آئی ایم ایف داخلی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر دبائو بڑھارہا ہے
پاکستان کی سیاست طویل عرصے سے سنگین مسائل کا شکار ہے۔ اگرچہ بظاہر بہت سے لوگ اس بات سے متفق نہیں ہیں، اُن کا خیال ہے کہ ملک میں ایک جمہوری حکومت ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں بہت حد تک کامیابی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خیال کے حامل لوگوں کے نزدیک کوئی بڑا سیاسی بحران نہیں اور جو لوگ عمران خان یا پی ٹی آئی کو بنیاد بناکرایک بڑے بحران کی تصویر کھینچتے ہیں ان کا تجزیہ درست نہیں،یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے بقول مفاہمت کی سیاست کی کوئی ضرورت نہیں اور عمران خان کے سامنے سرنڈر کرنے کے بجائے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ سوچ رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی دونوں محاذوں پر موجود عمران خان کے مخالفین ہیں جو عمران خان کو دیوار سے لگاکر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کررہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اصل لڑائی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے اوراسٹیبلشمنٹ بہت حد تک عمران خان کو دیوار سے لگانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ یہ تجزیہ بھی درست نہیں۔
ہمارا بحران سیاسی اور ریاستی اداروں کے اپنے داخلی نظام میں موجود ٹکرائو کا منظر پیش کررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سبھی فریق ایک دوسرے سے دست بہ گریباں ہیں اور سب پر بدلہ لینے کے جنون کا غلبہ ہے ۔ عمران خان کے سیاسی مخالفین ہوں یا خود عمران خان یا اُن کی جماعت…کسی کو اس بات کا کوئی احسا س نہیں کہ حالات کدھر جارہے ہیں اور ہم اپنی لڑائی سے اپنے لیے سیاسی اور معاشی راستوں کو بند کررہے ہیں اور اپنے دشمن آپ بنے ہوئے ہیں۔اس کا عملی نتیجہ ایک کمزور سیاسی اور معاشی نظام کی صورت میں ہمیں بطور ریاست دیکھنے کو مل رہا ہے۔لیکن ہم اپنی غلطیوں کو ماننے کے بجائے محض دوسروں پر الزامات کی بوچھاڑ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں، مگر یہ سوچ اور فکر ہمیں راستہ نہیں دے رہی۔
حالیہ دنوں میں ایک اعتراف وزیراعظم شہبازشریف کے سیاسی امور کے مشیر اور سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی کیا ہے بلکہ ایک خبر دی ہے۔ اُن کے بقول ملک کے حالات بہتری کے بجائے بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بدقسمتی سے حالات کو درست کرنے کی تمام ذمہ داری مسلم لیگ ن پر ڈال دی گئی ہے جو درست حکمتِ عملی نہیں۔ اُن کے بقول حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان، یا سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو کا جو ماحول ہے اس میں کوئی بات یا عملی اقدامات آگے نہیں بڑھ رہے۔ رانا ثنا اللہ نے اشارہ دیا ہے کہ وزیراعظم ان تمام تر حالات میں خاموش نہیں بلکہ سنجیدگی سے سوچ بچار کررہے ہیں اور ممکن ہے آنے والے دنوں میں ہمیں یہ خبر سننے کو ملے کہ وزیراعظم نے صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے درخواست کی ہے کہ وہ حالات کی درستی کے لیے ایک گرینڈ مکالمے کا اہتمام کریں تاکہ ہم سب آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرسکیں۔ کیونکہ رانا ثنا اللہ کے بقول اگر ہم نے ڈائیلاگ کا راستہ اختیار نہ کیا تو کچھ نہیں بچے گا اور کسی کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ رانا ثنااللہ نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ اب عمران خان کو بھی جیل سے باہر آنا چاہیے اور خود نوازشریف بھی ایسا ہی چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنا کردار بھی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو بھی مشورہ دیا ہے کہ اگر اُن کو واقعی کوئی سیاسی ریلیف درکار ہے تو وہ بھی گرینڈ مکالمے کی صورت میں ہی ملے گا۔ اس سے قبل سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی بھی مفاہمت کی طرف زور دے چکے ہیں اور اُن کے بقول عمران خان سے بات چیت کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ اسی طرح مشاہد حسین بھی بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سے قبل کہ باہر کی قوتیں ہم پر دبائو ڈالیں ہمیں عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کوجیل سے رہا کرنا ہوگا۔ اسی طرح اور بھی بہت سے لوگ یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ ہمیں مفاہمت کا راستہ ہی تلاش کرنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ یقینی طور پر مفاہمت چاہتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنی شرائط پر چاہتی ہے،کیونکہ وہ یہ تاثر کسی بھی صورت دینے کے لیے تیار نہیں کہ ہم عمران خان کے دبائو میں آگئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ تو اِسی تاثر کو عام کرے گی کہ سب کچھ اچھا ہے اور عمران خان ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں، اور اگر وہ واقعی مذاکرات چاہتے ہیں تو سرنڈر کریں۔ جبکہ اس کے برعکس عمران خان کی مفاہمت نئے انتخابات تک محدود ہے، وہ کسی بھی صورت اس حکومت کو ماننے کے لیے تیار نہیں، اور ان کی خواہش ہے کہ اگر کسی کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو اسے اگلے چھ ماہ میں نئے انتخابات، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی، دہشت گردی کے مقدمات کا خاتمہ، سانحہ نومئی کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام اعلان کرنا ہوگا۔ اب یقینی طور پر یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ اور اس کی سہولت کار حکومت کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں قومی منظرنامے میں سیاسی تعطل غالب نظر آتا ہے۔ یہ تعطل ختم ہوسکے گا اور اس کے نتیجے میں کوئی بڑی سیاسی مفاہمت ہوسکے گی اس پر آج بھی سوالیہ نشان ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے جن میں مَیں بھی شامل ہوں کہ جب حالات بحران کی نشاندہی کررہے ہوتے ہیں اس صورت میں مفاہمت ہی کو بنیاد بنا کر راستہ تلاش کرنے کی حکمت عملی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے بقول آج بھی نئے نئے مقدمات عمران خان اور اُن کے ساتھیوں پر بن رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کے بارے میں ہمارے بڑوں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، مگر آخر میں بننے والے مقدمات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ طاقت کے مراکز میں بھی حالات درست نہیں ہیں اور وہ بھی کسی نہ کسی صورت میں مفاہمت چاہتے ہیں۔
حکومت کی مشکل یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بجٹ کی سیاست بھی عروج پر ہوگی، اور اس پر آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس بڑھانے کے لیے دبائو ظاہر کرتا ہے کہ بجٹ کے بعد معاشی صورتِ حال اور زیادہ خراب ہوسکتی ہے،کیونکہ اگر بجٹ کے بعد مزید ٹیکس لگتے ہیں اور اس کا اثر عام آدمی پر پڑتا ہے تو ایسی صورت میں حکومت پر عوام کے اعتماد میں مزید کمی ہوگی۔ حکومت کو معلوم ہے کہ اس صورتِ حال میں پی ٹی آئی اس کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہے، اور اس کی جھلک ہمیں عوامی ردعمل کی صورت میں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ مگر حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف اس کے پاس بہت سی مشکلات اور ذمہ داریاں ہیں مگر حکومتی اختیار کی جنگ میں وہ بہت پیچھے کھڑی نظر آتی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اختیارات کسی اور کے پاس ہیں جبکہ ذمہ داریوں کا بوجھ ہم پر ڈال دیاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حکومت کی ذمہ داری بھی کوئی لینے کے لیے تیار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ ایک طرف حکومت کی ناکامی اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ پر جو شدید تنقید ہورہی ہے اس کا بوجھ بھی حکومت اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ ویسے بھی اس وقت کی مجموعی سیاست اور جمہوریت کی طرف دیکھیں تو ہمیں سیاسی قوتوں کا مقدمہ پہلے ہی کمزور نظر آتا ہے۔ سیاسی قوتیں چاہے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، دونوں سطحوں پر یہ سوچ غالب ہے کہ طاقت کا کھیل ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ بے بسی محض سیاست دانوں تک محدود نظر نہیں آتی بلکہ عدلیہ اور میڈیا سمیت سبھی کنٹرولڈ نظام کی بات کررہے ہیں اور گلہ کررہے ہیں کہ ان پر بلاوجہ کا دبائو ڈالا جارہا ہے اور دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ نوازشریف نے پارٹی کنونشن میں جو تقریر کی ہے وہ بھی مایوسی کو نمایاں کرتی ہے اور اس تاثر کو عام کرتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں قومی سیاست میں یرغمال ہیں۔ ملک کے جو حالات ہیں اصولی طور پرتو وہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادتیں تمام تر اختلافات کو بھول کر قومی معاملات پر ایک ہوکر متفقہ راستہ اختیار کریں۔ لیکن اس وقت سیاست میں موجود بداعتمادی کا ماحول سیاست سمیت ریاستی اداروں کو بھی کمزور کررہا ہے جس سے حالات کی سنگینی مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ جو ہمیںکئی برسوں سے معاشی لالی پاپ دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ معیشت درستی کا راستہ اختیار کررہی ہے، سب غلط ہے۔ کیونکہ جب ہم داخلی محاذ پر سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوں گے تو معیشت کی بحالی کا ایجنڈا کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔
اس کا ایک نتیجہ علاقائی سیاست میں ہماری کمزوری کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے بقول پاکستان کے ہاتھ میں پہلے گولہ ہوتا تھا اور اب وہ کشکول لے کر گھوم رہا ہے۔ جب ہم داخلی سیاست میں الجھ کر رہ جائیں گے اور مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل نہیں کریں گے تو ہمارے مسائل کیونکر حل ہوں گے؟ بھارت کے بعد افغانستان کے ساتھ بھی ہم خرابی کی ہی طرف بڑھ رہے ہیں، ایسی صورت میں آئی ایم ایف ہماری داخلی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاکر اور زیادہ دبائو ڈال کر اپنی پالیسیاں ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔آئی ایم ایف جانتا ہے کہ ان سخت شرائط کا بوجھ ملک کے طاقت ور طبقات پر نہیں بلکہ عام آدمی پر ڈالا جائے گا۔ مگر عام آدمی پر بوجھ پڑے یا نہ پڑے یہ آئی ایم ایف کامسئلہ نہیں۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہماری سیاسی قیادت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا عدلیہ… حالات کی سنگینی کو محسوس کریں اورآگے بڑھنے کے لیے درمیانی راستہ تلاش کریں،کیونکہ ہم مسلسل محاذ آرائی، ٹکرائو اور تنائو سمیت سیاسی دشمنی کے کھیل کا حصہ بننے کی پوزیشن میں نہیں، ہمیں ہر صورت میںان حالات سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں، اورنہ ہی ایسی کوئی حکمتِ عملی ہماری ترجیحات کا حصہ نظر آتی ہے جس کی مدد سے ہمارے حالات بہتری کی طرف جاسکیں۔یہی وجہ ہے کہ عوام میں حالات کے تناظر میں مایوسی بڑھ رہی ہے اور ان کو لگتا ہے کہ ہمارے حالات کی بہتری کا ایجنڈا کہیں بھی موجود نہیں ہے، اس لیے ان حالات میں بہتری کا راستہ تلاش کرنا ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔