ڈی چوک: غزہ بچائو دھرنا

تیز رفتار گاڑی کی چڑھائی… حادثہ یا حملہ؟

ڈی چوک بھی غزہ کے شہیدوں کی یاد میں خون میں نہا گیا۔ غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل کی بدترین بم باری، اور ناجائز مسلط کی جانے والی جنگ کے خلاف ڈی چوک میں ’’سیو دی غزہ‘‘ تنظیم کے کارکنوں نے پُرامن دھرنا دے رکھا تھا، یہ دھرنا پہلے روز سے ہی کسی نہ کسی آنکھ میں کھٹک رہا تھا، اب اس دھرنے کے شرکاء میں دو اُس وقت شہید اور متعدد زخمی ہوگئے جب ایک تیز رفتار کار دھرنے کے شرکاء پر چڑھ دوڑی۔ یہ کوئی سازش یا منصوبہ بندی تھی یا اتفاقیہ حادثہ، اس بارے میں پولیس کی تفتیش مکمل ہونے تک کچھ کہنا مشکل ہے، تاہم اسلام آباد اب ایک ایسا شہر بن گیا ہے جس میں رات کے وقت اور خصوصاً رات کے آخری پہر نودولتیوں کی بگڑی اولادیں قیمتی گاڑیوں میں گھومتی ہیں، اور تیز رفتار گاڑی چلانے کے مقابلے ہوتے ہیں۔ ایک نوجوان چند ماہ قبل 220 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوکر جان کی بازی ہار چکا ہے، اس سے پہلے اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر دو نوجوان 196 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے خود بھی جان سے گئے اور سامنے سے آنے والی گاڑی کے دو سواروں کی جان بھی لے گئے، ایک ہیوی بائیک چلانے والا نوجوان بھی اپنی جان کی بازی ہار چکا ہے۔ یہ محض تین واقعات نہیں، ہر روز رات کے آخری پہر اسلام آباد کی شاہراہوں پر تیز رفتار موٹر سائیکل اور گاڑیاں چلانے کے شغل ہوتے ہیں اور پولیس ان کے سامنے بے بس ہے۔ یہ تیز رفتاری دو ایسی قیمتی جانیں لے گئی ہے جو اسرائیل کے ہاتھوں شہید اور زخمی ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کا مظاہرہ کررہی تھیں اور دنیا کی آنکھیں کھولنے کی کوششوں میں مصروفِ جدوجہد تھیں۔ اگرچہ تھانہ کوہسار پولیس نے زیر حراست کار سوار ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم بلال کی گاڑی کی ٹکر سے رومان ساجد اور نامعلوم شخص جاں بحق ہوئے، جبکہ 3افراد فیصل حیات، طلحہ الیاس اور حماد شدید زخمی ہوگئے۔ ملزم غفلت اور تیز رفتاری کا مرتکب ہوا۔ یہ واقعہ اسلام آباد میںجماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی قیادت میں ڈی چوک میں جاری ’’سیو غزہ‘‘ کیمپ میں بیٹھے مظاہرین کے ساتھ ہوا۔ ڈی چوک میں غزہ بچاؤ مہم کے شہید کارکن رومان ساجدکی نماز جنازہ ادا کی گئی جو مشتاق احمد خان نے پڑھائی، جب کہ دھرنے میں پی ٹی آئی کا وفد بھی مقامی رہنما عامر مغل کی قیادت میں پہنچا۔ شہیدکارکن کی نمازِ جنازہ میں طہٰ بن جلیل، حامد میر، مفتی سید عدنان کاکاخیل، ناظم اعلیٰ مسلم اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن، جماعت اسلامی ضلع اسلام آباد کے امیر نصراللہ رندھاوا، تاجر رہنما کاشف چودھری سمیت دیگر رہنماؤں اور مختلف شخصیات نے شرکت کی۔ بیشتر شخصیات کا خیال ہے کہ غزہ بچاؤمہم کے کارکنان پر حملہ پولیس کی سہولت کاری میں ہوا، وفاقی حکومت اور اسلام آباد پولیس اس حملے کے ذمہ دار ہیں۔ ڈی چوک میں احتجاجی جلسہ بھی ہوا جس سے سابق سینیٹر مشتاق احمدخان نے خطاب کیا اورکہا کہ آٹھ دنوں سے پُرامن دھرنا جاری ہے، کوئی شیشہ، ایک گملا تک نہیں ٹوٹا، اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ سیکورٹی فراہم کرتے مگریہ تو جرم میں سہولت کار بن گئے، جب حملہ ہوا پولیس موجود تھی، حملہ آور کی گاڑی کا ٹائر برسٹ کیوں نہیں کیا گیا؟ غزہ میں نسل کُشی، پندرہ لاکھ انسانوں کے اسرائیلی محاصرے اور رفح آپریشن رکوانے کے لیے یہ دھرنا جاری رہے گا، پُرامن تھے پُرامن رہیں گے، کارکنان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس موقع پر نوجوانوں نے الجہاد الجہاد کے نعرے لگائے۔

واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر سیو دی غزہ کے نام سے دھرنا دیا جارہا ہے۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کم و بیش تین بجے یہ واقعہ پیش آیا، حادثے کے بعد گاڑی خاردار تار میں پھنس گئی جس کی وجہ سے مزید دو افراد زخمی ہوئے۔ کار ڈرائیور نے گاڑی بعد میں بھگانے کی کوشش بھی کی لیکن تار کے باعث گاڑی رک گئی۔ اس گاڑی کے ڈرائیور نے بعد ازاں پیدل بھاگنے کی کوشش کی۔اس وقت بلیو ایریا میں جائے حادثہ پر پولیس پہلے سے موجود تھی۔ شہید ہونے والے کارکن رومان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور شہید کی میت اُن کے آبائی علاقے آزاد کشمیر بھجوا دی گئی، شہید رومان اسلامی یونیورسٹی میں اصول الدین کے طالب علم تھے۔ دوسرے شہید ہونے والے کارکن کی میت کو لواحقین کے حوالے کیا جائے گا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ دھرنے میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان بھی موجود تھے جو حادثے سے بال بال بچ گئے۔مشتاق احمد خان نے کہا کہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا وہ بھی کیمپ کے قریب موجود تھے۔انہوں نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور قاتل کو گرفتار کرنے پر زور دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سیو غزہ کیمپ پر گاڑی چڑھا دی گئی، اس خونِ ناحق کے ذمہ دار شہبازشریف اور اسلام آباد پولیس ہیں۔ آٹھ روز سے جاری پُرامن دھرنے پر سوچی سمجھی سازش کے تحت حملے کے منصوبہ سازوں کو گرفتار کیا جائے۔ موقع پر موجود پولیس کی مجرمانہ خاموشی پر کارروائی کی جائے اور حملے کی ایف آئی آر کاٹ کر اصل ملزمان کو بھی گرفتار کیا جائے۔ یہ کوئی سیاسی دھرنا نہیں ہے۔ سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ میں تمام سیاسی کارکنوں، طلبہ اور خواتین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، سیو غزہ کمپین کا مقصد غزہ کو بچانا ہے، نومبر سے سیو غزہ کمپین جاری ہے، غزہ میں ڈیڑھ لاکھ لوگ بھوک کا شکار ہیں، ایک لاکھ فلسطینی زخمی ہیں۔ احتجاجی جلسے میں نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمداسلم بھی شریک ہوئے۔ پی ٹی آئی رہنما عامر مغل نے سیو غزہ کمپین کے دھرنے میں کہا کہ اس مہم کا مقصد غزہ کے لوگوں کے لیے آواز اٹھانا ہے، غزہ کے عوام کے لیے آواز اٹھانا ظلم بن گیا ہے، غزہ کے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانا اس حکومت میں مشکل ہوگیا ہے، گزشتہ رات دو نوجوان کو شہید کیا گیا ہے، قوم کو بتائیں وہ کون شخص ہے جس نے تاریکی میں دو نوجوانوں کو شہید کیا؟ کار ڈرائیور کی شناخت کو کیوں چھپایا جارہا ہے؟

بہرحال دھرنے کے منتظمین میں سے ایک خاتون حمیرہ طیبہ نے اس واقعہ سے متعلق پولیس میں درخواست دی کہ وہ ڈی چوک میں 13 مئی سے سیو دی غزہ دھرنا دیے ہوئے ہیں، گزشتہ رات تین بجے کے قریب ایک تیز رفتار کار بلیو ایریا کی جانب سے آئی اور کار سوار نے دھرنے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو کچل دیا جس کے نتیجے میں رومان ساجد اور ایک بزرگ کارکن شہید ہوگئے اور تین کارکن فیصل حیات، طلحہ الیاس اور حماد شدید زخمی ہوئے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ کار سوار کو تیز رفتاری کے ساتھ دھرنے کے شرکاء کی جانب بڑھتے ہوئے دو گواہوں عبید شوکت اور عمیر صدیقی نے خود دیکھا۔ درخواست میں کہا گیا کہ پولیس کی موجودگی کے باوجود کار سوار ملزم فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ درخواست میں وزیر داخلہ، سیکرٹری داخلہ اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملزم کو گرفتار کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان عامر بلوچ نے بیان جاری کیا اور الزام لگایا کہ ڈی چوک دھرنے پہ رات کی تاریکی میں ہونے والے حملے کے پیچھے منصوبہ بندی ہے۔ کار سوار منصوبہ بندی سے آیا تھا اور اس کا ہدف سابق سینیٹر مشتاق احمد تھے جو اس جان لیوا حملے میں بال بال بچے۔