قصہ یک درویش! مولانا مودودیؒ کی تقریر اور گولی چلنا

سولہویں قسط

1963ء میں اسلامیہ کالج میں داخلے کے بعد رہائش کے لیے میں نے جناح ہاسٹل میں داخلہ لے لیا۔ اس ہاسٹل کا پرانا نام ریواز ہاسٹل تھا۔ میں فرسٹ ائیر کا واحد طالب علم تھا جسے سنگل کمرہ (کیوبیکل) الاٹ ہوا۔ باقی سبھی کو ڈارمیٹریوں میں داخلے ملے جہاں ایک بڑے کمرے میں چار سے پانچ طلبہ مقیم ہوتے تھے۔ میرے کمرے کا نمبر 10تھا جو مین دروازے سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب پہلا کمرہ تھا۔ بے تکلف دوست کمرے کے نمبر کو مزاح کا موضوع بنا لیتے تو میں بھی ان کے ساتھ محظوظ ہوتا۔ پروفیسر خواجہ محمد ریاض ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ تھے جو فیملی کے ساتھ ہوسٹل کے احاطے کے اندر ایک بڑے مکان میں رہتے تھے۔ سید عابد حسین شاہ (لیبارٹری انسٹرکٹر) اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ تھے اور وہ اکیلے ہوسٹل کے کمرہ نمبر ایک میں رہتے تھے، جب کہ کمرہ نمبر 2 بھی انہی کے زیراستعمال ہوتا تھا۔

شروع کے ایام میں گرمی اور گھر سے دوری کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے طبیعت خاصی اداس اور پریشان رہی، مگر آہستہ آہستہ گرمی بھی کم ہوتی گئی اور مخلص دوستوں کا ایک حلقہ بھی بن گیا تو صورتِ حال بہتر ہوگئی۔ اسلامیہ کالج میں داخلہ ہوجانے کے بعد میں ہاسٹل میں مقیم تھا کہ جماعت اسلامی کے کُل پاکستان اجتماعِ عام کی خبر ملی۔ یہ اجتماع اکتوبر کے مہینے میں بھاٹی گیٹ کے باہر ہونا تھا۔ والد صاحب کی طرف سے خط ملا کہ وہ دیگر اعزہ اور جماعتی ساتھیوں کے ہمراہ اس اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور آرہے ہیں۔ اس خط میں آپ نے مقررہ تاریخ کو مجھے بھی اجتماعِ عام میں شرکت کی ہدایت فرمائی۔ مجھے خود اس طرح کے پروگراموں میں شرکت کا بے پناہ شوق ہوتا تھا۔

مقررہ تاریخ کو میں اس اجتماع میں بروقت شریک ہوگیا تھا۔ اس اجتماع کی یادیں بہت تفاصیل کے ساتھ ذہن میں محفوظ ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی تقریر بغیر لائوڈاسپیکر کے ہورہی تھی اور طویل اجتماع گاہ میں بارہ جگہوں پر مختلف قائدین مولانا کی لکھی ہوئی تقریر اپنے سامنے بیٹھے سامعین کو سنا رہے تھے۔ میں خوش قسمتی سے اُس جگہ بیٹھا تھا جہاں مولانا خود تقریر فرما رہے تھے۔ مرشد کے اس ایمان افروز خطاب کے دوران قناتوں کی رسیاں کاٹی گئیں، کتابوں کے اسٹال الٹے گئے، مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف گھٹیا نعرے لگائے گئے، پھر گولی چلی اور میری آنکھوں کے سامنے چند فٹ کے فاصلے پر جماعت کے ایک کارکن گولی لگنے سے زخمی ہوکر زمین پر گر گئے۔ یہ تھے اللہ بخش شہید (ان کے حالات ہماری کتاب ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد نہم میں شامل ہیں)۔

مولانا مودودیؒ سے پہلی ملاقات تو 1961ء میں جب کہ میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، 5۔اے ذیلدار پارک اچھرہ میں ہوگئی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب مولانا کا خطاب براہِ راست سننے کی سعادت ملی۔ اس خطاب کے دوران جب گولی چلی تو مولانا کے بعض ساتھیوں نے کہا: ’’مولانا! آپ بیٹھ جائیں۔‘‘ جواب میں مولانا نے فرمایا: ’’اگر آج میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا۔‘‘مولانا کے یہ الفاظ سن کر میرے دل سے ہر قسم کے خدشات دور ہوگئے۔ نہ کسی گولی کا ڈر باقی رہا، نہ کسی بدمعاش کی غنڈہ گردی کا خوف۔ میں نے اس اجتماع کے حالات مختلف جگہوں پر کئی مضامین کے اندر تفصیل سے لکھے ہیں۔ اجتماع کے بعد میرے والدِ محترم اور دیگر اعزہ واپس گھروںکو روانہ ہوگئے اور میں اپنے ہاسٹل میں چلا گیا۔ کئی دنوں تک دن کو بیداری میں بھی اور رات خواب میں بھی اسی اجتماع کے مناظر آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے۔ صبح کالج کی طرف روانہ ہوتا تو بھی مولانا کے الفاظ کانوں میں رس گھول رہے ہوتے۔ مرشد کیا جامع شخصیت کا مالک تھا اور کیا جرأت کا پہاڑ اور استقامت کا مینار تھا!

کالج میں طلبہ کی تعداد ہزاروں میں تھی جن میں سے سالِ اوّل و دوم کے تقریباً دو ڈھائی سو کے درمیان طلبہ ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ہاسٹل میں مقیم یہ طلبہ مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں رائو محمد حسین، رائو محمد طفیل، چودھری عبدالستار، چودھری محمد اسلم، محمد اقبال شاہ انجم، راجا ممتاز، عبدالستار (کیمبل پوری)، ذوالفقار شاہ، محمد شفیع، چودھری ممتاز گوجر، عابد شاہ (باکسر) اور دیگر بہت سے دوستوں سے (جن کے نام بھول گیا ہوں) گاڑھی چھنتی تھی۔ ان دوستوں میں سے بعض تو خاندانی لحاظ سے تحریکی پس منظر رکھتے تھے، باقی مختلف مسالک (شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی اور سلفی) اور سیاسی لحاظ سے بھی مختلف خیالات کے حامل تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان میں سے چند ایک کے سوا سبھی بعد میں جمعیت طلبہ کے کارکن، رفیق یا کم از کم حامی بن گئے۔

اسلامی جمعیت طلبہ کا دفتر ہمارے کالج سے قریب ہی ریلوے روڈ پر گوالمنڈی میں ایک بہت پرانی سی عمارت میں پہلی منزل پر ہوتا تھا۔ گرائونڈ فلور پر کباب، پکوڑے، روسٹ مرغ، مچھلی، کڑاہی گوشت اور جلیبی مٹھائی وغیرہ کی دکانیں تھیں۔ ہر وقت ماکولات کی خوشبو کے ساتھ دھوئیں کا بدترین ماحول بھی ایذا پہنچاتا رہتا تھا۔ جمعیت سے تعلق رکھنے والے مختلف اداروں میں زیر تعلیم کچھ طلبہ کی ہمت تھی کہ وہ وہاں قیام پذیر تھے۔ ہمارے جمعیت کے عظیم ساتھی حکیم عبدالعزیز ہاشمی (مرحوم) بھی اس دور میں وہیں مقیم ہوا کرتے تھے۔ (آپ کے حالات ہم نے تفصیل کے ساتھ ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد ہفتم از صفحہ 259تا 279 میں لکھے ہیں)۔ آپ اسلامیہ طبیہ کالج میں زیر تعلیم تھے جس کا کیمپس اسلامیہ کالج کے کیمپس سے بالکل ملحق تھا۔ یہ طبیہ کالج بھی اسلامیہ کالج کی طرح انجمن حمایت اسلام کے تحت قائم کیا گیا تھا۔

اسلامی جمعیت طلبہ سے تومیں اسکول کے زمانے ہی میں متعارف تھا۔کالج اور ہاسٹل میں بھی جیسا کہ اوپر تذکرہ ہوا ہے، ہم خیال ساتھیوں سے جمعیت کا تذکرہ کیا توبعض میری طرح پہلے ہی جمعیت سے متعارف تھے، باقیوں کو متعارف کرایا گیا۔ ہم نے ابھی باقاعدہ حلقہ اور نظم قائم نہیں کیا تھا، مگر اس کے لیے سوچ بچار ہو رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ لاہور جمعیت کے مرکزی نظم سے رابطہ کروں۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک روز ہاسٹل میںایک مہمان میرے پاس تشریف لائے۔ آپ اسلامی جمعیت طلبہ لاہور کے ناظم تھے۔ آپ کا نام (پروفیسر) عطا اللہ چودھری تھا۔

ناظمِ لاہور سے یہ پہلی ملاقات بڑی یادگار تھی۔ انھوں نے اپنا تعارف کرایا اور فرمایا کہ مجھے آپ کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ آپ تحریکی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، تو میں آپ سے ملنے کے لیے آپ کے پاس چلا آیا ہوں۔ چودھری صاحب پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے طالب علم تھے۔ اس سے پہلے بطور استاد بھی مختصر عرصہ سرگودھا کے ایک تعلیمی ادارے جامعہ اسلامیہ قاسم العلوم میں تدریس کے میدان میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ اُس دور میں آپ نہایت مضبوط، چاق چوبند اور خوب صورت تھے۔ سرخ و سفید رنگت اور سیاہ ریش کے حامل۔ طلبہ تحریک کے محترم لیڈر کی آمد میرے لیے یادگار تھی، گویا کنواں پیاسے کے پاس آ گیا تھا۔

پہلی ملاقات کے باوجود مجھے احساس ہورہا تھا جیسے ان سے پرانا تعلق ہے۔ یہ تحریکِ اسلامی کی برکت ہے۔ آپ کی گفتگو سنتے ہی میں نے بے تکلفی مگر پوری سنجیدگی کے ساتھ کہا ’’گویا آپ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں؟‘‘ اس پر چودھری صاحب خوب قہقہہ لگا کر ہنسے اور فرمایا ’’ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘ یہ گرفتاری کا لفظ تو میں نے ازراہِ مذاق کہہ دیا تھا مگر پتا نہیں اس کی گونج کہاں کہاں تک پہنچی کہ اگلے سالوں میں جوں جوں وقت گزرتا گیا، یکے بعد دیگرے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اُس دور میں اتنی مرتبہ شاید ہی جمعیت کا کوئی دوسرا ساتھی گرفتار ہوا ہو، جتنا مجھے اس کا تجربہ، یا یوں کہیے کہ شرف حاصل ہوا۔ ان گرفتاریوں کا تذکرہ اپنے موقع پر آئے گا۔

کالج کا ماحول بہت اچھا تھا۔ میں نے آرٹس میں داخلہ لیا۔ مضامین انگریزی، اردو تو لازمی تھے۔ اس کے علاوہ میں نے فلسفہ، سوکس (پولیٹکل سائنس) اور عربی اختیاری مضامین کے طور پر منتخب کیے۔ فلسفے کے مضمون میں سائیکالوجی (نفسیات) بھی شامل ہوتی تھی۔ ہمارے اساتذہ میں پروفیسر خالد بزمی مرحوم بھی تھے جو عربی پڑھاتے تھے، انہی سے ان دو سالوں میں سب سے قریبی رابطہ رہا۔ مرحوم میرے استادِ محترم تھے، مگر ہمارے درمیان بے تکلفی اور دوستی کا تعلق بھی تھا (میں نے مرحوم کے حالات ’’عزیمت کے راہی‘‘ جلد دوم از صفحہ 51تا 57 میں لکھے ہیں)۔ اُس زمانے میں کالج کا ماحول پُرامن، تعلیمی اور علم و ادب سے مالامال ہوتا تھا۔ یہاں میرے دیگر اساتذہ میں پروفیسر امتیاز مسرور (انگریزی)، پروفیسر نثار صوفی ابنِ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم(سوکس)، پروفیسر محمد اقبال (فلسفہ) اور پروفیسر شہرت بخاری (اردو) شامل تھے۔ ان میں سے بعض ترقی پسند اور اشتراکی نظریات کے حامل تھے مگر بطور استاد سبھی ذمہ دار اور قابلِ قدر لوگ تھے۔

پروفیسر عبدالحئی بٹ صاحب کالج کے پرنسپل اور پروفیسر مولانا علم الدین سالک وائس پرنسپل تھے۔ بزرگ اساتذہ میں پروفیسر مولانا عبدالحئی فاروقی اور پروفیسر محمد اقبال قابل ذکر ہیں۔ بہرحال پروفیسر خالد بزمی صاحب کے پیریڈ میں ہمیں سب سے زیادہ لطف آتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بزمی صاحب اپنے مضمون میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ادیب، منجھے ہوئے شاعر اور پھر ہمدرد مربی بھی تھے۔ آپ دینی، تاریخی اور ملّی پہلوئوں پر دلچسپ علمی انداز میں روشنی ڈالتے اور ایک اچھا مسلمان اور اچھا پاکستانی بننے کی ضرورت ایسے حکیمانہ انداز میں ذہن نشین کراتے کہ نہ تو کسی کو بوجھ محسوس ہوتا نہ ناگواری۔

ہماری کلاس میں ہر مسلک کے طلبہ موجود تھے۔ اہلِ حدیث، دیوبندی، بریلوی اور شیعہ، سب بزمی صاحب کی بات غور سے سنتے اور یکساں احترام کے ساتھ اس پر سرِ تسلیم خم کردیتے۔ بزمی صاحب مسلکاً اہلِ حدیث تھے۔ وہ پروفیسر ابوبکر غزنوی مرحوم اور ان کے والد حضرت مولانا دائود غزنوی مرحوم سے بہت متاثر تھے مگر ان کی گفتگو اور طرزِعمل سے کبھی یہ تاثر نہیں ابھرتا تھا کہ وہ کسی خاص مسلک کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ ہر بات قرآن و سنت کی روشنی میںکرتے اور کلاس میں یوں محسوس ہوتا جیسے ایک خاندان کے لوگ اپنے سربراہ کے ساتھ بیٹھے خوشگوار ماحول میں تبادلہ خیال کررہے ہیں۔

میرا تعلق خاندانی اور نظریاتی لحاظ سے جماعتِ اسلامی سے تھا اور چونکہ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کی دعوت مسلکی تعصبات سے بالاتر ہے، اس لیے مجھے ابتدائی عمر سے لے کر آج تک مسالک کے چکر میں گرفتار اہلِ علم کے مقابلے میں وہ حضرات اپنے سے زیادہ قریب محسوس ہوتے ہیں جو اتحادِ ملّت اورقرآن وسنت کی بالادستی کا پرچار کرتے ہیں۔ بزمی صاحب جماعت اسلامی کے نہ تو کارکن تھے، نہ نظم ِجماعت سے اُن کاکوئی تعلق تھا مگر وہ مولانا مودودیؒ کے بہت بڑے قدردان تھے۔ وہ کئی پیچیدہ معاملات و مسائل میں مولانا کی آرا کو بطورِ استشہاد بھی پیش کرتے تھے۔

اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں اُس زمانے میں اسٹوڈنٹس یونین قائم نہیں تھی۔ کالج میں ایک اہم پروگرام ہفتہ وار اسلامی لیکچر ہوا کرتا تھا، اسے سرمن (Serman) کہا جاتا تھا۔ اس کے انچارج پروفیسر عبدالحئی فاروقی (مرحوم) ہوا کرتے تھے۔ کالج کے وائس پرنسپل مولانا علم الدین سالک، فاروقی صاحب کے قریبی دوست تھے۔ سالک صاحب مرحوم کی شخصیت انتہائی بارعب تھی۔ جناح کیپ اور شیروانی میں ملبوس، ہاتھ میں کھونڈی (چھڑی) کے ساتھ مولانا سالک جب کالج میں چکر لگاتے تو طلبہ و اساتذہ سبھی بہت محتاط ہوجاتے۔ صفائی کا عملہ بھی اُن کے ڈر سے اپنا کام بڑی ذمہ داری سے ادا کرتا تھا۔ مولانا سالک اور مولانا فاروقی باہمی دوستی کی وجہ سے یک جان دو قالب مشہور تھے۔ مولانا سالک کو اگر جلالِ بادشاہی کہیں تو مولانا فاروقی کو جمالِ خانقاہی کہہ سکتے ہیں۔ ان دونوں کا حسین امتزاج جہاں بھی پایا جائے بہت بھلا لگتا ہے۔

پروفیسر عبدالحئی فاروقی عربی اور اسلامیات کے طلبہ میں سے طلبہ کی رائے کی روشنی میں ایک سوسائٹی منتخب کیا کرتے تھے جسے اسلامک کلچرل سوسائٹی کہا جاتا تھا۔ اس میں شامل صدر اور سیکرٹری مولانا فاروقی مرحوم کی راہنمائی میں اسلامی لیکچر (سرمن) کا اہتمام کرتے تھے۔ مجھے پہلے سال ہی اس سوسائٹی کا صدر مقرر کیا گیا۔ یوں مجھے دو سال مسلسل اس ذمہ داری کو نبھانا پڑا۔ اس دور میں فاروقی صاحب کی صحبت اور شفقت نے بہت فائدہ پہنچایا۔ آپ کے مشورے سے ہم ذمہ دارانِ سوسائٹی اسلامی لیکچر کا اہتمام کرتے۔ اس کے لیے کسی دوسرے ساتھی کو ساتھ لے کر میں مختلف اہلِ علم سے وقت لینے کی خاطر ان کے ہاں حاضر ہوتا۔ جن علماء اور دانش وروں کو ہم دعوت دیتے وہ بہت خوشی کے ساتھ ہماری سرپرستی فرماتے۔(جاری ہے)