مطابق شرائط طے کی جائیں اور کرپشن کی روک تھام کی جائے۔

جمہوریت کی روح یہ کہتی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے آئین کی حد میں رہ کر فیصلے کرنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ منتخب نمائندے فیصلے کرنے سے گریزاں اور خوف زدہ ہیں۔ ملک میں اس وقت اگرچہ منتخب پارلیمنٹ ہے لیکن مسلم لیگ(ن) کی ایسی خوف زدہ سیاسی قیادت پہلی صف میں کھڑی کردی گئی ہے جس میں فیصلہ کرنے کی ہمت اور جرأت نہیں ہے۔ کسی بھی بجٹ میں دو بنیادی جز ہوتے ہیں: پہلا آمدنی اور دوسرا اخراجات کا منصوبہ۔ یہ دونوں فیصلے حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ بجٹ سے پہلے، بلکہ بجٹ کی تیاری کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت ہورہی ہے، جس میں آئندہ مالی سال کے ریونیو ہدف کے تعین اور ٹیکس کے امور پر گفتگو ہوئی ہے، حکومت محاصل کا اسکیل بڑھانا چاہتی ہے، اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے جن سیکٹرز پر جی ایس ٹی لگ سکتا ہے ان میں ادویہ کا سیکٹر بھی شامل ہے۔ آئی ایم ایف پیٹرولیم مصنوعات پر بھی جی ایس ٹی لگانے کی تجویز دے چکا ہے، اگر یہ مشکل ہے تو پھر لیوی کی تجویز موجود ہے۔ گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کی ٹیم بجٹ کی حد تک بات چیت مکمل کرچکی ہے۔

بلاشبہ تلخ حقائق یہ ہیں کہ عوام ایک عرصے سے مہنگائی اور بے روزگاری کے حبس زدہ ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کو روند کر رکھ دیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پیٹرول کی قیمتیں خاطرخواہ کم ہوئیں، لیکن مہنگائی کا طوفان تھم نہیں رہا۔ جس نسبت سے پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں مہنگائی اس کے مطابق کم نہیں ہوئی۔ معیشت دان اتفاق کرتے ہیں کہ ملک میں غربت میں بڑا اضافہ ہوا ہے اور غربت کی شرح تقریباً 40 فیصد ہوگئی ہے، دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ چند سالوں سے غربت کی شرح 0.9 فیصد اضافے کے ساتھ38.6 فیصد سے بڑھ کر 39.5 فیصد ہوگئی ہے اور غربت کی سب سے زیادہ شرح بلوچستان میں ریکارڈ کی گئی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی جانب سے غربت کی شرح کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں غربت کی شرح 39.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سب سے زیادہ 70 فیصد، خیبرپختون خوا میں 48 فیصد، سندھ میں 45 فیصد، پنجاب میں 30 فیصد لوگ غربت کا شکار ہیں۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں ملک بھر کے شہری علاقوں سے زیادہ غربت کی شرح ریکارڈ کی گئی ہے، دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 51 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 17 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ 26.5 فیصد شہری رہائشی سہولیات، 49.4 فیصد شہری تعلیمی سہولیات، 24.1 فیصد لوگ صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ کم و بیش 2 کروڑ افراد غربت کا شکار ہوچکے ہیں اور ملک میں بے روزگاری کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ عوام بجٹ میں ریلیف کی امید کررہے ہیں لیکن جس طرح آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے ہورہے ہیں عوام کی یہ امیدیں خاک میں ملتی نظر آرہی ہیں۔ عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادا جارہا ہے۔ یہاں تو بجٹ کے علاوہ بھی ٹیکسوں میں اضافے کا رواج ہوگیا ہے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے بھی اب کوڑا ٹیکس لگانے کی تیاری کی جارہی ہے جسے قابلِ قبول بنانے کے لیے سینیٹیشن اخراجات کا نام دیا گیا ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد میں دیکھیں کوئی سڑک اور گلی ایسی نہیں جہاں پڑی ہوئی گندگی سے تعفن نہ اٹھ رہا ہو۔ وجہ یہ نہیں کہ حکومتوں کے پاس پیسہ نہیں، وجہ ٹھیکیداری نظام ہے، صفائی کے ورکرز کام کرنے کے بجائے تنخواہ کا کچھ حصہ ٹھیکیدار کو دیتے ہیں اور باقی سارا دن اپنی دکان چلاتے ہیں یا کسی دوسری جگہ ملازمت کرتے ہیں۔ جس طرح ٹیکس لگانے کی تجویزہے بس اب ایک ہوا اور بارش کا پانی رہ گیا ہے جس پر ٹیکس نہیں ہے۔ آنے والے بجٹ سے تو لگتا ہے کہ حکومت عوام کی لنگوٹی بھی چھیننے جا رہی ہے۔

شہبازشریف ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ریاست بچانے کے لیے اپنی سیاست قربان کی، لیکن اس حکومت کے معاشی فیصلے بتارہے ہیں کہ سیاسی اشرافیہ کو بچانے کے لیے حکومت عوام کو قربان کررہی ہے، اور اپنی سیاست بچانے کے لیے عوام کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ پیپلزپارٹی اگرچہ حکومت میں نہیں لیکن اس کے پاس تمام اہم ترین آئینی عہدے موجود ہیں، اگر وہ چاہے تو ان عہدوں کی وجہ سے حکومت کو عام آدمی کے خلاف ایک سینٹی میٹر نہ چلنے دے، لیکن وہ بھی آئی ایم ایف کی ویسی ہی طرف دار ہے جیسی دوسری حکمران جماعتیں۔ اب وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ جو کچھ آئی ایم ایف کے ساتھ طے ہوا ہے اس پر سب سے پہلے پیپلزپارٹی کو اعتماد میں لیں گے، دوسرے لفظوں میں بجٹ جیسا بھی آئے گا اس پر پیپلزپارٹی کی بھی مہر ثبت ہوگی۔ پارلیمنٹ میں موجود جماعتیں عوام کو مہنگائی کے گرداب سے نکالنے کی صلاحیتوں سے عاری محسوس ہورہی ہیں، انہیں ادراک ہی نہیں کہ ملک میں خوراک اور ادویہ کی قیمتیں کہاں پہنچ گئی ہیں؟ اس کے باوجود حکومت نے آئی ایم ایف کو 13 سو ارب روپے ٹیکسوں میں اضافے کی یقین دہانی کرائی ہے، اور ٹیکس گزاروں کے لیے کیا سہولتیں ہوں گی اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ عوام کو سولر پینلز کی ترغیب دلاکر نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے، کبھی گراس بل لاگو کرنے کی درفنطنی چھوڑ دی جاتی ہے۔

آئی ایم ایف نے نئے قرض پروگرام کے لیے پاکستان کو بجلی اور گیس ٹیرف میں اضافے، پیٹرولیم مصنوعات پر 18 فیصد جی ایس ٹی، پنشن اور ایف بی آر اصلاحات سمیت متعدد نئے اہداف دیے ہیں۔ نجکاری، توانائی کے شعبے اور ایف بی آر میں اصلاحات اہم اہداف میں شامل ہیں۔ بجٹ کے خدوخال اور اگلے مالی سال میں ٹیکس وصولیوں کے ٹارگٹ سے بھی آئی ایم ایف نے پاکستان کو آگاہ کردیا ہے۔ تماشا یہ ہے کہ پاکستان ہر بار مذاکرات سے پہلے ہی آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پر عمل درآمد شروع کردیتا ہے جس کے لیے ضمنی میزانیے لاکر عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک کیے جانے والے معاہدوں اور لیے گئے قرض سے معیشت میں استحکام تو کجا، عوام کو رتی بھر ریلیف نہ مل سکا، جبکہ قرض لینے والوں کے وارے نیارے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ایک اشارۂ ابرو پر ہی ناتواں عوام کا کچومر نکالا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے بھی کئی بار کہا جا چکا ہے کہ مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ اشرافیہ کی طرف منتقل کیا جائے مگر حکومت کی جانب سے عوام کے استعمال کی بنیادی اشیاء بالخصوص بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرکے ان پر مزید بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ اگلے ماہ قومی بجٹ میں آئی ایم ایف کے مقرر کردہ اہداف پورے کرنے کے لیے عوام کو ہی کچلا جائے گا۔

ایک طرف کشکول توڑنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط پر معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ حکومت نے عوامی مشکلات کا ادراک کیے بغیر اگر انہیں مہنگائی کے نئے طوفان لاکر مزید زچ کرنے کا اہتمام کیا تو عوام سڑکوں پر ہوں گے اور حکمران گرداب میں۔

وزیراعظم شہبازشریف متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے 10 ارب ڈالر مختص کرنے پر بہت خوش ہیں، یہ سب کچھ ایس آئی ایف سی کے باعث ممکن ہوا۔ انہیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اگر روکھی سوکھی عوام کو کھانی ہے تو حکمرانوں کو بھی آسائشیں ترک کرکے کانٹوں سے گزرنا ہوگا، یہ راستہ بہت کٹھن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ… جمہوریت کے یہ تمام ستون باہم دست وگریباں ہیں، دوسری طرف ہتک عزت کے قانون میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو خوامخواہ شامل کرکے میڈیا اور حکومت کے درمیان کشمکش شروع کردی گئی ہے۔ ان دو لڑائیوں سے بالاتر بڑی سیاسی لڑائی ہے جو حکومت اور تحریک انصاف میں جاری ہے۔ جس ملک میں ایک ہی وقت میں سب لڑائیاں جاری ہوں، وہاں ایک مستحکم معیشت کی امید رکھنا غلطی اور بے وقوفی کے سوا کیا ہے؟ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سب کو مل بیٹھنا ہوگا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز ایک چھت کے نیچے جمع ہوں اور متفقہ فیصلہ کریں تاکہ پاکستان جو معاشی چیلنجز کا سامنا کررہا ہے وہ آئی ایم ایف کی گرفت سے نکل سکے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اُس کمیشن کا کیا بنا جو عمران خان کے دور میں قائم ہوا تھا؟ اس کمیشن کو جائزہ لینا تھا کہ اس وقت تک جس قدر بھی ملکی اور غیر ملکی قرض لیا گیا ہے اس کا استعمال کہاں ہوا؟ اس کمیشن کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ جس حکومت نے اسے قائم کیا تھا اسی نے اسے کام نہیں کرنے دیا۔