بٹوے میرے کو لے اُڑا کون؟

ماہرِ نصابیات اور موجد و مشّاق اُستاد تو مولانا اسمٰعیل میرٹھی بھی تھے، مگر اُن کے زمانے میں کھٹ پٹ شاید صرف ’موذیوں‘ میں ہوا کرتی تھی۔ اب تو خود اساتذہ اور ماہرینِ نصابیات میں بھی ہونے لگی ہے۔ عجیب بات ہے۔ ابھی ہم مولانا کا ’موذیوں‘ والا شعر نقل کرنے ہی کو تھے کہ اتنے میں چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی آدھمکے اور حسبِ معمول ’دخل در منقول‘ کرتے ہوئے کہنے لگے:

’’جب کہ دو ’ٹیچروں‘ میں ہو کھٹ پٹ، تواس کو عجیب قرار دینے سے قبل شاگردوں سے بھی اُن کی بابت رائے لے لینا چاہیے‘‘۔

مگر ہم نے چچاکی رائے پرکوئی رائے دیے بغیر اپنا کام اورکالم جاری رکھا۔ ہوا یہ کہ گزشتہ دنوں دو اساتذہ میں اس بات پر کھٹ پٹ ہوگئی کہ ’پر محیط‘ لکھنا درست ہے یا ’کو محیط‘ لکھنا ٹھیک ہے۔ ہم بھی وہیں موجود تھے، مگر مولانا اسمٰعیل میرٹھی کے شعر کے دوسرے مصرعے پر جھٹ پٹ عمل نہ کرپائے۔ چناں چہ دونوںکی زَد میں آکر’حَکَم‘ ہوگئے۔ سوال یہ تھا کہ ان دونوں فقروں میں سے کون سا جملہ ٹھیک ہے:

’’کتاب بیس جلدوں پر محیط ہے‘‘ یا ’’کتاب بیس جلدوں کو محیط ہے‘‘۔

ہماری جو شامت آئی تو جوشِ جہاد سے سرشار ہوکر ’جابر اُستاد‘ کے آگے کلمۂ حق کہہ بیٹھے: ’’پہلا فقرہ درست ہے‘‘۔

’’کو محیط‘‘ والے اُستاد ہتّھے سے اُکھڑ گئے۔ اکھڑ لہجے میں بولے: ’’صاحبِ عالم بڑے بڑے لکھنے والے ’کو محیط‘ لکھ رہے ہیں‘‘۔

یہ کہہ کر ایک بہت بڑے لکھنے والے محترم ظفر اقبال صاحب کا ایک قدیم کالم نکال لائے۔ عنوان تھا: ’’منصور آفاق شہر میں ہے‘‘۔کالم چوں کہ 16اپریل 2014ء کو شائع ہوا تھا اور اب تک اس کالم پر کامل دس برس بِیت چکے تھے، چناں چہ انھوں نے اپنے تئیں یہ تصور کرلیاکہ اتنے برسوں تک پڑے پڑے کالم خودبخود مستند ہوگیا ہوگا۔ مذکورہ کالم میں ظفر اقبال صاحب نے منصور آفاق کے متعلق بتایا تھا کہ’’اب ’دیوانِ منصور‘ کے نام سے ان کا مفصل کام زیر ترتیب ہے جو کم و بیش 900سے 1000صفحات کو محیط غزلوں پر مشتمل ہوگا‘‘۔

عرض کیا: ’’محترم ظفر اقبال صاحب بے شک بہت بڑے لکھنے والے اور بسیار نویس ہیں۔ مگر زبان پر سند نہیں۔ سند ہوتے تو اُن کے فقروں کے فقرے نہ رَد ہوتے۔ اُن کی زبان پر متعدد ماہرین کے اعتراضات موجود ہیں۔ خود اُنھوں نے اپنی شاعری میں ’اِنکارنے‘ اور ’اَنگارنے‘ جیسے الفاظ کی ایجاد کا تجربہ کیا مگر تجربہ ناکام رہا۔ یہ لو! ہمیں جنابِ ظفر اقبال کی جدید شاعری کی ایک دلچسپ مثال بھی یاد آگئی:

جلدی میں لکھ گیا ہوں، یعنی
آپا دھاپی کو آپی دھاپا
بٹوے میرے کو لے اُڑا کون؟
ڈی سی آفس کے بس سٹاپا

ظفر اقبال صاحب کے فاضل صاحبزادے جناب آفتاب اقبال بھی اُردو محاوروں اور ضرب الامثال پر مضحکہ خیز حد تک بھنڈ مار بیٹھے ہیں۔ ’گھوڑے بیچ کر سونا‘ اور ’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘ جیسی قدیم ضرب الامثال کو جدید معانی پہنانے کی کوشش فرمائی۔ فرمایا کہ ’بے چ‘ نہیں ’بی چ‘ ہے، مزید فرمایا کہ ’دھوبی کا کتا‘ نہیں ’دھوبی کا کتکا‘ ہے۔ ’کتکا‘ وہ ڈنڈا جس سے دھوبی کپڑے کوٹ کوٹ کر دھوتا تھا۔ صاحب! جب دھوبی ہوا کرتے تھے اور گھاٹ گھاٹ کپڑے دھوتے پھرتے تھے تو کپڑوں کو کوٹ کوٹ کر نہیں، پٹک پٹک کر دھویا کرتے تھے، پاٹ پر۔ پہلوانوں نے ’دھوبی پاٹ‘ کا داؤ اُنھیں سے سیکھا ہے۔ آج بھی کہیں پُرانے دھوبیوں کی قلمی تصویر یعنی موقلم سے بنائی گئی تصویر ملتی ہے تو اُنھیں کپڑے سر سے اوپر اُٹھا کر پٹکتے ہوئے ہی دکھایا جاتا ہے۔ البتہ گھریلو عورتیں ڈنڈے سے پیٹا کرتی تھیں، خواہ گھر ہو یا گھاٹ۔ صاحب اُن کپڑوں کے اندر موجود ہوں یا جامے سے باہر، ہر صورت میں وہ ڈنڈوں سے دھو دیا کرتی تھیں۔ پھر تمام لغات میں ’دھوبی کاکتا‘ ہی درج ہے۔ نیز میر تقی میرؔ جیسے قدیم شاعر نے بھی اس محاورے میں ’دھوبی کا کتا‘ ہی باندھا ہے:

کتوں کی جستجو میں ہوا روڑا باٹ کا
دھوبی کا کتا ہے کہ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

(نظم: ’’در ہجو عاقل نام، ناکسے کہ بہ سگاں انسے تمام داشت‘‘)تو صاحب! ایں ہمہ خانہ آفتاب است۔ کسی مستند کی سند لائیے‘‘۔

ہماری اتنی طویل تقریر سنی تو روہانسے ہو کر کہنے لگے: ’’حضرت! ہم تو ہارے، اب آپ ہی کوئی سند لے آئیے‘‘۔

فوری طور پر جو سند ذہن میں آئی وہ زبانی یاد تھی۔ محترم مختار مسعود کی کتاب ’’آوازِ دوست‘‘جنوری 1973ء میں شائع ہوئی تھی۔ اُس وقت ہم سندھ مسلم سائنس کالج کے طالب علم اور کالج کے مجلے کے مدیر تھے۔ ہم ذوق ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر ’’آوازِ دوست‘‘ کا بار بار اجتماعی مطالعہ ہوا۔ کتاب کی پُرتاثیر نثر کے شذروں کے شذرے زبانی یاد کرلیے گئے۔ اُنھیں میں سے ایک شذرے کی دو سطریں یہ تھیں:

’’عالمگیری مسجد کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا ہے وہ مینارِ قراردادِ پاکستان ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں مگر ان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت جس میں سکھوں کا گردوارہ اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں تین صدیوں پر محیط ہے‘‘۔ (مینارِپاکستان)

اصغرؔ گونڈوی کا یہ شعر بھی دیکھ لیجے:

اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے
شکل صفات معنی اشیا کہیں جسے

سورۂ طلاق کی آیت نمبر 12کے آخری ٹکڑے کا ترجمہ، جس میں ’’قَدْ اَحَاطَ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، مولانا مودودیؒ نے ان الفاظ میں کیا ہے’’… اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے‘‘۔ مولانا مودودی کی نثر کی تحسین بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے بھی کی ہے۔

علاوہ ازیں نوراللغات اورفرہنگ آصفیہ میں بھی ’’پر محیط‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں۔ غالباً اتنی ہی اسناد کافی ہوں گی۔ اب اگر لگے ہاتھوں ’محیط‘ کے معانی بھی معلوم ہوجائیں تو کیا بُرا ہے۔ ہم نے چوں کہ سائنسی علوم کی تعلیم اُردو میں حاصل کی تھی، چناں چہ سب سے پہلے اس لفظ سے ہمارا سابقہ علم الہندسہ (Geometry)میں پڑا۔ وہاں اس سے مراد کسی دائرے یا کسی بیضوی شکل پر کھینچا جانے والاخط تھا، جسے انگریزی میں ‘Circumference’ کہتے ہیں۔ یہ خط اُس پوری شکل کا احاطہ کرلیتا اور اُس شکل کا ’’محیط‘‘ کہلاتا۔

’محیط‘ کے لفظی معنی ہیں گھیر لینے والا یا احاطہ کرلینے والا۔ نوراللغات نے اس لفظ کے استعمال کی مثال دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’جیسے ابر آسماں پر محیط ہے‘‘۔ جب کہ فرہنگ آصفیہ میں مثال یوں درج ہے:’’وہ اس کی طبیعت پر ایسا محیط ہے کہ کچھ کام نہیں کرنے دیتا‘‘۔

اصل لفظ ’حوط‘ ہے، جس کا مطلب ہے حفاظت کرنا یا نگہبانی کرنا۔ گرداگرد دیوار بنا لینا۔ دیوار سے گھری ہوئی جگہ کو ہم ’احاطہ‘ کہتے ہیں۔ اسی لفظ ’حوط‘ سے لفظ ’احتیاط‘ بھی بنا ہے، جس کا مطلب ہے دیکھ بھال کر، پوری حفاظت اور نگرانی کے ساتھ کام کرنا۔ جو ’احتیاط‘ سے کام لیتا ہے اُسے ’محتاط‘ کہا جاتا ہے۔ محتاط شخص کام پر محیط ہوجاتا ہے۔ ویسے فارسی میں ’محیط‘ دریا کو بھی

کہتے ہیں، جیسا کہ اقبالؔ نے کہا:

تُو ہے مُحیطِ بے کراں، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہم کنار کر، یا مجھے بے کنار کر

بہرحال، اگر اہلِ لغت اور اہلِ زبان کی سند کے باوجود یہ لفظ بڑے بڑے لکھنے والوں ’کو محیط‘ ہے تو بھائی! کم از کم ہم تو اُن ’پر محیط‘ ہونے کی ہمت نہیں رکھتے کہ جن سے ہر لغت اپنی خالی جیبوں پر ہاتھ پھیر پھیر کر اور تڑپ تڑپ کر پوچھا کرے ہے کہ
بٹوے میرے کو لے اُڑا کون؟