عالمی ادارے اور انسانیت کے دشمن ’’مہذب‘‘ ممالک

تہذیب وشائستگی کے تمام تر دعووں، اقدار و اخلاقیات کے بلند آہنگ دروس اور تحفظِ امن و آزادی، عدل و انصاف، مساوات و برابری اور انسانوں ہی نہیں حیوانوں، جانوروں، چرند و پرند بلکہ اشجار تک کے حقوق کے علَم بردار بے شمار اداروں اور تنظیموں کی موجودگی کے باوجود زمینی حقائق اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا میں آج بھی جنگل کا قانون رائج ہے، درندوں کا راج ہے اور لاٹھی جس کے ہاتھ میں ہے، بھینس بھی اسی کی ہے۔ کسی کو اگر یقین نہ آئے تو وہ ارضِ فلسطین تک پہنچنے کی ہمت کرے جہاں غزہ کی سرزمین کو عملاً قبرستان میں تبدیل کیا جا چکا ہے، اور جہاں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران آتش و آہن کی اس قدر بارش کی گئی ہے کہ ماضی میں اس کی مثال تلاش کرنا محال ہے۔ ان آٹھ مہینوں کے دوران بے گناہ، نہتے، معصوم، مجبور اور محصور پینتس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے جن میں سے اکثریت عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اس سے دو گنا سے بھی زائد تعداد میں فلسطینی باشندے زخمی اور معذور ہوچکے ہیں جن کے علاج معالجے کے لیے کوئی اسپتال تک اسرائیل کی ننگِ انسانیت جارحیت سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ غزہ کے خطے میں کوئی امدادی مرکز گولہ باری کی زد میں آنے سے بچا ہے نہ عبادت گاہ۔ کسی تعلیمی ادارے کا نام و نشان باقی ہے نہ رہائشی عمارت کا۔ پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بنادیا گیا ہے اور ہر جانب کھنڈرات ہی کھنڈرات بکھرے پڑے ہیں۔ اسرائیلی بمباری سے زندہ بچ رہنے والے بھوک اور پیاس سے بلبلا رہے ہیں مگر اُن تک پانی اور خوراک پہنچنے دی جارہی ہے نہ ادویہ اور دوسرا امدادی سامان۔ مگر اس سب ظلم و ستم کے باوجود تہذیب و شائستگی کے دعویداروں کا طرزعمل یہ ہے کہ وہ مظلوموں، مجبوروں اور محصوروں کے حق میں آواز بلند کرنے یا اُن کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے بجائے نہایت ڈھٹائی اور بے حیائی سے کھلے بندوں ظالم و جابر، ننگِ انسانیت اسرائیلی حکومت کی پشتی بانی کررہے ہیں اور اس کی صرف دامے، درمے اور سخنے ہی سرپرستی نہیں کررہے بلکہ اربوں ڈالر مالیت کا اسلحہ اور گولہ بارود بھی فراہم کررہے ہیں، تاکہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ عنایت علی خاں مرحوم و معفور کو تو اس امر کا قلق تھا کہ:

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

مگر یہاں تو کیفیت یہ ہے کہ ساری نام نہاد مہذب دنیا ظالم کی پشت پناہی کررہی ہے اور تمام مسلمان ممالک سمیت باقی لوگ ’’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے تماشا دیکھنے میں مصروف ہیں۔ کسی میں ہمت نہیں کہ کھل کر اس ظلم کی زبانی مذمت بھی کرسکے۔ پوری دنیا میں صرف جنوبی افریقہ کو یہ توفیق مل سکی ہے کہ اُس نے اسرائیل کے ظلم کو عالمی عدالتِ انصاف میں چیلنج کیا ہے جس نے 24 مئی کو اپنے فیصلے میں اسرائیل کو رفح میں فوجی آپریشن فوری بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ فیصلہ 15 میں سے 13 ججوں کی واضح اکثریت سے سنایا گیا جس میں لکھا گیا ہے کہ اسرائیل رفح کراسنگ فوری طور پر کھول دے، فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کردے کیونکہ اسرائیلی اقدامات سے فلسطینی عوام کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ فیصلے میں اسرائیل سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے ’’تحقیقِ حقائق مشن‘‘ کو غزہ تک رسائی دے۔ عالمی عدالتِ انصاف کے صدر نشین نواف سلام نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے 7 مئی کو رفح میں فوجی آپریشن شروع کیا جس کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی گئی۔ عدالت نے فیصلے میں باور کرایا ہے کہ فوجی آپریشن سے غزہ کا بنیادی شہری ڈھانچہ تباہ ہوگیا ہے اور ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا ہے، جب کہ اسرائیلی کارروائیوں سے بچنے کے لیے جب لاکھوں لوگ غزہ سے رفح پہنچے تو اسرائیل نے وہاں بھی فوجی کارروائی شروع کردی جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

عالمی عدالتِ انصاف نے اگرچہ اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ اسرائیل عدالتی حکم پر عمل درآمد کی تکمیلی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرے، مگر اسے اسرائیل کی عالمی بدمعاشی اور خودسری ہی قرار دیا جائے گا کہ اس نے فیصلہ آتے ہی اسے تسلیم کرنے اور اس پر عمل درآمد سے انکار کردیا ہے اور جنگ بندی کے حکم پر عمل کو اسرائیل کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اسی طرح اسرائیل کے سرپرستِ اعلیٰ اور یک محوری دنیا کے مدار المہام امریکہ بہادر کے صدر جوبائیڈن نے بھی فیصلے کو عالمی عدالتِ انصاف کے دائرۂ اختیار سے باہر قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ حالانکہ یہی امریکہ محض اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کو جواز بناکر اپنے حواریوں سمیت افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اور کیمیائی ہتھیاروں کی جھوٹی داستان کی بنیاد پر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اسرائیل کی غزہ کے بے بس باشندوں کے خلاف جارحیت کے معاملے میں اقوام متحدہ نامی ادارہ پہلے ہی اپنی بے بسی کا اظہار اور بے حسی کا مظاہرہ نہایت ڈھٹائی سے کرچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر طاقت کے نشے میں مدہوش ممالک اسی طرح عالمی اداروں اور قوانین کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے تو انسانوں اور درندوں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟ اور دوسروں کو اخلاقیات اور انسانیت کا درس دینے والے یہ نام نہاد مہذب ممالک مزیدکب تک دنیا کو بے وقوف بنا سکیں گے…؟ (حامد ریاض ڈوگر)