برطانوی سیاست کے بدلتے رجحانات

سوشل میڈیا کے مقابلے میں روایتی میڈیا کی بے اثری کا خوف

برطانیہ کے مقامی کونسلز کے انتخابات نے برطانیہ میں سیاست کے بدلتے رجحانات کی واضح تصویرپیش کردی ہے۔ یہ انتخابات نہ صرف ٹیسٹ کیس تھے بلکہ ان کے نتائج نے برطانوی اسٹیبلشمنٹ کو بھی حیران کردیا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب مقامی کونسلز کے انتخابات مقامی مسائل کے بجائے بین الاقوامی سیاست کی بنیاد پر لڑے گئے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ 9/11 کے بعد سے مغرب میں مسلمانوں کے خلاف پیدا شدہ بیانیہ، نفرت، اشتعال اور توہین آمیز سلوک ہے جس کو ایک طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد اسلامو فوبیا کے نام سے پہچان تو دے دی گئی لیکن تاحال مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے ان اقدامات کا کوئی سدباب نہ کیا جاسکا، اور اس پر مستزاد مسلمانوں کے دنیا بھر میں قتلِ عام کے خلاف بلند آوازوں کو مغرب میں دبانے، اس کو شدت پسندی کا رنگ دینے، اور اس سے بڑھ کر اسے کسی دوسرے مذہب کے خلاف نفرت کے بیانیے میں بدلنے کو مغرب میں رہنے والے مسلمان کڑوا گھونٹ سمجھ کر پیتے تو رہے لیکن ان اقدامات نے انہیں اس بات پر تقریباً آمادہ کردیا ہے کہ انہیں اب اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرنا، اور اس کے خلاف مغرب کی جمہوری اقدار کے اندر رہ کر جدوجہد کرنی ہے۔ گوکہ یہ ایک طویل سفر تھا اور اس میں ایک طویل عرصہ درکار تھا، لیکن 7 اکتوبر 2023ء کے بعد سے اسرائیل فلسطین تنازعے کی نئی جہت نے گویا سالوں کا سفر دنوں میں طے کرلیا۔ اسرائیل کی جانب سے تادم تحریر 35 ہزار مسلمانوں کو جس طرح حصار میں لے کر قتل کیا گیا اس کی مثال مہذب دنیا میں ملنا ناممکن ہے، گوکہ یہ کام افغانستان و عراق میں بھی ہوا لیکن وہ ایک بڑا خطہ تھا کہ جہاں نقل و حرکت نسبتاً آسان تھی، لیکن 42 کلومیٹر کے ایک علاقے میں کہ جہاں چاروں جانب سے حصار میں لے کر نسل کُشی کی گئی، اس کی ہی بنیاد پر عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو نسل کُشی کا ذمہ دار قرار دیا۔ اس تمام ترتناظرمیں ایک جانب شدت پسندی کی نئی تعریف کا کام بیوروکریٹس پر مشتمل تھنک ٹینک کو دے دیا گیا، تو دوسری جانب اب برطانوی پالیسی ساز اداروں کی جانب سے یہ انکشاف اخباری رپورٹس کی صورت میں سامنے آرہا ہے کہ اِس سال ہونے والے انتخابات میں روس اور چین سوشل میڈیا کے ذریعے برطانوی سیاست پر اثرانداز ہونے اور معاشرے میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس بات کا انکشاف برطانیہ کے مؤثر ترین اخبارات میں سے ایک ’سنڈے ٹیلی گراف‘ نے 19 مئی 2024ء کی اشاعت میں کیا۔ اخبار نے برطانیہ کے پالیسی ساز اداروں Whitehall کا نام لے کر کہا ہے کہ اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ روس اور چین سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا کرکے برطانیہ کے انتخابات پر اثرانداز ہوں گے۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا کے حوالے سے دو واقعات کا حوالہ اہم ترین ہے، ایک برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی اور دوسرا ٹرمپ کا امریکہ میں صدر منتخب ہونا۔ ان دونوں واقعات پر برطانوی ادارے Cambridge Analytica نے طویل ترین ریسرچ کے بعد یہ بات کی ہے کہ ان دونوں واقعات کے پیچھے سوشل میڈیا کا کردار تھا کہ جس نے نہ صرف لوگوں کی سوچ تبدیل کی بلکہ سوشل میڈیا کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے گمراہ کن پروپیگنڈا کیا گیا۔ اخبار نے مختلف سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس کا حوالہ دے کر یہ بات کی ہے کہ کس طرح فلسطین اسرائیل تنازعے کو گمراہ کن پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ برطانوی اعلیٰ ترین حکام کون ہیں جنہوں نے محض اسی اخبار کو یہ خبر دی، اس حوالے سے اخبار خاموش ہے، تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس خبر کی اشاعت کے بعد سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق عوام تک براہِ راست دورانِ جنگ پہنچائے گئے کہ جس نے روایتی میڈیا کی اثرپذیری کو تقریباً ختم کردیا۔ سوشل میڈیا نے اس جنگ میں حقائق کا وہ رخ دنیا کو دکھایا جوکہ اس سے قبل دنیا کی آنکھ سے اوجھل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے ’الجزیرہ‘ کے صحافیوں کو چن چن کر قتل کیا گیا، اس کے بعد الجزیرہ کے غزہ میں موجود دفتر کر تباہ کیا گیا، اسی پر بس نہ کیا گیا بلکہ اسرائیل نے الجزیرہ کی نشریات پر اسرائیل میں پابندی عائد کردی۔ اظہارِ رائے کی اس سنگین ترین خلاف ورزی پر حیرت انگیز طور پر پوری دنیا خاموش ہے، اگر یہی کام کسی اور ملک میں کیا جارہا ہو جیسا کہ چین یا ایران تو اس پر پورا مغرب ایک طوفان برپا کردیتا ہے، لیکن الجزیرہ کے معاملے پر مغرب میں قبرستان جیسی خاموشی ہے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ مغرب اپنے اقتدار کی گرفت پوری دنیا پر مضبوط کرنے کے لیے جو جو اقدام کررہا ہے اس پر اُسے خود مغرب میں شدید تنقید کا سامنا ہے اور اس کے نتیجے میں حکومت کی ہر روز سبکی ہوتی ہے۔ فلسطین میں جنگ بندی پر برطانیہ میں دونوں جماعتوں کا خاموش اتحاد تھا کہ اس پر قرارداد منظور نہیں ہونے دینی ہے، لیکن اسکاٹش نیشنل پارٹی کی قرارداد پر عوامی دباؤ کے نتیجے میں دونوں پارٹیاں بالآخر اس بات پر مجبور ہوئیں کہ جنگ بندی کی قرارداد کی حمایت کی جائے۔ جمہور کی یہ آزادی اب مغرب میں چہار جانب حکمرانوں کو چیلنج کررہی ہے۔ سڑکوں پر احتجاج سے لے کر پارلیمان اور اب نئے انتخابات… یہ وہ مظاہر ہیں کہ جن کے متوقع نتائج سے خوف زدہ ہوکر نت نئے حربے آزمائے جارہے ہیں۔ ابھی شدت پسندی کی نئی تعریف اور اس پر چارج فریم کرنے کا کام عملاً پولیس سے نکل کر بیوروکریسی کے پاس جا چکا ہے۔ اسی طرح اب شدت پسندی کو بنیاد بناکر سوشل میڈیا پر قدغن لگائی جائے گی۔ اس کا عملی کام یعنی قانونی فریم ورک مکمل ہے۔ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا کام Ofcom کے سپرد کردیا گیا ہے جوکہ اس سے قبل ٹیلی ویژن اور ریڈیو کو ریگولیٹ کرتا تھا۔ اس ضمن میں پہلا قانون بھی جاری کردیا گیا ہے جوکہ بچوں کی سوشل میڈیا کے مواد تک رسائی کے حوالے سے ہے۔ اب متوقع طور پر انتخابات میں روس و چین کی جانب سے متوقع پروپیگنڈے، معاشرے میں تقسیم اور انتخابی نتائج و عوامی رائے پر اثرانداز ہونے کی بناء پر سوشل میڈیا پر بھی شدت پسندانہ مواد کے حوالے سے پابندی عائد کی جائے گی۔ شدت پسندی اور اس مواد کے تجزیے و تعریف کا تمام تر کام تھنک ٹینک انجام دے گا۔

یہ سب اگر ایسا ہی ہے تو چند سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں۔ اگر روس و چین کی پروپیگنڈا مشین اتنی ہی جان دار ہے تو پھر مغرب کو پروپیگنڈے میں ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ سوشل میڈیا کی بنیاد پر نفرت انگیز مواد کو پوری دنیا بالخصوص پاکستان میں پھیلانے پر جن افراد کے خلاف خود حکومتِ پاکستان نے کارروائی کی درخواست متعدد بار برطانوی حکام کو کی ہے اس پر کیا ایکشن لیا گیا؟ یہی نہیں بلکہ خود الطاف حسین کے خلاف تشدد پر اکسانے کے کیس کو ویڈیو ثبوتوں کے باوجود بھی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ یہی کام اگر مبینہ طور پر روس و چین کریں تو یہ ناجائز ہے ورنہ جائز؟

آئندہ آنے والے انتخابات اس حوالے سے اہم ترین ہیں کہ برطانیہ کی تاریخ میں شاید پہلی بار مسلمانوں کو اپنے ووٹ کی قوت کا اندازہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں مسلم آزاد امیدوار احمد یعقوب نے میئر کے الیکشن میں 69 ہزار سے زائد ووٹ لے کر سب کو حیرت زدہ کردیا۔ احمد نے اپنی پوری انتخابی مہم سوشل میڈیا پر چلائی تھی، گوکہ وہ کامیاب نہ ہوسکے لیکن لیبر پارٹی کے امیدوار محض 1500 ووٹ سے میئر کا الیکشن جیت پائے۔ اسی طرح نارتھ ویسٹ میں واقع مانچسٹر سے لے کر لندن تک سب جانب اسی کی بازگشت ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ اب کسی پارٹی کا نہیں بلکہ اس کے لیے تمام ووٹ لینے والوں کو جواب دہ ہونا ہوگا۔ اور غزہ کا مسئلہ سب کے لیے اہم ترین ہے جس پر وہ اپنی سابقہ پارٹیوں سے جن کو وہ ووٹ دے چکے ہیں، جواب مانگتے ہیں۔ برطانوی سماج گوکہ ایک متنوع سماج ہے لیکن اس میں اب مکمل تفریق نظر آرہی ہے، اور یہ تفریق محض رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ اصولوں کی بنیاد پر ہے جس کو برطانوی اسٹیبلشمنٹ مذہب کا رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے، اور وائٹ ہال کا یہ تجزیہ بھی دراصل اسی جانب اشارہ کررہا ہے۔ برطانیہ کی بدلتی سیاست میں اب مسلم ووٹرز کا جھکاؤ سوشلسٹ نظریات رکھنے والوں کی جانب ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں لیبر و حکمران جماعت کنزرویٹو نے اس پورے عرصے میں نہ صرف مسلم ووٹرز کو مایوس کیا بلکہ معیشت کے حوالے سے دونوں کی پالیسیوں میں بھی کوئی خاص فرق نہیں، جس کے باعث برطانیہ کی معاشی صورتِ حال بدترین ہوتی جارہی ہے۔ اس بدترین صورتِ حال میں کہ جہاں عوام پر مہنگائی کا پہاڑ توڑ دیا گیا ہے، معیشت میں سرمائے کی کمی ہے وہیں حکومتِ برطانیہ یوکرین اور اسرائیل کی فوجی امداد پر خطیر رقم خرچ کررہی ہے جس کے باعث اب صحت کا شعبہ بھی شدید متاثر ہے اور عوام میں انتہائی غم و غصہ ہے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر روس اور چین نہیں بلکہ عوام خود دونوں سیاسی پارٹیوں سے شدید مایوس ہیں اور سوشل میڈیا کا استعمال کرکے اپنا نقطہ نظر واضح کررہے ہیں۔ دو پارٹیوں کی حکمرانی کا خاتمہ اگر ہوتا ہے تو برطانیہ میں پس منظر میں رہ کر کام کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے نتیجے میں اب دو پارٹی کنٹرول کے بجائے اس نمائندگی میں کئی اور عناصر موجود ہوں گے۔ یہ سب کچھ پیش بندی ہے تاکہ برطانیہ میں آئندہ انتخابات میں ہنگ پارلیمان سے بچا جاسکے۔ ہنگ پارلیمان کے نتیجے میں دونوں جماعتوں کی پالیسیوں سے نفرت کرنے والوں کو جگہ ملے گی اور وہ جس کے ساتھ جائیں گے وہی حکومت بنائے گا۔ نتیجتاً ان کے ایجنڈے کو بھی پورا کرنا پڑے گا جس کے بعد پس منظر میں کام کرنے والوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

برطانیہ و مغرب میں جمہور کی آزادی ایک نئے دور کا آغاز کررہی ہے۔ امریکہ کی معتبر ترین درسگاہوں کے باہر آزادیِ اظہار رائے کو جس طرح غنڈہ گردی سے کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے کیا ایسی ہی کوشش برطانیہ میں ہوگی؟ شاید برطانیہ اس نہج پر جانے سے قبل ہی قوانین میں ردوبدل کے بعد اس کو کسی اور طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس میں مقتدرہ کس حد تک کامیاب ہوگی یہ اہم ترین سوال ہے، لیکن اگر جمہور کی آزادی پر کسی طور قدغن کی مزید کوشش کی گئی تو آئندہ آنے والے انتخابات کے نتائج مزید حیران کن بھی ہوسکتے ہیں۔