ہمارا قومی مرض

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زندگی ’’اذیتوں کی الف لیلیٰ‘‘ کیوں بن گئی ہے

دُنیا کے دوسرے بہت سے معاشروں کی طرح اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی زندگی اذیتوں کی الف لیلہ بن گئی ہے۔ اس ہزار داستان میں ایک کہانی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کہانی نکلی چلی جاتی ہے۔ اخبارات میں روز درجنوں ایسی کہانیاں شائع ہوتی ہیں۔ کہانیوں کے عنوانات مختلف ہوتے ہیں لیکن مواد تقریباً یکساں ہوتا ہے اور ان سے نتیجہ بھی تقریباً یکساں ہی برآمد ہوتا ہے۔

چند سال پیشتر اخبارات میں ایک ایسی ہی کہانی شائع ہوئی۔ یہ کراچی کے 13 سالہ رضوان کی کہانی ہے۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق رضوان کو پولیس نے کچھ روز قبل چار مسلح دہشت گردوں کے ہمراہ حراست میں لیا تھا۔

رضوان کی کہانی صرف اتنی سی ہے کہ وہ ایک افلاس زدہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی ماں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی اور باپ ہیروئن کی لت میں مبتلا ہوکر سڑکوں پر پھرنے لگا۔ رضوان نے بتایا کہ میں اکیلا تھا اور ’’طاقتور‘‘ بننا چاہتا تھا، اس لیے میں نے کلاشنکوف رکھنے والے برے لوگوں سے دوستی کرلی جو میرے لیے ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ میں ان کی کلاشنکوف ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کرتا، اُن کے لیے چائے بناتا اور دوسرے کام کرتا۔ اس کے عوض مجھے چند سو روپے یومیہ ملتے۔ رضوان دہشت گردوں کے لیے مخبر کا کام بھی کرتا تھا اور اس کی اطلاع پر مشتبہ لوگوں کو ٹھکانے لگایا جاتا تھا۔ پولیس کے بقول ایسے بہت سے لڑکے دہشت گردوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر ہارون نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان لڑکوں کے نزدیک بندوق کی نال طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ مرحوم عبدالستار ایدھی نے کہا کہ آج کے محروم اور نظر انداز کیے گئے لڑکے کل کے دہشت گرد ہو سکتے ہیں۔

رضوان کی کہانی میں کوئی نئی بات نہیں سوائے اس کے کہ اس کہانی سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ ہمارے معاشرے کی بنیادی ساخت میں اتھل پتھل واقع ہو چکی ہے اور طاقت کا اصول معاشرے کا واحد اصول بن چکا ہے۔ معاشرے میں طاقت کے اصول کی مکمل بالادستی کی بات بھی کوئی انکشاف نہیں، البتہ یہ پہلو اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ ہم یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ہمارا معاشرہ طاقت پرستی کا دیوانگی کی حد تک شکار ہوچکا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ حالات برے ہیں لیکن ہم بہرحال ایک اسلامی جمہوریہ ہیں جس کی کچھ اعلیٰ اقدار ہیں، جو بعض اعلیٰ تصورات پر یقین رکھتا ہے۔

گویا اوّل تو ہم حقیقت ہی کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، اور اگر آمادہ ہوتے بھی ہیں تو صورتِ حال کا سطحی تجزیہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ہارون کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ رضوان جیسے لڑکوں کے لیے بندوق طاقت کے حصول کا ذریعہ ہے، لیکن یہ مسئلہ رضوان یا اُس جیسے لڑکوں کا مسئلہ تو نہیں ہے۔ کون ہے جسے بندوق کی نال کی طاقت درکار نہیں! یہ مسئلہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ طاقت کو بندوق کی نال تک محدود کرنا درست نہیں۔ اصل مسئلہ تو طاقت ہے اور معاشرے میں طاقت کے حصول کے مختلف ذرائع ہیں۔ اقتدار، دولت، رسوخ… یہ طاقت کے وہ سرچشمے ہیں جو بندوق پر بھی حکمرانی کرتے ہیں۔

ٹھیک ہے محرومی انسان کو طاقت کے حصول کی جانب دھکیلتی ہے، لیکن ہمارے یہاں لفظ ’’محرومی‘‘ کا تجزیہ بھی درست نہیں کیا جارہا۔ محرومی کی ہمیشہ دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک حقیقی محرومی ہوتی ہے اور ایک نفسیاتی محرومی۔ حقیقی محرومی کا علاج ممکن ہے لیکن نفسیاتی محرومی کا علاج ممکن نہیں۔ یہ درست ہے کہ حقیقی محرومی اگر تادیر برقرار رہے اور نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جائے تو پھر وہ ایک نفسیاتی محرومی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن بہرحال یہ محرومی اقدار کے تصور سے عاری ہوجانے کی صورت ہی میں برقرار رہتی ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت معاشرے میں جو فساد برپا ہے اس میں حقیقی محروموں کا حصہ بہت کم ہے اور نفسیاتی محرومین اس کے زیادہ ذمے دار ہیں۔ یہ میاں نوازشریف، یہ شہبازشریف، یہ مریم نواز، یہ عمران خان، یہ بیوروکریٹس، یہ جنرلز، یہ جھوٹ کو سچ کر دکھانے والے صحافی، یہ انصاف کا کاروبار کرنے والے جج، یہ مجرم اور جرم ایجاد کرنے والے پولیس اہلکار، یہ دین کے نام پر فساد برپا کرنے والے علما… سب نفسیاتی محرومین ہیں۔ ان کی بھوک کبھی نہیں مٹ سکتی، ان کی محرومی کبھی دور نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ ان کی زندگی کا بنیادی اصول ھل من مزید بن چکا ہے۔

طاقت ہر معاشرے میں اور ہمیشہ اہم رہتی ہے، اور آج بھی کون سا معاشرہ ہے جس میں طاقت اہمیت نہیں رکھتی! لیکن معاشرے میں طاقت کا اہم ہونا اور طاقت کا واحد اصول بن جانا دو مختلف باتیں ہیں۔ طاقت کے اصول بن جانے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں زندگی بسر کرنے کا ہر دوسرا اصول شکست کھا چکا ہے یا غیر مؤثر ہوگیا ہے۔ لیکن طاقت بھی معاشرے میں اصول کب بنتی ہے؟ طاقت معاشرے میں اصول اُس وقت بنتی ہے جب گلی کی سطح پر 13 سالہ رضوان کو یہ تجربہ ہوجاتا ہے کہ اصل طاقت اُس کے پاس ہے جس کے پاس بندوق ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کا ذمے دار کون ہے؟ محمد رضوان بہرحال اس کا ذمے دار نہیں ہے۔ اس کے ذمے دار نفسیاتی محرومین ہیں، ایک نہیں سب کے سب جنہوں نے اعلیٰ ترین سطح اور گلی کے تجربے کو یکساں کردیا ہے۔

انسان میں حریفانہ کردار کا غیر معمولی مادہ پایا جاتا ہے، لیکن جب تک معاشرے میں اخلاق اور تہذیب کی قوت کام کرتی رہتی ہے، معاشرہ دلیل کی زبان میں بات کرتا رہتا ہے۔ لیکن معاشرے میں اخلاق اور تہذیب کی قوت کے کمزور پڑتے ہی طاقت کا اصول مستحکم ہونے لگتا ہے۔ معاشرے میں دلیل کے ذریعے ابلاغ کا مفہوم یہ ہے کہ ایک فرد دوسرے فرد کی رائے کو دلیل کے ذریعے شکست دے سکتا ہے اور اسے ختم کرسکتا ہے، لیکن طاقت کے اصول کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسرے کی دلیل کو نہیں خود دوسرے ہی کو ختم کرنے کے درپے ہوگیا ہے۔

محمد رضوان نے کہا ہے کہ اس نے محسوس کیا کہ وہ تنہا ہے اور اسے طاقتور بننا ہے۔ ہم میں سے کروڑوں لوگ یہی محسوس کرتے ہیں کہ وہ تنہا ہیں اور انہیں طاقت حاصل کرنی چاہیے۔ کچھ لوگ طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کچھ ناکام رہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ طاقت حاصل کرلیتے ہیں اُن کا خوف بھی کم نہیں ہوتا۔ وہ پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ طاقت کا مسئلہ ہی یہ ہے۔ وہ فرد کا احساسِ عدم تحفظ بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ عدم تحفظ کے احساس کے بڑھنے کے نتیجے میں انسان مزید طاقت حاصل کرتا ہے۔ یوں ایک کبھی نہ ختم ہونے والا شیطانی کھیل شروع ہوجاتا ہے، ایسا کھیل جو معاشروں اور قوموں کو فنا کردیتا ہے۔

مرض کا علاج مرض کو مرض تسلیم کرنے سے شروع ہوتا ہے، بلکہ مرض کو مرض تسلیم کرلینا نصف علاج کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں طاقت کے اصول کے پھیلائو کو روکنا ہے تو پہلے مرحلے میں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم طاقت پرستی کی دیوانگی میں مبتلا ہوچکے ہیں۔