جامعات میں مظاہروں اور اظہارِ رائے پر پابندیوں سے خود امریکہ کے سنجیدہ عناصر کو بھی تشویش ہے
گزشتہ ہفتے مقبوضہ فلسطین میں تین تہوار منائے گئے۔ قیام اسرائیل کی 76 ویں سالگرہ جو فلسطینیوں کے لیے ایک بھاری آفت کی برسی تھی۔ غزہ پر حالیہ حملے کے فوراً بعد شایع ہونے والے کالم میں ہم نے قبضے کی واردات کا تفصیلی ذکر کیا تھا جب برطانوی فوج کی مدد سے 12لاکھ فلسطینیوں کو کھلی چھت (Open Air) کے اس عظیم الشان جیل خانے میں ٹھونس دیا گیا جسے دنیا غزہ کے نام سے جانتی ہے۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں کی 2 کروڑ مربع میٹر اراضی ہتھیا لی گئی۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948ء کو مکمل ہوا جسے یہ مظلوم ’یوم النکبہ‘ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ یہودی رہنما ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔ اُس وقت ہیری ٹرومین امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونسٹ رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔ پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’اسرائیل کوئی ریاست نہیں بلکہ فلسطینیوں کے قلب میں گھونپا گیا سامراجی خنجر ہے۔‘‘
قیامِ اسرائیل اور یوم النکبہ سے تین دن پہلے 12 مئی کو فلسطین پر قبضے کے دوران مارے جانے والے جارح سپاہیوں کی یاد میں یوم ذکر(Yom HaZikaron) یا میموریل ڈے منایا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نیتن یاہو کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جیسے ہی فوجی قبرستان میں داخل ہوئے ’’اسرائیلی بچوں کا قاتل مُردہ باد‘‘، ’’ہمارے قیدی واپس لائو‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے ان کا استقبال ہوا۔ مظاہرین نے اسرائیلی پرچموں پر7:10لکھا ہوا تھا یعنی ’’بی بی بقراطی چھوڑو اور 7 اکتوبر کی ذمہ داری قبول کرو۔‘‘
اس ہفتے جنوب میں رفح اور شمال میں جبالیہ اسرائیلی بمباروں کا خاص ہدف رہے۔ یہ دونوں مقامات کھنڈروں پر بسی خیمہ بستیاں ہیں، یعنی برباد و خراب حالوں کو پامال کرکے دادِ دلاوری وصول کی گئی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق روزانہ 74 مقامات پر بمباری کی جارہی ہے۔ ڈرون کے ذریعے میزائیل اور راکٹ حملے اس کے علاوہ ہیں۔ بمباری کا دائرہ غربِ اردن تک بڑھادیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے شمالی غربِ اردن کے علاقے جنین پر بمباری کی گئی۔ جنین بھی ایک خیمہ بستی ہے جہاں 37 مربع کلومیٹر رقبے میں 50 ہزار نفوس آباد ہیں، یعنی 13سو افراد فی مربع کلومیٹر۔ اس گنجان آبادی پر وحشیانہ بمباری سے جو تباہی آئی اس کی تفصیل یہاں لکھنے کی ہم میں ہمت نہیں۔
رفح کے حوالے سے صدر بائیڈن مسلسل بے نقاب ہورہے ہیں۔ اسرائیلی حملے کے ساتھ ہی امریکی صدرنے اعلان کیا کہ اسرائیل کو مہلک بموں کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے بائیڈن صاحب یہ بھی کہہ گئے کہ اگر اس پابندی کو معطل کرنے کے لیے کانگریس نے کوئی بل منظور کیا تو وہ اسے ویٹو کردیں گے۔ لیکن ابھی اس گھن گرج کی بازگشت باقی ہی تھی کہ اسرائیل میں امریکہ کے سفیر جیک لیو نے غبارے میں سوئی چبھودی۔اسرائیلی ٹیلی ویژن چینل 12 سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بہت صراحت سے وضاحت فرمائی کہ ’’امریکہ اسرائیل تعلقات اور عسکری تعاون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، بس High Payload بموں کی ترسیل ’مؤخر‘ کردی گئی ہے‘‘۔ ساتھ ہی جنابِ بائیڈن نے ایک ارب ڈالر مالیت کا اضافی اسلحہ فوری طور پر اسرائیل بھیجنے کے لیے کانگریس سے منظوری طلب کرلی۔ اس کھیپ میں ٹینک کے گولے، بلڈوزر، بکتر بند گاڑیاں اور توپ کے گولے شامل ہیں۔ جب کسی صحافی نے صدر کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیون سے پوچھا کہ رفح میں اس وقت آباد تمام کے تمام 12 لاکھ شہری خیموں میں مقیم ہیں اور ان بے آسرا و بے اماں نہتوں پر بمباری کو نسل کُشی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ توموصوف نے بہت ڈھٹائی سے کہا ’’غزہ میں انسانی جانوں کا زیاں افسوس ناک ہے، اسرائیل کو احتیاط کرنی چاہیے، لیکن اسے نسل کُشی نہیں کہا جاسکتا‘‘۔ یہی مؤقف عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) میں اسرائیل کے اٹارنی جنرل جیلاد نوم نے اختیار کیا۔ جنوبی افریقہ کے دلائل کے بعد جب انھیں طلب کیا گیا تو فاضل وکیل نے کہا ’’غزہ میں ’’افسوس ناک‘‘ جنگ ہورہی ہے، انسانی جانوں کا زیاں ایک المیہ ہے لیکن اسے نسل کُشی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
دوسری جانب بھرپور تشدد کے باوجود امریکہ اور یورپ کی طلبہ تحریک میں مزید شدت آرہی ہے اور طلبہ کامیابیاں بھی سمیٹ رہے ہیں۔ جامعہ ہیوسٹن میں مکڈونلڈ نے اپنے ریستوران بند کردیے جبکہ اسٹار بکس کافی کی دکان بھی بڑھتی نظر آرہی ہے۔ یہ امریکہ میں جلسہ ہائے تقسیم اسناد کا موسم ہے۔ تقریباً ہر جگہ طلبہ نے اسٹیج پر فلسطینی پرچم لہرائے اور فلسطین کوفیہ گلے میں ڈال کر اپنی اسناد وصول کیں۔ امریکی دارالحکومت کے قریب جامعہ ورجینیا دولت مشترکہ (VCU) میں طلبہ کے اعتراض کے باوجود ریاستی گورنر کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا۔ گورنر صاحب کی نگاہوں کو راحت پہنچانے کے لیے احتجاجی کیمپ بھی اکھاڑ دیے گئے، لیکن نوجوانوں نے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ جیسے ہی گورنر صاحب تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، طلبہ آزاد فلسطین کا نعرہ لگاتے ہوئے ہال سے باہرچلے گئے۔ ٹیکساس کے گورنر ایبٹ اسرائیل کے پُرجوش حامی ہیں۔ ان کے حکم پر ریاست کی تمام سرکاری جامعات میں مظاہروں کو کچلنے کے لیے نیم فوجی دستے تعینات کردیے گئے ہیں۔ ان ساری کوششوں کے باوجود دارالحکومت کی جامعہ آسٹن میں جلسۂ تقسیمِ اسناد کے دوران اسٹیج پر فلسطینی پرچم لہراتے رہے۔
خود صدر بائیڈن کو اُس وقت مشتعل طلبہ کا سامنا کرنا پڑا جب 19 مئی کو وہ تقسیمِ اسناد کے لیے ریاست جارجیا کے معروف مورہائوس کالج پہنچے۔ امریکی صدر جیسے ہی تقریر کے لیے چبوترے (پوڈیم) پر آئے، فضا ’’نہریا بحر فلسطین‘‘، “Genocide Joe” اور ’’غزہ خونریزی بند کرو‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس دوران صدر بائیڈن متانت سے مسکراتے رہے۔ انھوں نے نعرہ زن طلبہ کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ حقِ اظہارِ رائے کی حمایت کرتے ہیں۔ آپ کی بات سنی جارہی ہے۔ امریکی صدر نے زور دے کر کہا کہ غزہ میں مکمل اور فوری جنگ بندی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔
جامعات میں مظاہروں اور اظہارِ رائے پر پابندیوں سے خود امریکہ کے سنجیدہ عناصر کو بھی تشویش ہے۔ گزشتہ ہفتے ریاست اوہایو کی Franciscan University of Steubenville کے جلسۂ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے امریکی عدالتِ عظمیٰ کے قدامت پسند جج جسٹس سیموئیل الیٹو نے کہا کہ امریکہ میں اظہارِ رائے کی آزادی کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’خوبصورت کیمپس کے باہر امڈ آنے والے بحران نے ہمارے بنیادی اصولوں کو گہنادیا ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت خطرناک حد تک کم ہورہی ہے، خاص طور سے اُن مقامات پر جہاں اسے وسیع تر قبولیت ملنی چاہیے‘‘۔ جسٹس الیٹو 9 رکنی بینچ کے 5 قدامت پسند ججوں میں سے ایک ہیں۔ انھیں 2006ء میں صدر بش نے سپریم کورٹ کا جج نامزد کیا تھا۔
طلبہ تحریک کو سب سے بڑی کامیابی بیلجیم میں نصیب ہوئی جہاں جامعہ بیلجیم(UGent) نے اسرائیل کے تین تحقیقاتی اداروں Holon Institute of Technology، MIGAL Galilee Research Institute اور Volcani Center سے تعاون ختم کردیا۔ ان تینوں مراکز کا زرعی تحقیق کے حوالے سے اعلیٰ مقام ہے۔ جامعہ کے ریکٹر، رک وان ڈی وال (Dr Rik Van de Walle) نے ایک بیان میں کہا کہ یہ ادارے انسانی حقوق کے باب میں جامعہ بیلجیم کی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ (حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)
سیاسی و سفارتی محاذ پر بھی اسرائیل کو دبائو کا سامنا ہے۔ سوئیڈن کے دوسرے بڑے شہر گٹن برگ (Gothenburg) کے رئیسِ شہر (میئر) نے کونسل میں ایک تجویز پیش کی ہے جس کے تحت اسرائیل سمیت جبری قبضے پر قائم ریاستوں کی مصنوعات گٹن برگ میں فروخت نہیں ہوسکیں گی۔ بلدیاتی کونسلروں کے نام خط میں میئر ڈینئیل برنمر (Daniel Bernmar)نے کہا کہ گٹن برگ کے شہری قبضہ گردوں کو تجارت کے مواقع دینے کو تیار نہیں۔ (حوالہ: الجزیرہ)
اسپین کے وزیرخارجہ مینول الباریز نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کے لیے اسلحہ لے کر جانے والے جہاز ایندھن یا کسی دوسری سہولت کے لیے اسپین کی کسی بندرگاہ پر نہیں رک سکتے۔
غزہ تشدد کے خلاف کھیل کے میدانوں سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بینکاک میں ایشین فٹ بال کنفیڈریشن کے حالیہ اجلاس کے دوران فیفا (FIFA)سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ خیال ہے کہ فیفا کے آئندہ اجلاس میں اس تجویز پر رائے شماری ہوگی۔
رفح حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یورپی یونین کے سربراہ امورِ خارجہ جوزف بوریل نے کہاکہ اسرائیل رفح آپریشن فوراً ختم کردے۔ اگر کارروائی جاری رہی تو یورپی یونین کے اسرائیل سے تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی تشویش کا اظہار نیٹو، G-7 اوریورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے کیا جب اپنے اسرائیلی ہم منصب کے نام ایک مشترکہ خط میں برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، جنوبی کوریا، ڈنمارک، سوئیڈن، جاپان اور فن لینڈ کے وزرائے خارجہ نے رفح کارروائی روک کر انسانی امداد کے لیے مصر کا راستہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ تاہم یہ خط وصول ہونے سے پہلے ہی اسرائیلی وزیرخارجہ صاف صاف کہہ چکے تھے کہ ’’دنیا جو چاہے کہتی پھرے، دہشت گردوں کے مکمل استیصال سے پہلے اسرائیل جنگ بند کرنے والا نہیں‘‘۔
اب قیامِ امن کی آوازیں اسرائیل سے بھی اٹھ رہی ہیں۔ ہفتہ 18 مئی کو اہلِ غزہ سے یکجہتی کے لیے یروشلم میں اسرائیلی کنیسہ(پارلیمان) کے باہر زبردست مظاہرہ ہوا۔ لوگ بینر لیے کھڑے تھے جن پر عبرانی میں لکھا تھا ’’بچوں کو بھوکا مارنا سنگین جنگی جرم ہے‘‘۔ عین اسی وقت اسرائیل کے تیسرے بڑے شہر حیفہ میں سابق فوجیوں نے مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر جنگ بند کرو، ہمارے قیدی واپس لائو، نئے انتخابات کراکر (کرپشن کے الزام میں) جیل کی ہوا کھاؤ کے نعرے لگائے گئے۔
اعتدال پسند قوم پرست رہنما اور اسرائیلی مادرِ وطن پارٹی کے سربراہ ایوگدرلائیبرمین (Avigdor Lieberman) نے وزیراعظم نیتن یاہو، وزیردفاع یوف گیلینٹ اور فوج کے سربراہ جنرل حرزی حلوی کو غزہ مسئلے کا سرغنہ قرار دیتے ہوئے، تینوں Losersسے فوری استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ اور یورپ کے ساتھ اسرائیل سے اٹھنے والی آوازیں بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہورہی ہیں کہ یہ وزیراعظم نیتن یاہو کی سیاسی زندگی و موت کا معاملہ ہے۔ اس جنگ نے اسرائیلی وزیراعظم کو انتہائی غیر مقبول بنادیا ہے اور اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ بند ہوتے ہی نئے انتخابات کرانے ہوں گے جن میں جناب نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کی شکست یقینی ہے۔ بی بی اور اُن کی بی بی کے خلاف کرپشن کے کئی مقدمات زیرسماعت ہیں جن سے بچائو کے لیے موصوف نے بربنائے عہدہ حکم التوا (Stay order)لے رکھا ہے۔ وزیراعظم کی بددیانتی کے ایسے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ بی بی ایوانِ وزیراعظم چھوڑتے ہی زینتِ زنداں ہوجائیں گے۔ لبنان کے منارہ ٹیلی ویژن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بی بی کے لیے defeat or abyss (شکست اور کھائی) والی صورتِ حال ہے، یعنی اگر جنگ بندی قبول کرتے ہیں تو یہ ان کی کھلی شکست، جبکہ جنگ جاری رہنے کی صورت میں کھائی ان کا مقدر ہے‘‘۔
متکبر و مجرم پیشہ ٹولے کے عبرت ناک انجام کی نوید کانوں کو بھلی تو لگی، لیکن قطرے سے گُہر بننے کے سفر میں اہلِ غزہ اور فلسطینیوں پر جو گزر رہی ہے اسے دیکھنے اور پڑھنے کی تاب نہیں۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔