مفاہمانہ، شیریں اور بردبار سفارت کاری کا ’رئیسانہ دور‘ تمام ہوا
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، وزیرخارجہ امیر حسین امیرعبداللہیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر ملک رحمتی اور تبریز شہر کے خطیبِ جمعہ محمد علی الہاشم ہیلی کاپٹر کے ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔
63 سالہ ابراہیم رئیسی ایک عالم و فقیہ تھے۔ وہ کئی شہروں میں ایرانی حکومت کے مستغیث (Prosecutor)، خطیبِ جمعہ، اٹارنی جنرل اور دو سال عدالتِ عظمیٰ ایران کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) رہے۔ رئیسی صاحب، امام رضا کے روضہ مقدس المعروف آستانہِ قدس رضوی کے خادم بھی تھے جو شیعوں کے یہاں حد درجہ عزت و افتخار کا حامل منصب ہے۔ جناب رئیسی کی اہلیہ محترمہ جمیلہ بھی اعلیٰ درجے کی عالمہ اور کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ جمیلہ صاحبہ کے والد حجت الاسلام احمد علم الہدیٰ بہت بڑے عالم اور حکومتی معاملات پر نظر رکھنے والی مجلس خبرگانِ رہبری کے رکن ہیں۔
ابراہیم رئیسی نے پہلی بار2017ء میں انقلابِ اسلامی فورس (فارسی مخفف ’جُمنا‘)کی حمایت سے صدارتی انتخاب لڑا لیکن انھیں حسن روحانی کے ہاتھوں شکست ہوگئی۔ چار سال بعد 2021ء میں انھوں نے ایک بار پھر قسمت آزمائی کی اور 72 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوگئے۔
صدر رئیسی ایران و آذربائیجان کی سرحد کے قریب قز قلعہ سی ڈیم کا افتتاح کرنے کے بعد ایرانی فضائیہ کے امریکی ساختہ Bell-212ہیلی کاپٹر پر واپس آرہے تھے کہ اڑان بھرتے ہی تیز آندھی اور گہری دھند کی وجہ سے پرواز انتہائی ناہموار ہوگئی۔ اتوار کی صبح اس کی اطلاع دیتے ہوئے وزیر داخلہ احمد توحیدی نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر مشرقی آذربائیجان کے شہر جلفا اترنے (Hard Landing) میں کامیاب ہوگیا ہے اور مسافروں کی تلاش کے لیے امدادی دستے روانہ کردیے گئے ہیں۔ پیر کی صبح تک ہیلی کاپٹر پر سوار تمام افراد کی میتیں مل گئیں۔ سرکاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر مشرقی آذربائیجان کے شہر بکرآباد کے مضافاتی علاقے وزرقان میں گرکر تباہ ہوا۔ یہ کوہستانی علاقہ آذربائیجان کی سرحد سے متصل ہے۔
قز قلعہ سی ڈیم آب نوشی و آب رسانی کا بڑا منصوبہ ہے۔ اس ڈیم سے تبریز کا سوا ارب مکعب میٹر علاقہ سیراب ہوگا اور 40 میگا واٹ کم لاگت بجلی حاصل کی جائے گی۔ یہ ڈیم دریائے ارس پر تعمیر کیا گیا ہے۔ کوہ قاف پر آذربائیجان میں صابر آباد سے شروع ہونے والا 1075 کلومیٹر طویل دریائے ارس، ایران اور آرمینیا سے ہوتا ہوا ترکیہ تک جاتا ہے۔ ڈیم کی تعمیر پر آذربائیجان کو اعتراض تھا لیکن ایرانی ماہرین نے ڈیزائن میں ترمیم کرکے اسے اپنے شمالی پڑوسی کے لیے قابلِ قبول بنالیا۔ اس لحاظ سے قز قلعہ سی ڈیم زرعی و پن بجلی منصوبے کے ساتھ مخلصانہ مشاورت کے ذریعے متنازع مسئلے کے متفقہ حل کی ایک درخشاں مثال بھی ہے۔ اسی بنا پر آذربائیجان کے صدر الحان علیوف کو افتتاحی تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا۔
قارئین کو شاید ڈیم کا یہ تفصیلی تعارف غیر ضروری محسوس ہوا ہو، لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران میں ایران نے سفارتی محاذ پر جو خوشگوار پیش رفت کی ہے، یہ ڈیم اسی مفاہمانہ سفارت کاری کا تسلسل ہے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے دہائیوں پرانے اختلافات ختم کرکے ایران نہ صرف سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات معمول پر لاچکا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں خلیجی ممالک اور شام و لبنان کے درمیان کشیدگی بھی ماند پڑگئی ہے۔ چند ماہ پہلے پاکستان پر ایران کے میزائیل حملے اور اسلام آباد کے ترنت جواب سے صورتِ حال دھماکہ خیز ہوگئی تھی۔ اُس وقت ایرانی وزیرخارجہ کی گرم جوش لیکن دل کو چھولینے والی سفارت کاری بہت کام آئی۔ رئیسی صاحب کے دور میں تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی ختم تو نہ ہوسکی لیکن براہِ راست تصادم کی کوئی نوبت نہ آئی اور ایک عرصے سے کھٹائی میں پڑے قیدیوں کے تبادلوں پر خاصی پیش رفت دیکھی گئی۔
چند سال پہلے تک ’مخالفین‘ سے برتائو کے باب میں ایران کارویہ سخت بلکہ جارحانہ نوعیت کا محسوس ہوتا تھا، لیکن تہران کی پالیسیوں میں اب بردباری کا پہلو نمایاں ہے۔ دمشق کے ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کا جچا تلا جواب دیا گیا، جو تھا تو بہت سنجیدہ لیکن اس میں لن ترانی اور بڑھک کا شائبہ تک نہ تھا۔
ایران کی کامیاب سفارت کاری کو امریکہ و یورپ کے علمائے سیاست و سفارت بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ صدر رئیسی اس شیریں سفارت کاری کے معمار سمجھے جاتے تھے جسے امریکہ کے صحافتی و سیاسی حلقے Raisi Doctrineکہہ رہے ہیں۔
کیا یہ حادثہ کسی سازش کا شاخسانہ ہے؟ اس بارے میں اِس وقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ایرانیوں نے اب تک حادثے کی تحقیقات بھی شروع نہیں کیں۔ تاہم سازش کے الزام کو یکسر رد کردینا بھی ممکن نہیں، اس لیے کہ افہام و تفہیم کی ’رئیسانہ حکمت عملی‘ نے ایران کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔ اصولوں پر قائم رہتے ہوئے تہران نے اپنے مخالفین سے کشیدگی کم کی ہے۔ تمام پڑوسیوں اور علاقے کے ممالک سے ایران کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ تہران کے حوثی اتحادیوں نے بحیرہ احمر کو اسرائیلی جہازوں کے لیے نوگو ایریا بنادیا ہے اور اس کوشش میں سعودی عرب کو یورپ اور ایشیا سے ملانے والا بحری راستہ مخدوش اور سفر مہنگا ہوگیا ہے، لیکن نقصان کے باوجود ریاض اور تہران کے درمیان خیرسگالی کا خوشگوار سفر جاری ہے۔ رئیسی ڈاکٹران کی تدوین اور عمل درآمد میں وزیرخارجہ امیرعبداللہیان نے بہت اخلاص سے اُن کی نیابت کی۔ ایران کا یہ انداز اُس کے حاسدوں خاص طور سے اسرائیل کو پسند نہیں، اور دونوں کے ایک وقت مارے جانے سے سوال اٹھنا ایک فطری بات ہے۔
سازش سے قطع نظر ایران میں ہوائی سفر دنیا کے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے۔ ہوائی حادثات پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے Bureau of Aircraft Accident Archives (B3A)کے مطابق 1979ء سے 2023ء تک ایران میں چھوٹے بڑے 253 حادثات ہوئے جن میں 2335 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔سرکاری اہلکاروں کے لیے مختص ایرانی ہوائی بیڑہ 70 سے 80 فیصد امریکی ساختہ ہے اور 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد عائد امریکی پابندیوں کی وجہ سے اعلیٰ معیار کی مرمت و دیکھ بھال ممکن نہیں۔ تجویز کردہ اصل پرزوں کے بجائے چینی ساختہ یا مقامی مال استعال ہورہاہے۔ یہ بدنصیب ہیلی کاپٹر 1979ء سے پہلے شاہ ایران کے دور میں خریدا گیاتھا۔
اس سانحے پر جہاں ہر سلیم الفطرت شخص کو افسوس ہوا ہے وہیں امریکہ کے انتہاپسند عناصر بہت ہی بے شرمی سے مسرت کا اظہار کررہے ہیں۔ ہیلی کاپٹر غائب ہوجانے کی خبر آتے ہی ریپبلکن پارٹی کے رکن کانگریس اور مجالس قائمہ برائے امورِ خارجہ و دفاع کے رکن مائک والٹز نے سوشل میڈیا پر لکھا ’’شکر ہے جان چھوٹی۔ رئیسی پیشہ ور قاتل ہے۔ اس نے صدر بننے سے پہلے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایرانی حکومت اس (حادثے) کا الزام اسرائیل اور امریکہ پر لگا رہی ہے تاکہ دہشت گردی کا جواز پیدا کیا جائے۔‘‘
اس کا دوسرا پہلو اسرائیل میں نظر آیا۔ جامعہ تل ابیب کی ایگزیکٹو کونسل کے سربراہ ڈاکٹر ایلی گلمین نے واٹس ایپ پر اپنے احباب کو پیغام بھیجا ’’افسوس کہ جس ہیلی کاپٹر پر ایرانی صدر سفر کررہے تھے اس پر ہمارے وزیراعظم (نیتن یاہو) نہیں بیٹھے تھے‘‘۔ پیغام ’’لیک‘‘ ہوتے ہی انتہاپسندوں نے ڈاکٹر گلمین کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا، جس پر معذرت کے بجائے اپنے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے گلمین صاحب بولے ’’گزشتہ 27 سالوں میں وزیراعظم نے ملک کو بھاری نقصان پہنچایا ہے اور ان کے ضرر کی شرح مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ اس تناظر میں ان سے چھٹکارے کی دعا ضروری ہے۔‘‘
جناب رئیسی کے انتقال کے بعد نائب صدر اوّل محمد مخبر نے قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ اگلے ماہ کی 28 تاریخ کو نئے صدر کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ 68 سالہ محمد مخبر، اپنے پیشرو کی طرح ایران اسلامی تحریک کے مخلص نظریاتی کارکن ہیں۔ وہ نائب صدارت سنبھالنے سے پہلے 14 برس تک ’ستادِ اجرائیِ فرمانِ امام خمینی‘ کے سربراہ رہ چکے ہیں، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ستاد کی ایک نکاتی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امام خمینی کے عطاکردہ نصب العین اور امام کے طے کیے اہداف و تزویرات سے سرِ مو انحراف نہ کرنے پائے۔ جناب مخبر روحانی پیشوا (سپریم لیڈر) سید علی خامنہ ای اور پاسدارانِ انقلاب اسلامی (IRGC)کے بہت قریب ہیں۔
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔