ما بعد تصور:وجودی ”تصور“ دوئم

یقیناً سارتر اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ ہر انسانی شعور خود کو ایک خاص معاشرے اور زمانے میں پاتا ہے کہ جہاں آزاد فیصلے پہلے سے وجود رکھتے ہوں۔ ہم سب ایک وجودی صورتِ حال میں پیدا ہوتے ہیں جو ہمارا انتخاب نہیں ہوتا: یہ ہے وہ بات جسے سارتر ہائیڈگر کی پیروی میں ’حالتِ حقیقت‘ پکارتا ہے۔ مگر ایسے حقیقی حالات میں ہر فرد اپنی صورتِ حال کو خاص معنی اور قدر دینے پر قادر ہوتا ہے۔ اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ ایک ’نفی‘ کا پروجیکٹ ہے جو وہ امکانات رکھتا ہے جو کہیں موجود نہیں۔ سارتر کہتا ہے کہ اس نظریے میں جو بات خطرناک ہے وہ انسان کا انتخاب کے امکان سے سامنا ہے۔

سارتر کا انسان پرست نظریہ جو کامل آزادی کا تقاضا کرتا ہے، الحاد پر منتج ہوتا ہے۔ اور صرف اس لیے نہیں کیونکہ خدا منطقی ہے یا وجودی تضاد، جیسا کہ Being and Nothingness میں زیربحث آیا۔ خدا کے وجود کا اثبات نہیں کیا جاسکتا، سارتر کہتا ہے کہ یہ اخلاقی سبب ہے کہ ایسا کرنا انسان کو وجودی آزادی سے محروم کرنے جیسا ہے۔ انسان صرف اپنے اختصاص سے تخلیق کے لیے آزاد ہے کہ جس کی ساری ذمہ داری اُس کے اپنے اوپر ہے، سوائے اس کے کہ کوئی الوہی خیال پہلے سے پختہ نہ ہوگیا ہو۔ سارتر نے کیئرکیگارڈ کی مذہبی وجودیت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سچا فرد وہ ہے جو خدا کی طرف نہیں لپکتا بلکہ ’وجود‘ کی جانب بڑھتا ہے، اور وہ بننے کا ارادہ کرتا ہے جو وہ خود کو متصور کرتا ہے۔ مذہبیت کے استرداد کے لیے تخلیق کا یہ غیر مشروط اثبات لازم ہے۔ یہاں سے یہ اخلاقی وجود ایک انسان پرست کے طور پر متعارف ہوتا ہے، جو قبول کرتا ہے کہ سب سے بڑھ کر وہ ایک وجود رکھتا ہے اور پھرخود کو واضح کرتا ہے۔

اس طرح سارتر کی وجودیت کی کلیدی اخلاقیات ’سند‘ ہے۔ جبکہ روایت میں ذات کا تعین اخلاص کا وہ نظریہ کرتا تھا جو خارجی ذرائع جیسے خدا، معاشرہ، خاندان، قوم وغیرہ سے تعلق میں ہو۔ ایک مستند ذات خودساختہ تخلیق کار ہوتی ہے۔ یہ کسی اور معنی پر بھروسا نہیں کرتی کہ جو اس کی خودمختار موضوعیت سے خارج ہو۔ وجودیت کا پہلا اخلاقی اثر یہ ہے کہ ہر آدمی خود کا مالک ہو اور اپنے وجود کی ساری ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائے۔ وجودیت کا سب سے بڑا اخلاقی سبق یہ ہے کہ تم آزاد ہو لہٰذا خود انتخاب کرو۔

سارتر یہاں کسی بھی مقام پر اپنے ابتدائی کاموں کے اصل دعوے سے رجوع نہیں کرتا جیسا کہ تصور معنی کی تخلیق کا ذریعہ ہے۔ وہ کس تبدیلی کا خواہش مند ہے، یہ دراصل وہ مشاہدہ ہے جوThe Psychology of Imagination میں مذکور ہے، کہ تصور کے منصوبے اخلاقیات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ تجربے کے جمالیاتی نمونے کی شرحِ نو میں سارتر آدمی کے ذاتی تخلیقی عمل کو ایک اخلاقی ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ آدمی صرف اپنا پابند ہے اور جو تصویر وہ بناتا ہے وہ صرف اس کی اپنی تصویر ہوتی ہے۔ آگے چل کر وہ اس تمثیل کی بابت بتاتا ہے:

’’اخلاقی انتخاب کے آرٹ کا تعمیری کام سے موازنہ کیا جاسکتا ہے… کیا کوئی کسی آرٹسٹ کو اُس وقت ملامت کرتا ہے جب وہ ایک تصویر بناتے ہوئے اصولوں کی پابندی نہ کرتا ہو؟ کیا کوئی کبھی پوچھتا ہے کہ یہ کیا تصویر ہے کہ جسے بنانا بھی چاہیے؟ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ تصویر پیشگی کسی تعریف کی حامل نہیں ہوتی، فنکار خود بھی اپنی تصویر کا مکمل تصور نہیں رکھتا۔ جیسے ہر کوئی جانتا ہے کہ کوئی جمالیاتی قدر پہلے سے موجود نہیں ہوتی، ہاں مگر وہ قدریں ہوتی ہیں جو اس دوران تصویر سے تعلق میں نمایاں ہوتی ہیں۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ کل فن پارہ کیسا ہوگا، کوئی یہ نہیں جان سکتا کہ تصویر مکمل ہونے سے پہلے کیا ہے اور کیسی ہے۔ آخر اس کا اخلاقیات سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ ہم بالکل ایسی ہی تخلیقی صورت حال میں ہیں۔ ہم کسی ایسے کام کو غیر ذمہ دارانہ قرار نہیں دیتے جب ہم کسی کینوس پر بنے پکاسو کے فن پارے پر تبصرہ کررہے ہوتے ہیں۔ ہم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس کی تیاری کا خیال پینٹنگ کے دوران ہی تشکیل پارہا تھا اور یہ اُس کے سارے کام کا محض ایک حصہ ہے۔ یہی کچھ آرٹ اور اخلاقیات میں یکساں ہے۔ ہمیں دونوں میں تخلیق اور ایجاد سے کام لینا پڑتا ہے۔“

سارترکی دلیل اب تک فتح یاب نہیں ہوئی۔ ایک الجھن کا جواب اُسے ابھی دینا ہے: کیا چیز کسی تخلیقی عمل کو جواز بخشتی ہے؟ اگر ہر چیز کی اجازت ہے جیسا کہ سارتر کی وجودیت اور آزادی تقاضا کرتی ہے تو پھر وہ کون سا اخلاقی انتخاب ہے جو ذاتی تخلیق میں ایک کو دوسرے پر سبقت دے سکتا ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں کیا چیز ہماری اخلاقی ایجادات میں اچھے اور برے کا تعین کرتی ہے، بے کار جذبے یا اخلاقی بامعنی اعمال کا تعین کرتی ہے؟ ایسی کیا چیز ہے سارتر کے انسان پرست نظریے میں جو افراد کو ’جرم وسزا‘ کے Raskolnikov بھیانک خواب سے بچاسکتی ہے:

’’انسانوں نے پہلے کبھی اپنے دانش مند ہونے پر ایسا یقین نہیں کیا اور نہ ہی سچ کے بارے میں اتنے پُراعتماد رہے۔ آج سے پہلے انسانوں کو کبھی اپنے لازوال ہونے پر ایسا یقین حاصل نہیں ہوا۔ اپنے فیصلوں، اپنے نظریات، اپنی اخلاقیات کے بارے میں انسان کبھی اتنے پُریقین نہیں ہوئے مگر یہ سب اپنے ہی دکھوں کی زد میں آگئے ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے قابل نہیں رہے۔ اس کے باوجود ہر فرد یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ سچ جان چکا ہے اور اپنے احباب میں پریشان پریشان پھر رہا ہے۔ ان میں اس بات پر اتفاق نہیں رہا کہ خیر و شر کے معاملے میں کیا اصول اپنائیں، اورنہ ہی یہ جانتے ہیں کہ کسے برا کہا جائے اور کسے ساتھ ملایا جائے۔ ان کا خاتمہ احمقوں کی طرح شدید جنون میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہوئے ہوا۔‘‘

اقدار کی جنگ میں اخلاقیات کی شکست کا امکان جب سامنے آیا تو سارتر اپنی تصور کی وجودی تھیوری سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا، اگرچہ اُس نے اس کا کھل کر اظہار نہیں کیا اور ایک بار پھر کانٹ اور روشن خیال مفکرین کی عقلی عملیت پسندی سے رجوع کیا۔ سارتر نے اس کا حل نکالنے کی امید کی۔ سارتر نے اپنی انسان پرستی کو بچانے کے لیے کانٹ کے کائناتی اصولوں کے اطلاق پر خود کو مجبور پایا۔ مگر اس طرح سارتر کا سامنا ایک اور الجھن سے ہوگیا، تصور کی بالادستی اور عقل کے درمیان انتخاب کی الجھن

ادب کا سوال
سارتر نے بعد کے کام Existentialism Literatureمیں کافی کچھ تسلیم کرلیا ہے، یہ کتاب 1947ء میں شائع ہوئی۔ یہاں سارتر دو طرز کی تحریروں کی بابت رائے دیتا ہے: شاعری اور نثر۔ وہ ان میں فرق بیان کرتا ہے: شاعری جو تصور پر انحصار کرتی ہے اور نثر جو شفافیت کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ صرف نثر اس قابل ہے کہ اخلاقی ذمہ داری پوری کرسکے۔ تصوراتی ادب شاعرانہ افسانوں کی دنیا میں مگن رہتا ہے بجائے اس کے کہ ہماری توجہ دنیا کی حقیقت کی جانب مبذول کرائے۔ سارتر کہتا ہے کہ کس طرح ایک شاعر کے تخیلاتی کام سننے والوں کو لبھاتے ہیں، ایک جادوئی غیر حقیقی دنیا میں لے جاتے ہیں، اور جامد فکر میں غرق کردیتے ہیں۔ جبکہ نثر کے الفاظ لکھنے والے کو خود سے توڑ کر دنیا کے بیچوں بیچ پھینک دیتے ہیں۔ شاعرانہ تصور دنیا کی جانب کوئی پیغام پہنچانے کی کوشش کرتا نظر نہیں آتا بلکہ سننے والوں کو دنیا سے اپنی جانب کھینچتا محسوس ہوتا ہے۔
سارتر کے مطابق یہ صرف نثری ادب ہے جو اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری ادا کرنے کے قابل ہے، صرف یہی ہے جو تصورات کی بے معنویت نمایاں کرتا ہے اور ان سے باہر کی حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے، سماجی حقیقت کی طرف۔ ایک مستند مصنف وہ ہوتا ہے جو تصور کی مذمت کرتا ہے اور حقیقت پسندی کا پرچار کرتا ہے۔ یہاں ایک موقع پر سارتر سماجی حقیقت پسندی کے اخلاقی نظریے کی توثیق کرتا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ کہتا ہے کہ نثر اپنی اصل میں افادی ہے، اور نثرنگار اس عزم کے ساتھ لکھتا ہے کہ مناسب لفظوں میں حقیقت بیان کررہا ہے، ایک نثرنگار ہی جانتا ہے کہ الفاظ اعمال ہیں کہ ان کا انکشاف انقلاب ہے۔ سارتر نثرنگار کے لفظوں کو بھری ہوئی پستول قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک ذمہ دار مصنف وہ ہوتا ہے کہ جب وہ بولتا ہے گولیاں برساتا ہے، وہ ایک مرد کی طرح اپنے ہدف کو تاک کرنشانہ بناتا ہے، نہ کہ کسی بچے کی طرح آنکھیں بند کرکے اپنی خوشی کے لیے اندھا دھند فائر کرتا ہے۔ مختصراً نثرنگار وہ ہوتا ہے جو تصور کی بھول بھلیوں سے بچا رہتا ہے تاکہ دوسرے انسانوں پر پوری ذمہ داری سے حقیقت آشکار کرسکے۔
نثر شاعری سے اس طرح ممتاز ہے کہ یہ ہمیں تخیلاتی فریب کے اندھیروں سے نکلنے کی دعوت دیتی ہے، ایک شفاف اور منعکس ہوتے ہوئے شعور کی جانب۔ صرف نثری ادب ہے جو ہمیں اخلاقی طور پر ابھار سکتا ہے، سیاسی جدوجہد پر مائل کرسکتا ہے۔ یہاں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارتر ایڈونو کی اس بات کی توثیق کررہا ہے کہ کونسنٹریشن کیمپ کے بعد شاعری جواز کھو بیٹھی۔
(جاری ہے)