نارسیسس (Narcissus)
تصور کی ’بیزاردنیا‘ کا بیان سارتر کے ہاں ایک ایسی خواہش ہے کہ جس کا تصوراتی آسیب عاشق پر چھا جاتا ہے۔ ہم اپنی خواہشات کی خاطر محبت کرتے ہیں۔ ایک خودفریب عاشق سوائے اپنی ذات کے کسی میں مگن نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسی محبت کو جنم دیتا ہے جسے درحقیقت محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا سی بھی قبولیت کے بغیر محض بے ساختگی تصور کرنے والے کے اندر کے خالی پن کے سوا کچھ نہیں۔ دوسرے سے تعلق کے بغیر خودفریب تصور اپنی ہی روح کا اظہار بن جاتا ہے۔ بالکل ایک حقیقی شخص سے مختلف کہ جس کا تھکا دینے والا وجود خودفریبی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے جبکہ تصوراتی دل فریبی مجھے جو کچھ بھی پیش کرتی ہے یا دینے سے انکار کردیتی ہے ہر دو صورت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا کہ جو میرے پاس پہلے سے موجود ہو۔ یہ محبوب نہیں ہوتا جو میرے اندر اپنی خواہش کے لیے احساسات پیدا کرے، یہ میری اپنی خواہش ہے جو محبوب کی دل میں موجودگی پیدا کرتی ہے۔ درحقیقت اس قسم کا تصوراتی مجنوں پن پہلے سے ہی محبوب کی موجودگی کا نہ ہونا فرض کرلیتا ہے۔ سارتر اسے ’آسیب زدہ اصطلاحوں‘ میں بیان کرتا ہے۔ جیسے ایک مجسمے کے آگے رقص کیا جائے، اُسے نذرانے دیے جائیں، مسکراہٹیں اور آنسو پیش کیے جائیں، مگر بُت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے سامنے کوئی کیا کررہا ہے، اور نہ ہی وہ اس قابل ہوتا ہے کہ کوئی ردعمل بھی دے سکے۔ درحقیقت اس بت اور پجاریوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح کا تعلق ہمارا تصوراتی شے سے ہے، نہ ہم اسے چھو سکتے ہیں نہ پا سکتے ہیں، اور نہ ہی وہ ہم تک پہنچ سکتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی غیر حقیقی جنت ہے جو ہماری پہنچ سے باہر ہے۔ ایسی خودفریب محبت مختصراً آدمی کے الگ تھلگ تنہا تصور کی علامت ہے، اور میں صرف اپنے آپ کو اس سے اس طرح منسوب کرسکتا ہوں کہ اپنی ’حقیقت‘ محسوس کرنا معطل یا ترک کردوں۔
اعصابی خلل
خودفریب تصور کے بہت سے اظہار اعصابی خلل سے اپنی انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں سارتر یہ خیال پیش کرتا ہے کہ جدید تصور بنیادی طور پر ’مریضانہ‘ آرزو ہے۔ اس کا مقدر ناکامی ہے۔ ایک ناممکن تلاش جو کوئی خود سے ماورا دوسری ہستی میں کرتا ہے۔ یہ ایک پروجیکشن سے بڑھ کر ہے۔ اعصابی خلل خود اپنا شکار اور خود اپنا قاتل ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ تصور والا ایک ایسے مرض میں مبتلا ہے جس کی علامتیں خود اُس کی ناامیدی میں پوشیدہ ہیں۔ وہ اپنی یہ ناامیدی سطح پر لانا چاہتا ہے تاکہ اسے ٹھوس خارجی وجود بناسکے، اسے ایک معروضیت سے متصف کرسکے۔ مگر وہ بالآخر اس حقیقت سے فرار نہیں پاسکتا کہ اس کی بیماری کی وجہ سوائے اُس کی اپنی ذات کے کہیں نہیں۔ وہ چلاّتا ہے، روتا ہے اور کسی طرح ’کچھ‘ اپنے وجود میں زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر یہ سب بےکار ہے، کوئی بھی چیز اس کے خالی پن کو دور نہیں کرسکتی۔ اس مریضانہ حالت کی دوسری صورت بڑی خام خیالیاں ہیں، جیسے ڈون جوان کا کردار۔ وہ افسانوی منظرنامے میں جیتا ہے کہ جہاں اس کی جنسی قوت اور شان نظر آتی ہے، کیونکہ وہ حقیقت کی دنیا میں محبت کے قابل نہیں ہوتا۔ سارتر اس خودفریبی کو یوں بیان کرتا ہے:
’’ایک جیسے مناظر کا تفصیل سے دہرائے جانا، اک جشن کا ماحول، جیسے یہ سب پہلے سے ضابطے میں لایا گیا ہوتا ہے۔ یہاں کوئی حالتِ فرار نہیں، کوئی مزاحمت، کوئی حیران کن بات نہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ ڈون جوان کی اصل محبت ناکام ہے کیونکہ وہ محبت کے قابل نہیں۔‘‘
ایسا مریضانہ وہم ’شقاق دماغ‘ تک محدود نہیں۔ یہ خلقی طور پر انسانی وجود کا ایک تصوراتی پروجیکٹ بن جاتا ہے۔ اس طرح سارتر اس رومانوی مغالطے کی نشاندہی کرتا ہے کہ جو کہتا ہے تصور ایک استثنائی یا جمالیاتی شاعرانہ سرگرمی ہے۔ ہر انسانی وجود کسی نہ کسی تصوراتی خام خیالی میں مبتلا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی بلا استثنا خوابوں کی دنیا بسانے کی اہلیت رکھتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ایک اداکار اپنے کردار کے لیے بہروپ کا انتخاب کرتا ہے۔ ہم اپنے روزمرہ تجربے کے تصوراتی منصوبوں کے قیدی ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے ہم ناول یا ڈرامہ دیکھتے ہوئے ہیرو یا ہیروئین کے روپ میں خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ سارتر کہتا ہے کہ ہم یہ آزادی بربادی کے عوض خریدتے ہیں۔
ہم سارتر کے مظہریاتی تصور(Phenomenology) میں وجودی (Existentialist) فلسفے کی جڑیں پاتے ہیں۔ فلسفہ یہ کہ انسانی وجود ایک بے کار جوش و جذبے کے زیراثر بے معنویت کے ہاتھوں برباد ہوجاتا ہے۔ ایک بے بنیاد خواہش کا پروجیکٹ، جو حقیقی اور غیر حقیقی دونوں ہی سے پرے ہوتا ہے۔ ایک بےسروپا دنیا کا قیدی، جہاں ذات ناکافی رہتی ہے اور ’’دوسرے لوگ اُس کی تباہی کے ذمہ دار‘‘ ہوتے ہیں۔
یہ وہ دنیا ہے کہ جہاں سارتر کے ڈرامے اور افسانے کے معاشرے سے بیزار اینٹی ہیروز بستے ہیں۔ جیسے Les Mains Sales کا ہیوگواورof Les Sequestrés d’Altona کا فرانز جو اپنے حال سے حالتِ انکار میں ہے، اور ماضی زندہ کرنے کے خبط میں مبتلا رہتا ہے۔ اسی طرح سارتر کے دیگر کردار بھی اپنے خالی پن میں ایک بے معنی دنیا تخلیق کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
وجودیاتی اطلاقات
سارتر کا تصور کرنے کا مظہریاتی بیان اُسے اس نتیجے پر لے گیا کہ یہ محض حقیقت معطل کرنے کا عمل نہیں ہے جیسا کہ ہسرل نے سوچا تھا، بلکہ اس کا مکمل ابطال ہے۔ وہ Psychology of Imagination میں اس مسئلے کو وجودیاتی اطلاقات کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ وہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیسے تصور ہائیڈگر کے being-in-the-world سے تعلق پیدا کرتا ہے؟
سارتر کا اصرار ہے کہ تصور کی نفی کا عمل محض شعور کے جوہر کی امکانی وضاحت نہیں ہے۔ اسے لازماً جوہر کی تعمیری کارگزاری سمجھنا چاہیے۔ یہ محض شعور کا کوئی حصہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد ہے۔ دنیا میں ہونا ازخود تصور کی قوتوں کا انکار کرنا ہے۔ دنیا میں ہونے کا مطلب یہ کہ ہم دنیا سے شعوری طور پر آگاہ ہوں۔ یہ ہمارا ارادہ ہی ہے جو چیزوں سے ہمیں قریب یا دور کرتا ہے۔ جب تک تصور کی قوت کا انکار نہ کیا جائے حقیقی دنیا کا وجود بھی اپنے تجزیاتی کُل میں بامعنی نہیں رہتا۔
آدمی کا دنیا میں ہونا ایک آزاد سرگرمی ہے جو حقائق سے ممکنہ معنوں تک لے جاتی ہے۔ چیزوں سے اس شعوری فاصلے اور تعلق کی خوبی یہ ہے کہ آدمی اشیاء کے بیچ کوئی وجود محض بن کر نہیں رہ جاتا۔ ایسا ہو تو وہ حقیقت کی سفاکی میں بہت بری طرح کچلا جائے۔ شعور کی اس ہمہ گیر سرگرمی کو تسلیم کرنا درپیش حقیقت کی گرفت سے اپنی ازادی کا ادراک کرنا ہے۔ شعور کی یہ قوت نظرانداز کرنا وجود کی نفی کرنا ہے۔ شعور سے محروم آدمی حقیقت کی اس دنیا میں کچلا جاتا ہے، وہ اشیاء کے درمیان محض ایک چیز بن کر رہ جاتا ہے۔ تاہم وہ جب تک ہر دو طریقے سے چیزوں کو سمجھتا ہے صورت حال کو دیکھتا ہے، چیزوں سے ایک خاص تعلق میں فاصلہ پیدا کرتا ہے۔ آدمی کا شعور اس طرح وہاں تک آزاد رہتا ہے کہ جہاں تک وہ تصوراتی دنیا کو حقیقی دنیا سے دور لے جاتا ہے۔
ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ تصور شعور کی کوئی ٹھوس اور تجربی حالت نہیں ہے بلکہ یہ محض شعور ہے کہ جو اپنی آزادی سے آگاہ ہے۔ ہر ٹھوس اور حقیقی شعوری حالت اس دنیا میں بڑے تصور کے ساتھ ہے اگرچہ وہ خود کو اس طرح پیش کرتا ہے جیسے حقیقت سے دست بردار ہورہا ہو۔
یہ باور کرنا ناممکن ہے کہ کسی آدمی کا شعور تصوراتی نہ ہو، کیونکہ ایسی صورت میں شعوری حالت بے وقعت چیز بن کر رہ جائے۔ سارتر کانٹ کے ماورائی تصور کی وضاحت ’وجودی اصطلاحوں‘ میں کرتا ہے، کہتا ہے کہ یہ محض اس لیے ہے کہ آدمی ماورائی طور پر آزاد ہے، اس لیے تصور کرسکتا ہے۔ یہ غیر واقعیت کا امکان ہے کہ جو ہمیں حقیقت کی بنیاد رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی غائب دنیا کی طرف اشارہ ہے کہ جو ہمارے حال کی صورت گری کی جانب لے کر جاتی ہے اور اس سے معنی مہیا کرتی ہے۔
تاہم، روزمرہ کی وجودی زندگی آرٹ کی تصوراتی دنیا سے مختلف ہے۔ آرٹ ایک خالص بے معنویت ہے اور اسے قابلِ ادراک اشیاء کی کائنات میں جگہ نہیں دی جاسکتی۔ حُسن ایک ایسی چیز ہے جس کے ادراک کا تجربہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ اپنی فطرت میں اس دنیا کا نہیں ہے۔ اور یہ بھرپور طور پر جمالیاتی تصور اور روزمرہ فہم کا باہم اختصاص ہے۔ اس کا تجربہ کوئی تھیٹر یا کنسرٹ سے نکلتے ہوئے یا ناول بند کرتے ہوئے کرتا ہے۔ یہاں سارتر پھرکانٹ کے زیراثر نظر آتا ہے۔ یہاں وہ اصرار کرتا ہے کہ آرٹ اپنی حتمیت پر قابض ہے: بغیر مقصدیت کا مقصد۔ اس طرح وہ افلاطون جیسے اُن فلسفیوں سے انحراف کرتا ہے جنہوں نے آرٹ کی مذمت کی اور بےکار قرار دیا۔ وہ خلیج جو تصوراتی اور اصل اشیاء کے درمیان قائم ہورہی ہے، وہ جمالیاتی نظم کا اخلاقی نظام سے الگ کیا جانا ہے۔ فن کارانہ خوبصورتی وہ ہے جسے چھوا نہ جاسکے، جو ہماری پہنچ سے باہر ہو۔ اور یہی وجہ ہے، سارتر کہتا ہے کہ ہم بہ یک وقت دو کشتیوں پر سوار نہیں ہوسکتے کہ جس میں ایک طرف وہ جمالیات ہو جو غیر حقیقی ہو اور ہم اُسے پسند کرتے ہوں، اور دوسری جانب طبعیاتی حقیقت ہو۔ اس طرح اُس کی سائیکالوجی آف امیجینیشن کا خاتمہ بینگ اینڈ نتھنگنس کے لیے قضیہ بن کر سامنے آتا ہے، جو تین سال بعد 1943ء میں شائع ہوئی۔
سارتر کے مشہور وجودیاتی ’خود میں ہونے‘ اور ’خود کے لیے ہونے‘ کے درمیان دہرا پن مظہریاتی ہے۔ یہ دہرا پن حقیقی اور تصوراتی کے درمیان ہے۔ حقیقت اشیاء کی ظالمانہ حقیقتوں پر مشتمل ہے کہ جہاں شعوری طاقت خود کو حقیقت سے دور رکھنے کی آزادی میں ہے۔ مگر یہ شعوری آزادی صرف اس لیے آزادی ہے کہ ’کچھ نہیں‘ ہے۔ یہ ’خود میں ہونے‘ سے مستقل حالتِ انکار میں ہے، کہ جو یہ نہیں ہے۔ شعور کا بنیادی اور حتمی کام صرف وجود کے خالی پن ’کچھ نہیں‘ ہونے کی آزادی ہے۔ یہ داخلی اور خارجی ضروریات پوری کرنے کی آزادی ہے۔ ایسا تجزیہ کہ جو محض آزادی اور محض ضرورت پر مبنی ہے۔ ایک ایسا پروجیکٹ کہ جو خود ’خدا‘ بن جانا ہے۔ مگر سارتر اعلان کرتا ہے کہ ایسا پروجیکٹ ناممکن ہے۔ عدمیت اور وجود ناقابلِ مصالحت ہیں۔ ان میں ہر ایک کامل حالتِ انکار میں ہے۔ سارتر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ جدید بیانیے کی رو سے آدمی کا خدا بن جانا احمقوں کی جنت میں رہنا ہے۔ یہ محض ایک افسانہ ہے جو حقیقت نہیں بن سکتا۔ یہ تصور کی غیر واقعیت کا مالک ہے اور کچھ نہیں۔ یہ ایک تصوراتی شعور کا منصوبہ ’عدمیت‘ ہے۔ تصوراتی ’کچھ‘ درحقیقت ’کچھ بھی نہیں‘ ہے۔ قدر کے امکان کا یہاں وجود نہیں۔ یہ وہ ہے جو نہیں ہے۔ اسے وجود کے طور پر واضح نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح سارتر ہمیں اس نتیجے تک لے جاتا ہے کہ معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ جسے تصور کرنے والا انسان خود منصوبہ بند کرتا ہے۔ ہائیڈگر سے مختلف تعریف، جو کہتی ہے: یہ ’بے معنویت‘ وجود کا پردہ ہے، اور شعور میں اس کی سمائی ممکن نہیں۔ سارتر یہاں یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ ایک وجودی سطح پر بھی انسان اپنی ہی بے معنویت کے شیطانی چکر میں بل کھا رہا ہے۔ اُس کے لیے یہ آزادی لعنت ہے کیونکہ وہ خود اپنے لیے لعنت ہے۔ یہ احمقوں کی جنت میں رہنے والا ایک خودپسند ہے۔
انسان پرستی کا دوبارہ جائزہ
بعد کی تحریروں میں سارتر نے سائیکالوجی آف امیجینیشن اور بینگ اینڈ نتھنگنس کے حاصلات میں ترامیم کی کوشش کی۔ اس بات کا اظہار کیا کہ وجودی تصور حقیقت کی نفی میں مضمر ہے۔ یہ آدمی کو معنی سے محروم کردیتا ہے اور اخلاقی عمل ناممکن بنادیتا ہے۔ سارتر پورے عزم سے اس بات کا دفاع بھی کرتا ہے کہ اس کا فلسفہ بنیادی انسان پرستی ہے۔ وہ یہ دلیل دینے کی کوشش کرتا ہے کہ وجودی تصور ہی انسان پرستی کا تصور ہے۔
اخلاقیات کا سوال
ایگزسٹینشلزم 1946ء میں لکھی گئی۔ یہ جنگ کے بعد کا زمانہ تھا کہ جب ایسے نقادوں سے سامنا ہوا جو کہتے تھے کہ سارتر کا یہ کہنا کہ ’’آدمی ایک بے کار ہوائے نفس ہے‘‘ مغربی انسان پرست کلچر کے لیے ایک خطرہ ہے۔ مگر سارتر اس بات پر ڈٹا رہا کہ آدمی وہی کچھ ہے جو اُس نے تصور میں خلق کیا، یعنی ’’کچھ بھی نہیں‘‘ ہے، اور یہ سب اُس کے شعور کا کیا دھرا تھا۔ وہ یہاں اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ یہی بنیادی ’’بشریت‘‘ ہے جو اخلاقی انسان پرستی کی اہلیت پیدا کرتی ہے۔
سارتر کیسے اپنے اس دعوے کو قابلِ جواز ٹھیراتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ ہر انسان وہی کچھ ہے جو وہ خود کو بناتا ہے خواہ یہ جمالیاتی نوعیت کا ہو یا اخلاقی نوعیت کا ہو۔
آدمی اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ انسان کو ایسا کوئی جوہر عطا نہیں کیا گیا جو بعد میں اس کے وجود پر اس کے اعمال کا اطلاق کرسکے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے کیے کا ذمہ دار ہے۔ ہم لوگ انتخاب کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں، ان قدروں کے لیے خودمختار کہ جنہیں ہم اپنے وجود کے لیے پسند کرتے ہیں۔ آدمی وہی ہے جو کہ وہ ہے، لہٰذا ایسا کچھ نہیں ہے کہ وہ ایسا پیدا ہوا یا ویسا پیدا ہوا، یا یہ کہ اس کے خارجی ماحول نے اس کو ایسا بنایا یا ویسا بنایا، یا یہ کہ سماج نے اسے کسی خاص صورت حال میں ڈھال دیا۔ آدمی جو ہے وہ وہی ہے، اور اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اس نے ایسا ہونے کا انتخاب کیا اور وہ ہمیشہ اپنا انتخاب بدلنے پر قادر ہے۔(جاری ہے)