قصۂ یک درویش! دیہات سے شہر کی طرف سفر

پندرہویں قسط

میں ابھی گائوں میں تھا، مگر دل و دماغ میں گائوں کے دیکھے بھالے ماحول، بزرگوں اور اپنے خاندان کی پوری تاریخ کے پہلو بہ پہلو، شہر کے اَن دیکھے حالات بھی گھومتے رہتے تھے۔ میں خود کو شہر کے حالات میں ایڈجسٹ کرنے کے منصوبے دن رات بناتا رہتا تھا۔ آج بھی میں 1963ء کے اُن دنوں اور پھر بعد میں آنے والی تبدیلیوں کی تاریخ پر نظر ڈالتا ہوں تو ان میں کھو جاتا ہوں۔ کبھی اداسی چھا جاتی ہے اور کبھی خوشیاں اچھلنے لگتی ہیں۔ اُن دنوں زندگی کے ہر میدان میں مشینری سے بڑی تبدیلیاں آرہی تھیں۔ اسی دور میں نئی زرعی مشینری، ٹریکٹر، تھریشر، کمبائنڈ ہارویسٹر اور دیگر مشینی آلات زرعی معیشت میں داخل ہوگئے۔ والد صاحب اور خاندان کے دیگر احباب نے مشینری خرید کر اپنی زمینوں پر خود کاشت کاری شروع کردی۔ اس کے بعد اب کئی عشروں سے زمین خودکاشتہ ہے۔ اخراجات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں مگر کاشت کاری نئی مشینری کی بدولت بہت آسان ہوگئی ہے۔ جو کام مہینوں میں ہوتا تھا، وہ دنوں کے اندر مکمل ہوجاتا ہے۔

میرے چھوٹے بھائی عزیزم میاں محمد یوسف جو ایک ذہین طالب علم تھے، بی اے کرنے کے بعد ایئرفورس میں جانا چاہتے تھے، بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں انھوں نے ایک بنیادی ٹیسٹ میں شرکت کی اور کامیاب قرار پائے، مگر ایک آدھ مہینے بعد بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوگئی۔ ملک میں 1977ء کا مارشل لا نافذ ہوا تو جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے وہ ٹیسٹ کالعدم قرار دے دیا۔ یوسف صاحب نے اپنی مخصوص طبیعت کے تحت حتمی فیصلہ کرلیا کہ ’’چھوڑو ملازمتوں اور نوکریوں کے چکر کو، اپنی زمین پر آزادانہ ماحول میں کاشت کاری کرتے ہیں۔‘‘ میں کالج میں داخلے کے وقت سے لے کر اب تک عملاً زراعت سے دور رہا ہوں مگر ذہناً ہر کام میں شریک رہتا ہوں، کیوںکہ یہ میرے آبا و اجداد کا ذریعۂ معاش تھا۔ بیرونِ ملک تھا، تب بھی حالات بذریعہ خط کتابت معلوم کرتا رہتا تھا۔ اب تو فون کی سہولت ہے، اس لیے پل پل کی خبر ملتی رہتی ہے۔

عزیزم میاں یوسف نے کاشت کاری پر پوری توجہ دی، چنانچہ وہ ایک ذہین کاشت کار کے طور پر معروف ہیں۔ زراعت میں کئی تجربات کیے ہیں بالخصوص پہلی بار ہمارے علاقے میں کئی ایکڑ پر سورج مکھی کی فصل کاشت کی، جسے دیکھنے کے لیے قرب و جوار کے دیہات سے لوگ بڑی تعداد میں آتے تھے۔ پھر دیگر فصلوں بشمول سبزیات آلو وغیرہ، تیل دار اجناس کینولا، سرسوں، رائی وغیرہ کے تجربات کیے۔ پھلوں کے باغات کا تجربہ بھی کیا، مگر وہ بے توجہی کی وجہ سے بارآور نہ ہوا۔ خربوزے اور تربوز اعلیٰ کوالٹی کے وسیع رقبے پر کاشت کیے جو تیار ہونے پر روزانہ ایک دو ٹرالیاں مقامی فروٹ منڈیوں میں فروخت کے لیے بھیجی جاتیں۔

فصلوں کی کاشت میں مختلف تجربات کرنے کے ساتھ پولٹری فارم بنایا اور برائلر اور لیئر ہر شعبے کو کامیابی سے چلایا۔ بکری پال، کٹا پال فارم اور نہ معلوم کیا کیا مہمات کے منصوبے بنائے اور ان میں ہنر دکھائے۔ کئی تجربات بہت کامیاب ہوئے، جبکہ ایک آدھ زیادہ نفع بخش ثابت نہ ہوا۔ مگر برادر عزیز نے جم کر کوئی کام نہ کیا، سوائے گائے بھینس پالنے اور گندم کاشت کرنے کے۔ پہلی بار گائوں سے شہر کی طرف کا سفر ہو یا پھر پوری زندگی میں دنیا بھر کے چالیس کے قریب ممالک کے سفر ہوں، ہر دور میں اپنی دیہاتی و دہقانی شناخت کو یاد رکھا ہے۔

ہمارے علاقے سے بیرونِ ملک جانے والے لوگوں میں سے بعض اب اتنے بڑے سرمایہ دار ہیں کہ ہم جیسے سفید پوش اُن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ شروع ہی سے زمانے کا یہ چلن رہا ہے، حالات ایک جیسے نہیں رہتے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ دولت کے تفاوت کے باوجود اب بھی یہ لوگ ہمارا اسی طرح احترام کرتے ہیں جیسا بیرونِ ملک جانے سے قبل کیا کرتے تھے۔ بعض تو اس قدیم دور کو مجلس کے اندر باقاعدہ بیان کرتے ہیں۔ چند واقعات شروع کے صفحات میں بیان بھی کیے گئے تھے۔

ہماری زمین کی اصل اور بڑی فصل گندم، چنا اور مسور ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ربیع کی فصل میں باجرہ، جوار، گوارا بڑی فصلیں ہوتی تھیں۔ اسی طرح تیل دار اجناس میں رائی، سرسوں، تل، السی، اور دالوں میں مونگ، ماش، موٹھ سبھی فصلوںسے اچھی پیداوار حاصل ہوجاتی تھی۔ بارانی زمین ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں چاول کی کاشت نہیں ہوتی تھی۔ اسی طرح مکئی بھی کم ہی کوئی کاشت کرتا تھا۔ اگر کاشت ہوتی بھی تھی تو چارے میں استعمال ہوجاتی تھی۔ اس سے غلہ وغیرہ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے گھر میں اپنی ضروریات کا غلہ اسٹور کرلیا جاتا اور مویشیوں کی خوراک کے لیے غلے سے فیڈ بھی رکھ لی جاتی۔ اس سے زائد سبھی فصلوں کی پیداوار فروخت کردی جاتی تھی۔ اس میں اتنی برکت ہوتی تھی کہ ہمارا گھرانہ گائوں کے مالدار ترین گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ فخر کے طور پر نہیں تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض ہے کہ والد صاحب عشر بھی ادا کرتے تھے اور اس کے ساتھ ہمارے ہاں سے پورے سال کے دوران ضرورت مندوں کی امداد بھی غلّے کی صورت میں جاری رہتی تھی۔

ہماری زمینوں میں فصلوں کے علاوہ کیکر، شیشم، بیری وغیرہ کے درخت بہت ہوتے تھے، ان کی لکڑی اپنی تعمیرات میں استعمال ہونے کے ساتھ حسبِ موقع مناسب قیمت پر بک بھی جاتی تھی۔ اسی طرح جانوروں میں گائے، بھینسوں کی اچھی اور صحت مند نسلیں ہمارے بزرگوں کے پاس ہوتی تھیں۔ ان جانوروں کی خریدوفروخت بھی آمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔ گائے، بھینسوں کے بچے اگر نر ہوتے تو ایک سال کی عمر میں گائوں کے قسائی خرید لیتے، اور مادہ ہوتے تو ان کی پرورش سے گائے بھینسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا۔ حسبِ موقع اپنی ضرورت سے زائد گائے بھینسیں شیردار ہونے پر مناسب قیمت پر بک جاتیں۔

شیردار جانوروں کا دودھ تو کبھی نہیں بیچا جاتا تھا، ضرورت مندوں کو مفت بھی مل جاتا تھا۔ البتہ دودھ سے بننے والا گھی فروخت ہوتا تھا۔ اس کی قیمت سے شیردار جانوروں کے لیے فیڈ، کھل، بنولہ وغیرہ خریدنے کے بعد معقول رقم بچ جاتی تھی۔ بہت لذیذ لسّی پورا سال ہمارے گھر سے گائوں کی سبھی ضرورت مند خواتین کو وافر مقدار میں مل جاتی تھی۔ والدہ مرحومہ ہر قسم کے اچار مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں بناکر رکھتیں اور جو بھی مانگتا اُسے مل جاتا۔ آپ کے تیارکردہ اچار میں ایک خاص لذت اور خوشبو ہوتی تھی۔

بار برداری اور سواری کے جانوروں میں گدھی، گھوڑی بھی اعلیٰ نسل کی رکھی جاتی تھیں۔ گدھی چارے اور فصلوں کی پیداوار وغیرہ کی باربرداری کے کام آتی تھی، جب کہ اعلیٰ نسل کی قیمتی گھوڑیاں سواری کے لیے پالی جاتی تھیں۔ ہمارے بزرگوں میں والد صاحب تک ہر پشت میں بہترین گھڑسوار ہوتے رہے تھے۔ ان کے بعد سوار تو ہیں مگر شہسوار ناپید ہوگئے ہیں۔ میرے بھتیجوں معاذ یوسف اور مُعَوِّذ یوسف کو گھوڑی رکھنے کا شوق ہے، مگر کبھی کبھار اگر کوئی گھوڑی رکھتے بھی ہیں تو عام نسل کی۔ مُعَوِّذ بچپن میں علاقے کے ہر شخص سے جس کے پاس کوئی گھوڑی ہوتی، اس کی قیمت کے بارے میں پوچھتا رہتا تھا۔ اس سلسلے میں بہت دلچسپ لطیفے بھی ہوئے، مگر طوالت کے خوف سے ان سے صرفِ نظر کیا جارہا ہے۔

میں اپنے لڑکپن میں اپنی اعلیٰ نسل کی گھوڑی پر سوار ہوکر جانبِ شمال (پون کلومیٹر) اور جانب ِجنوب (ڈیڑھ کلومیٹر) تک اپنے کھیتوں میں جاتا اور آتا تھا۔ ایک آدھ مرتبہ گھوڑی نے دوڑ بھی لگائی، مگر اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس سے کبھی کسی قسم کا خوف محسوس ہوا، نہ ہی میں کبھی گھوڑی سے گرا۔ گھوڑی کے دوڑنے پر جسم بھی اس کے ساتھ ہم قدم ہوجاتا ہے اور کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ میری خواہش ہوتی تھی کہ گھڑسوار بن جائوں، مگر حقیقت یہ ہے کہ میںگھڑسوار بالکل نہ بن سکا۔ کئی لوگ ازراہِ مذاق اور بعض بزرگ ازراہِ محبت تبصرہ کرتے ’’دیکھو میاں فیض صاحب کا بیٹا گھوڑی پر کس طرح بیٹھا ہے، میاں صاحب گھوڑی پر بیٹھتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ سواری اور سوار ایک ہی مجسمے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ ادریس میاں اور گھوڑی کے جسم میںکوئی باہمی تال میل نہیں۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ حقیقی جانشینی اور چیز ہے اور وراثتی تعلق چیزے دیگر است۔ ہمیں دیکھ کر تو اہلِ شعر وادب شاید یہ شعر گنگناتے ہوں ؎

گوئے سبقت درمیاں انداختہ اند
کس بمیداں نمے آید سواراں را چہ شد

(شعر میں کوئی غلطی اور جھول ہو تو اہلِ علم بالخصوص محترم بھائی ابونثر ، حاطب صدیقی صاحب سے پیشگی معذرت۔ شعر کا مفہوم یہ ہے کہ چوگان کے مقابلے کے لیے اعلان ہوچکا ہے اور گیند بھی میدان میں پھینک دی گئی ہے، مگر کوئی مردِ میدان مقابلے کے لیے نہیں آ رہا، سواروں کو کیا ہو گیا ہے؟)

کئی دنوں سے انہی خیالات میں گم تھا کہ کالج میں داخلے کی تاریخ آگئی۔ والدین اور اعزہ و اقربا سے اجازت لی اور محترم کنور سعید اللہ خاں صاحب کی ہدایت کی روشنی میں لاہور کے لیے رخت ِسفر باندھا۔ میرا ایک کلاس فیلو اور دوست میاں محمد عثمان بھی جی سی میں داخلے کا خواہش مند تھا۔ محترم کنور صاحب نے اُسے بھی میرے ساتھ لاہور بھیج دیا۔ وہاں پہنچ کر ہم دونوں نے جی سی میں سالِ اوّل کے لیے داخلہ فارم جمع کرا دیے۔ پہلی لسٹ لگنے کی تاریخ بھی نوٹس بورڈ پر لکھی ہوئی تھی۔ مقررہ تاریخ پر ہم دوبارہ لاہور گئے تو میرا نام تو آرٹس مضامین (ایف اے) کی لسٹ میں موجود تھا اور خاصا اوپر پہلے تین چار ناموں میں شامل تھا۔ البتہ برادرم محمد عثمان کا نام اس فہرست میں نہیں آرہا تھا۔ ان کے نمبر مجھ سے بہت کم تھے، اگرچہ وہ بھی فرسٹ ڈویژن ہی میں پاس ہوئے تھے۔ لسٹ میں نام نہ آنے پر موصوف بہت بددل اور پریشان ہوگئے۔ ان کو اتنا پریشان دیکھ کر میں نے کہا: فکر کی کوئی بات نہیں، چلو اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں فارم داخل کرا دیتے ہیں۔

لاہور جاتے وقت ماسٹر سعید اللہ صاحب نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ گورنمنٹ کالج میں داخلہ نہ ملنے کی صورت میں دوسرا آپشن اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلے کا ہوگا۔ اس کالج کے داخلے کے لیے فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ میں ابھی ایک آدھ دن باقی تھا۔ وہاں جاکر ہم نے فارم داخل کرا دیے۔ اس میں ہم دونوں کا نام پہلی فہرست میں آگیا۔ یہاں نام آنے کے باوجود محمد عثمان نے داخلہ فیس جمع نہ کرائی اور واپس جاکر زمیندارہ کالج گجرات میں داخل ہوگیا۔ اُس کے اِس طرزعمل سے مجھے سخت افسوس ہوا کیوںکہ اس کی وجہ سے میں جی سی میں داخلہ نہ لے سکا۔ جی سی میں اب داخلے کی تاریخ گزر چکی تھی۔ میں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور کچھ دنوں کے بعد جب گائوں گیا اور محمد عثمان سے ملاقات ہوئی تو میں نے سخت الفاظ میں اس سے کہا ’’ارے بھگوڑے! تم نے میرے ساتھ کیا ہاتھ کیا ہے!‘‘ میری بات سن کر عثمان شرمساری سے کھسیانی ہنسی ہنسا اور پھرندامت کے ساتھ میرے ساتھ جپھی ڈال کر معذرت کرنے لگا۔

عثمان سے بعد میں جب بھی ملاقات ہوتی، میں اسے محبت اور بے تکلفی سے ’’بھگوڑا‘‘ کہتا تو وہ بھی بدمزا ہونے کے بجائے ہمیشہ محظوظ ہوتا۔ کنور سعید اللہ خاں صاحب کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے عثمان کو خوب ڈانٹا۔ ایک عجیب اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی سالوں کے بعد جب میرا بیٹا ہارون ادریس (مرحوم) جرمنی میں پی ایچ ڈی کررہا تھا تو ایک دو مرتبہ مجھے وہاں تحریکی دوروں کے سلسلے میں جانے کا اتفاق ہوا۔ عثمان بھی کئی سالوں سے جرمنی میں مقیم تھا۔ ایک دن ہم اس شہر (Hannover) میں گئے جہاں عثمان رہتا ہے۔ پاکستانی اور عرب دوستوں نے وہاں کے ایک اسلامی مرکز اور جامع مسجد میں ایک دعوتی و تربیتی پروگرام رکھا تھا۔

میں برلن سے روانہ ہوا تو ہارون بیٹا بھی میرے ساتھ تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ یہاں تمھارے ایک چچا اور میرے کلاس فیلو ہمیں ملیں گے جن کا نام میاں محمد عثمان ہے۔ بنیادی طور پر وہ موضع چنن سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان کے آبا و اجداد کچھ عرصہ پہلے چک نمبر16 جنوبی ضلع سرگودھا میں منتقل ہوگئے تھے، وہاں ان کا زمیندارہ ہے۔ ہارون تو لوگوں سے ذاتی تعلقات قائم کرنے کا شوقین اور ماہر تھا۔ خوش ہوا کہ اسے ایک اور تعلق دار مل جائے گا۔ جب وہاں پہنچے اور میں نے حسبِ معمول عثمان سے ملتے ہی کہا ’’سنائو بھگوڑے بھائی! کیا حال ہے؟‘‘ تو وہ ہنستے ہوئے گلے ملا مگر ہارون کو بڑا تعجب ہوا کہ میں نے اسے اس انداز سے کیوں مخاطب کیا؟ پھر اسے ساری کہانی سنائی تو وہ بھی کھلکھلا کر ہنسا۔ (جاری ہے)