جماعت اسلامی کے لیے خیر خواہی

آپ کی اس جماعت کی حیثیت دنیوی پارٹیوں کی سی نہیں ہے جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ ’’میری پارٹی، خواہ حق پر ہو، یا نا حق پر‘‘۔ نہیں، آپ کو جس رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑا ہے وہ دراصل اللہ پر ایمان کا رشتہ ہے، اور اللہ پر ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ آپ کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے ہو۔ آپ کو اللہ کی فرماں برداری میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے، نہ کہ اللہ کی نافرمانی میں۔

تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ اللہ کی طرف سے جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ بیرونی حملوں سے آپ اس کی حفاظت کریں، بلکہ یہ بھی ہیں کہ ان اندرونی امراض سے بھی اس کی حفاظت کے لیے ہر وقت مستعد رہیں جو نظام جماعت کو خراب کرنے والے ہیں۔ جماعت کی سب سے بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ اس کو راہِ راست سے نہ ہٹنے دیا جائے، اس میں غلط مقاصد، غلط خیالات اور غلط طریقوں کے پھیلنے کو روکا جائے، اس میں نفسانی دھڑے بندیاں نہ پیدا ہونے دی جائیں، اس میں کسی کا استبداد نہ چلنے دیا جائے، اس میں کسی دنیوی غرض یا کسی شخصیت کو بت نہ بننے دیا جائے اور اس کے دستور کو بگڑنے سے بچایا جائے۔ اسی طرح اپنے رفقاء جماعت کی خیرخواہی کا جو فرض آپ میں سے ہر شخص پر عائد ہوتا ہے اس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہیں کہ آپ اپنی جماعت کے آدمیوں کی بے جا حمایت کریں اور ان کی غلطیوں میں ان کا ساتھ دیں، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ معروف میں ان کے ساتھ تعاون کریں اور منکر میں صرف عدم تعاون ہی پر اکتفا نہ کریں، عملاً ان کی اصلاح کی بھی کوشش کریں۔ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی جو کرسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں اس کو راہِ راست سے بھٹکتے ہوئے دیکھے وہاں اسے سیدھا راستہ دکھائے، اور جب وہ اپنے نفس پر ظلم کررہا ہو تو اس کا ہاتھ پکڑلے۔ البتہ آپس کی اصلاح میں یہ ضرور پیش نظر رہنا چاہیے کہ نصیحت میں عیب چینی اور خردہ گیری اور تشدد کا طریقہ نہ ہو بلکہ دوستانہ دردمندی و اخلاص کا طریقہ ہو۔ جس کی آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں اس کو آپ کے طرزعمل سے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ اس اخلاقی بیماری سے آپ کا دل دُکھتا ہے، نہ کہ اس کو اپنے سے فروتر دیکھ کر آپ کا نفس متکبر لذت لے رہا ہے۔

(”روداد جماعت اسلامی“، اول۔ جماعت اسلامی پاکستان لاہور)