آئی ایم ایف کے ساتھ عوام کا خون چوسنے کے لیے مذاکرات
دو ہفتے کے بعد شہباز حکومت جسے ’’پی ڈی ایم ٹو‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، قومی اسمبلی میں اپنا پہلا وفاقی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے۔ بجٹ سے پہلے رکن قومی اسمبلی علی پرویز کو وزیر مملکت کا عہدہ دے کر حکومت ایک بڑی تبدیلی لے کر آئی ہے، اس کا دوسرا مطلب ہے کہ حکومت اپنے وزیر خزانہ اورنگ زیب کا بوجھ اٹھاکر اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے میں دقت محسوس کررہی تھی، اس لیے وزارتِ خزانہ میں ایک سیاسی چہرہ لایا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کی دستاویزات تیاری کے آخری مرحلے میں ہیں، اور عوام کو تھوڑا بہت ریلیف دینے کے لیے وزیر مملکت علی پرویز اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کمر کس چکے ہیں، تاہم آئی ایم ایف کی شرائط کے پیش نظر حکومت ترقیاتی منصوبوں کے لیے خاطر خواہ رقم مختص نہیں کرسکے گی۔ بجٹ سے قبل پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات کے بعد پالیسی سطح کے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں، دو مختلف بیل آؤٹ پیکیج پر بات چیت کے لیے آئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان پہنچ گئی ہے جو حکام سے بات چیت کررہی ہے اور ان مذاکرات کی روشنی میں ہی بجٹ تجاویز کو آخری اور حتمی شکل دی جائے گی۔ پالیسی سطح کے مذاکرات میں آئی ایم ایف کے ساتھ آئندہ کے لیے شرائط و اہداف طے کیے جائیں گے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات میں ایف بی آر ریونیو اور نان ٹیکس آمدنی کے آئندہ مالی سال کے اہداف طے کیے جائیں گے۔ پالیسی سطح کے مذاکرات کے اختتام پر نئے قرض پروگرام کے لیے معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔ معاشی ٹیم نے آئندہ مالی سال کے دوران بیرونی سرمایہ کاری یا رقم کے انتظام کے لیے ابتدائی تخمینہ 22 ارب ڈالر تک لگایا ہے۔ پانڈا بانڈز کا اجراء بھی آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط ہے۔ آئندہ مالی سال کے دوران حکومت کا ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد کے انٹرنیشنل سکوک بانڈز کے اجراء کا پلان ہے، دوست ممالک سے تقریباً 12 ارب ڈالر قرض رول اوور کروانا بھی آئی ایم ایف سے شیئر کردہ پلان کا حصہ ہے۔ اگر سب کچھ موافق حالات کے تحت طے ہوا تو پاکستان جولائی کے آخر تک آئی ایم ایف کے ساتھ نئے 8 ارب ڈالر کے معاہدے پر پہنچ جائے گا۔ وزارتِ خزانہ کا خیال ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران پانڈا بانڈز پہلی سہ ماہی کے دوران ہی جاری کیے جائیں گے۔ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے نئی فنانسنگ بھی پلان میں شامل کی گئی ہے۔
ملکی معیشت کے حوالے سے سب سے اہم خبر یہ ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے پنشن سسٹم کی اصلاحات پر زور دیا ہے، اور اس کی رائے میں اگر فوری اصلاحات نہ لائی گئیں تو یہ لاگت اگلے 10 سالوں میں 100 کھرب تک پہنچ جائے گی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان میں پنشن کا حجم مالی سال 2024ء میں 20 کھرب تک پہنچنے کی توقع ہے۔ یہ لاگت 03-2002ء میں 25 ارب تھی جو صرف 20 سالوں میں 15 کھرب سے زائد تک پہنچ گئی۔ پنشن اور انشورنس سسٹم کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ سرکاری عہدوں پر غیر فنڈ شدہ پنشن شامل ہیں، اور موجودہ ملازمین کی پنشن کی مالی اعانت ٹیکس آمدنی سے کی جاتی ہے۔
یہ تو بینک کی رپورٹ ہے، حقیقت یہ ہے کہ نجی شعبے کے کارکنوں اور مزدور یونینوں کے اراکین کے لیے فنڈڈ پنشن دستیاب ہے، تاہم آبادی کا ایک اہم حصہ پنشن کی کوریج سے محروم ہے اور ان کا مکمل انحصار اپنے خاندان کے سپورٹ سسٹم پر ہوتا ہے۔ ملکی معیشت پر سب سے بڑا بوجھ پنشن نہیں بلکہ غیر ملکی قرض ہے۔ اس کی تازہ ترین صورتِ حال یہ ہے کہ ستمبر 2023ء کے اختتام پر بیرونی قرضہ 86.36 ارب ڈالر اور ملکی قرضہ کُل سرکاری قرضوں کا 39.7 کھرب روپے ریکارڈ کیا گیا۔ وفاقی مالیاتی خسارے کی 58 فیصد فنانسنگ ملکی ذرائع اور 42 فیصد بیرونی ذرائع سے کی گئی۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات پر اظہارِ عدم اطمینان کرتے ہوئے پلاٹوں کی خرید و فروخت میں نقد لین دین پر اضافی ٹیکس لگانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ تاہم ابھی تک ہائوسنگ سوسائٹیز کی رجسٹریشن اور پلاٹوں کی خرید و فروخت پر ٹیکسیشن کا میکنزم نہیں بن سکا، جبکہ وفاق اور صوبوں کے درمیان رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی ٹیکسیشن پر اتفاق بھی نہیں ہوسکا۔ آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پلاٹوں کی خرید و فروخت پر نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے گی۔ پلاٹ کی خرید و فروخت پر نان فائلرز پر اِس وقت 7 فیصد ود ہولڈنگ، 4 فیصد گین ٹیکس ہے۔ آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ پراپرٹی ایجنٹس کا ڈیٹا اور پلاٹوں کی خرید و فروخت رجسٹرڈ کی جائیں گی، رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی غیر دستاویزی ٹرانزیکشنز ختم کرنے پر کام ہوگا۔ اسی طرح ہائوسنگ سوسائٹیز میں پلاٹوں کی خرید و فروخت کو ایف بی آر سے منسلک کرنے کے لیے تجاویز طلب کرلی گئی ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے کیش لین دین کے بجائے بینک کے ذریعے ادائیگیاں کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو اخراجات کم کرنے کے حوالے سے کفایت شعاری کا پلان پیش کردیا ہے۔ پلان میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت ایک سال میں 300 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کم کرے گی۔ وفاقی وزارتوں کی طرف سے نئی گاڑیاں خریدنے پر مکمل پابندی رہے گی۔ ایک سال سے خالی، گریڈ ایک سے 16 کی تمام اسامیاں ختم کردی جائیں گی، وفاقی حکومت صوبوں کے ترقیاتی منصوبوں میں فنڈنگ نہیں کرے گی اور صرف اہم اور قومی نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل دے گی۔ آئندہ مالی سال سے دفاع اور پولیس کے سوا نئی بھرتیوں کے لیے رضاکارانہ پنشن اسکیم پر بھی غور کیا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کے لیے پاکستان کو کیا اقدامات کرنے ہوں گے، اس حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے نے بتادیا ہے۔ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ نئے قرض پروگرام کے لیے ایک لاکھ سے زائد ماہانہ پنشن پر ٹیکس لگایا جائے، اُمرا کی پنشن پر ٹیکس کے لیے ضروری قانون سازی کی جائے۔ نئے قرض پروگرام کے لیے سخت معاشی فیصلے کرنا ہوں گے۔ نئے قرض پروگرام کے لیے بجلی 10 سے 12 فیصد مہنگی ہوسکتی ہے، جبکہ گیس کی سبسڈی کو محدود کرنا ہوگا۔ نئے قرض پروگرام کے لیے ریٹیل سیکٹر کے کاروبار کو دستاویزی بنانا اور سیلز ٹیکس کی چوری سے روکنا ہوگا اور نان فائلرز کے لیے مشکلات بڑھانا ہوں گی۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حجم 17 ہزار ارب روپے سے زائد ہوگا۔ وفاقی بجٹ 25-2024ء کے لیے اقتصادی سروے کے خدوخال کی تیاریاں جاری ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 1200 سے 1300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جانے کا امکان ہے۔ ان میں نان فائلرز کے لیے وِد ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ بھی شامل ہے۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں اضافی محصولات کے لیے غیر منقولہ املاک کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ، گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس میں اضافہ، اور تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس سلیبز پر نظرِثانی شامل ہے۔ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سامنے تجویز رکھی ہے کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں چُھوٹ کی حد 10 لاکھ روپے کی جائے۔ حکومت نے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار کی تخصیص کے بغیر انفرادی سطح پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنانے اور ریٹ سلیبز کی تعداد گھٹانے کی بھی تجویز دی ہے۔ بجٹ تیار کرنے والے فائلرز اور نان فائلرز کے لیے وِد ہولڈنگ ٹیکس کی شرح کے فرق کو مزید وسیع کرنے پر بھی غور کررہے ہیں۔ مشینری کی درآمد پر ایک فیصد پیشگی انکم ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی زیرِغور ہے۔ اس کے نتیجے میں ماہانہ 2 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ صنعتی خام مال پر صرف اعشاریہ پانچ فیصد تک پیشگی انکم ٹیکس وصول کرنے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔ اس کے نفاذ سے بھی ماہانہ 2 ارب روپے کی آمدنی ہوگی۔ چوتھی تجویز سپلائیز پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد تک اضافے کی ہے۔ اس کے نفاذ سے ماہانہ ایک ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ پانچویں تجویز خدمات پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد اضافے سے متعلق ہے۔ اس کے نفاذ سے ماہانہ ڈیڑھ ارب روپے وصول ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ٹھیکوں پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کی بھی تجویز زیرِغور ہے۔ اس کے نفاذ سے ماہانہ ڈیڑھ ارب روپے حاصل ہوں گے۔ چھٹی تجویز یہ ہے کہ بینک سے کیش نکالنے پر نان فائلرز سے لیے جانے والے اعشایہ چھ فیصد وِد ہولڈنگ ٹیکس کو صفر اعشاریہ نو فیصد کردیا جائے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر عطیات اور غیر کاروباری اداروں کے لیے ٹیکس کی چُھوٹ ختم کرنے سے متعلق اقدامات پر بھی غور کررہا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے تجویز دی ہے کہ ٹیکس میں بہتری لانے کے لیے پہل کرنا ضروری ہے تاکہ غیر ضروری دُہرے ٹیکس انسینٹیوز کو ختم یا نظام سے ہم آہنگ بنایا جاسکے۔ ایسا ٹیکس سسٹم متعارف کرانے پر زور دیا جارہا ہے جس میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد زیادہ ہو اور ٹیکس کی شرح کم، تاکہ کسی پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑے۔ سرمایہ کاروں کے لیے بہتر ماحول یقینی بنانے کی غرض سے غیر ضروری رکاوٹیں دور کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ اس وقت کارپوریٹ ٹیکس بھی لیا جارہا ہے اور مقسوم پر بھی ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔ اس دُہرے معیار کو ختم کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس بات پر بھی اعتراض کیا ہے کہ انفرادی سطح پر عائد کیے جانے والے ٹیکسوں میں توازن نہیں پایا جاتا جس کے نتیجے میں بعض تنخواہ داروں پر زیادہ دباؤ ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو رعایتیں دینے کی صورت میں بہت سوں کو اس بات کی تحریک ملے گی کہ کاروباری سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ملازمت سے حاصل ہونے والی آمدنی کے طور پر پیش کریں۔ یہ عدم توازن بہت سوں کو اپنی آمدنی اصل سے ہٹ کر کسی فرضی مد میں ظاہر کرنے کی تحریک ملے گی۔ا