قونیہ مجھے بلا رہا تھا(سفرنامہ)

مصنف نے اپنی بھرپور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بہترین تخلیقی کام کر دکھایا۔ انہوں نے 2019ء میں ترکیہ کے شہر قونیہ میں کچھ وقت گزارنے کے بعد وطن واپسی پر اپنا سفرنامہ ’’قونیہ مجھے بلا رہا تھا‘‘ تحریر کیا جو اُس وقت ”فیملی میگزین“ میں شائع ہوا اور اب کتابی شکل میں شائع ہوا ہے۔ مصنف کا یہ سفرنامہ بہت مختصر ہے لیکن مصنف کے حُسنِ تحریر نے اسے اس قدر پُرکشش بنادیا ہے کہ قاری جب سفرنامہ پڑھنا شروع کرتا ہے تو اس میں اس طرح کھو جاتا ہے کہ اس کو مکمل پڑھے بغیر چھوڑنے کو دل نہیں کرتا۔

گکھڑ منڈی نے محمد وسیم نام کا ایک ایسا لکھاری پیدا کیا ہے جو مستقبل قریب میں اردو ادب میں بہ طور لکھاری بڑے بڑے ادیبوں کی طرح اپنا مقام پیدا کرے گا۔

اردو ادب کے نامور ادیب بھی اس سفرنامے کو پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جناب مستنصر حسین تارڑ نے مصنف کے سفرنامے کو ایک اثرانگیز روحانی واردات قرار دیا ہے، اسے مصنف کی خوش قسمتی کہیے کہ نامور ادیب، کالم نگار اور سفرنامہ نگار جناب عطا الحق قاسمی نے اس سفرنامے کو اردو ادب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا ہے، جبکہ جناب فتح محمد ملک نے مصنف کو کم عمری میں ہی ’’ادیب و دانش ور‘‘ قرار دے کر اُن کے ادیب و دانش ور ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔

فتح محمد ملک نے اس سفرنامے کا مطالعہ کرکے مصنف کے شاندار ادبی مستقبل کی بشارت دی اور اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ مصنف اپنی تصانیف سے اردو ادب کو مزید ثروت مند بنائے چلا جائے گا۔ مصنف کے حُسنِ تحریر کے پیش نظر یہ طے شدہ بات ہے کہ اس میں ایک بڑا ادیب بننے کی تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں۔اگر وہ اپنی تمام ترتوجہ اس جانب مرکوز رکھے تو بہت جلد ادبی حلقوں میں اپنا بلند مقام حاصل کرلے گا، اس کا ثبوت مصنف کا یہ سفرنامہ ہے جس میں مصنف نے استنبول سے قونیہ تک بیس گھنٹوں کا سفر اس قدر خوب صورت انداز میں تحریر کیا ہے کہ آخر تک قاری کی دلچسپی ختم نہیں ہوتی اور ایک ہی نشست میں پورا سفرنامہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ سیر و سیاحت میں گزارے ہوئے وقت کو قلم بند کرنا ایک مشکل کام ہے اور بہت کم لوگ اپنے سفر کو اس خوب صورتی سے الفاظ کا پیرہن پہنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سفرنامے پر محمد وسیم مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اپنے سفرنامے میں محمد وسیم نے قونیہ میں قدم رکھتے ہی انتہائی مہارت سے قونیہ کی پوری تاریخ رقم کردی ہے۔ محمد وسیم نے استنبول سے قونیہ کے سارے سفر کی خوب صورتی کو صرف 71 صفحات میں قلم بند کردیا ہے۔ وہ اردو ادب میں اعلیٰ پیرایہ اظہار و بیان کے باعث شاندار اضافہ کرنے والوں میں شامل ہوچکے ہیں، جسے بڑے سے بڑا لکھاری بھی بیان نہیں کرسکتا۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔