پانچواں باب: ایک صہیونی کی گواہی
قانونی امور سے متعلق حصے میں گولڈ اسٹون رپورٹ نے اس امر کی تصدیق کی کہ اسرائیلی حکومت اور فوج نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ روایتی اور خصوصی جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی
اپریل 2009ء میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن تشکیل دیا جس کا مقصد آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب کا سراغ لگانا تھا۔ اس مشن کی سربراہی جنوبی افریقہ کی آئینی عدالت کے سابق جج اور سابق یوگو سلاویہ اور روانڈا کے لیے انٹرنیشنل کرمنل ٹریبونلز کے سابق وکیلِ استغاثہ رچرڈ گولڈ اسٹون کو سونپی گئی۔ ابتدا میں اس مشن کا واحد مقصد آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران صرف اسرائیلی افواج کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کا جائزہ لینا تھا، تاہم گولڈ اسٹون نے یہ شرط رکھی کہ اس قضیے کے تمام فریقوں کی طرف سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے گولڈ اسٹون سے کہا کہ وہ اس مشن کے فرائض کا تعین خود کریں۔ گولڈ اسٹون کے ہاتھوں مشن کے تمام فرائض ضبطِ تحریر میں لائے گئے اور کونسل کے صدر نے اس کی منظوری دی۔ رچرڈ گولڈ اسٹون نے بعد میں کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے قائم کردہ مشن کے تحت جو کچھ بھی کرنے کی ذمہ داری میں نے خود متعین کی اُس سے رُو گردانی ممکن نہ تھی۔ ستمبر 2009ء میں گولڈ اسٹون رپورٹ جاری کی گئی۔ یہ رپورٹ محض آپریشن کاسٹ لیڈ سے متعلق زیادتیوں ہی کے بارے میں نہیں بلکہ فلسطینی علاقوں پر قبضے کے حوالے سے بھی اسرائیل کے لیے فردِ جرم سے کم نہ تھی۔
گولڈ اسٹون رپورٹ مرتب کرنے والے اس نتیجے پر پہنچے کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیلی حکومت اور فوج نے جو کچھ بھی کیا وہ اضطراری کیفیت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ منصوبہ سازی کے تحت تھا، یعنی جو کچھ بھی اس آپریشن کے دوران ہوا وہ پہلے سے طے شدہ تھا اور اُس کی جزئیات تک کا تعین کردیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق آپریشن کاسٹ لیڈ ایک ایسی فوجی ڈاکٹرین کے تحت کیا گیا جس میں فریقِ ثانی کو بے بس و تنہا کرنے کے بعد اُس کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان فوجی اور سیاسی مقاصد کے حصول کا ایک جائز ذریعہ تھا۔ اور یہ کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کی منصوبہ سازی اِس طور کی گئی تھی کہ غیر متحارب آبادی کو زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ غیر متحارب شہریوں کے لیے متوقع تناسب سے کہیں زیادہ تباہی ایک ایسی دانستہ، منظم پالیسی کے بطن سے ہویدا ہوئی جس کا مقصد متحارب فریق کی غیر متحارب شہری آبادی کی شدید تذلیل کے سوا کچھ نہ تھا۔
اسرائیل کا دعویٰ تھا کہ اُس نے حماس کی طرف سے کیے جانے والے راکٹ حملوں سے مؤثر دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے یہ آپریشن کیا، مگر گولڈ اسٹون رپورٹ کے مطابق اِس آپریشن کا اصل مقصد کچھ اور تھا۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کا بنیادی مقصد بظاہر یہ تھا کہ فلسطینی شہریوں کو ایسے حالات سے دوچار کردیا جائے کہ وہ یا تو مسائل اور مشکلات سے تنگ آکر اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوجائیں یا پھر حماس کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں۔ ایسا لگتا تھا کہ فلسطینیوں کو محض اس بات کی سزا دی گئی کہ وہ سخت نامساعد حالات کا سامنا کرنے کی سکت رکھتے تھے اور انہوں نے حماس کی حمایت ترک نہیں کی تھی۔ اس آپریشن کے تحت اُنہیں حماس کی حمایت سے دست بردار ہونے پر مجبور کرنا بھی ایک بنیادی مقصد تھا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ نے لکھا کہ اسرائیلی فوج کے اس آپریشن کا مقصد بظاہر یہ تھا کہ شہری آبادی کی تادیب کی جائے، اُسے ڈرایا جائے، اُس کی تذلیل کی جائے، اُس کی معاشی قوت میں نمایاں حد تک کمی کردی جائے تاکہ وہ خودانحصاری کے ساتھ جینے کی پوزیشن میں نہ رہے اور ہر وقت یہ محسوس کرے کہ وہ نشانے پر ہے اور دوسروں پر تکیہ کیے بغیر گزارا نہ ہوگا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ نے سخت نامساعد حالات میں بھی انتہائی غیر معمولی عزم اور احترام کا مظاہرہ کرنے پر فلسطینیوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔
قانونی امور سے متعلق حصے میں گولڈ اسٹون رپورٹ نے اس امر کی تصدیق کی کہ اسرائیلی حکومت اور فوج نے عالمی سطح پر تسلیم شدہ روایتی اور خصوصی جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ ارادی طور پر لوگوں کو اذیت دی گئی، اُن سے غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں کو ذہنی اور جسمانی تکالیف سے دوچار ہونا پڑا۔ جس قدر مالی نقصان ہوا اُس کا عسکری سطح پر کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ بہت کچھ محض خواہشات کے زیرِتصرف رہتے ہوئے کیا گیا۔ انسانوں کو ڈھال کے طور پر بروئے کار لانے کی بھی کوئی ضرورت نہ تھی مگر ایسا کیا گیا اور کئی مواقع پر کیا گیا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اسرائیلی حکومت اور فوج نے بہت بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو معاشی جدوجہد کے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کی تاکہ اُن کے حالات مزید خراب ہوجائیں، اُن کے لیے نقل و حرکت مشکل بنادی گئی تاکہ وہ اپنے ہی علاقوں سے نہ نکل سکیں اور نہ دوبارہ داخل ہوسکیں۔ اُن کے لیے قانونی طریقے اختیار کرکے انصاف کا حصول بھی انتہائی دشوار بنادیا گیا۔ گولڈ اسٹون رپورٹ نے فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے سراسر غیر انسانی سلوک اور بہت بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کی ذمہ داری اصلاً اسرائیلی فوج اور اسرائیلی اشرافیہ پر عائد کی۔ رپورٹ میں درج ہے کہ جو کچھ بھی غزہ کے طول و عرض میں ہوا اُس کی ذمہ داری اُنہی پر تو عائد ہوتی ہے جنہوں نے آپریشن کاسٹ لیڈ کی منصوبہ سازی کی، حکمتِ عملی تیار کی اور اِس آپریشن کی نگرانی بھی کی۔ رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ حماس کی طرف سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ برسانے کے نتیجے میں وہاں ہونے والی ہلاکتیں، مالی نقصان اور ذہنی اذیت بھی کسی اعتبار سے جنگی جرائم سے کم نہ تھی۔
گولڈ اسٹون رپورٹ مرتب کرنے والوں پر جانب داری سے کام لینے کا الزام بھی عائد کیا گیا کیونکہ اِس میں حماس کے راکٹ حملوں کا ذکر ضمناً کیا گیا ہے۔ بات درست ہے کیونکہ حماس کا ذکر واقعی ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ بات یہ ہے کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران ہر 110 فلسطینیوں پر ایک اسرائیلی مارا گیا اور ہر6 ہزار فلسطینی مکانات کے مقابلے میں ایک اسرائیلی مکان تباہ ہوا۔ جب جانی و مالی نقصان کا تناسب یہ ہو تو حماس کی زیادتیوں کا یہ ذکر بھی اُس کے استحقاق سے زیادہ ہے! حقیقت یہ ہے کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران فلسطینیوں کے مقابلے میں اسرائیلیوں کا نقصان نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب اسرائیلی مظالم کا کچھ زیادہ ہی ذکر کرنے کا سوال اٹھایا گیا تو گولڈ اسٹون نے تسلیم کیا کہ اس قضیے میں اسرائیل ایک باضابطہ فوج کا حامل ملک تھا جس کے پاس بحریہ بھی تھی اور فضائیہ بھی۔ اُس کے پاس جدید ترین ہتھیار تھے جو اُس نے محض حاصل نہیں کیے تھے بلکہ بنائے تھے، اور دوسری طرف حماس تھی جس کے پاس انتہائی دقیانوسی قسم کے ہتھیار تھے جن سے وہ پوری قطعیت کے ساتھ کسی بھی چیز کو تباہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
گولڈ اسٹون رپورٹ نے اپنے آپ کو آپریشن کاسٹ لیڈ تک محدود نہیں رکھا بلکہ فلسطینی علاقوں پر طویل مدت سے جاری قبضے کے دوران فلسطینیوں سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کی بھی بات کی۔ اس رپورٹ نے فلسطینیوں کو مختلف علاقوں میں تقسیم کرنے اور اُن کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کیے جانے کے حوالے سے بھی اسرائیل پر شدید تنقید کی۔ رپورٹ نے فلسطینی علاقوں اور اسرائیل میں فلسطینیوں سے اداروں کی سطح پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی بھی مذمت کی۔ رپورٹ میں غربِ اردن میں اسرائیلی قابض فوجیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں (اور اسرائیلیوں) کو کچلنے اور غربِ اردن کے علاقوں میں شہریوں پر اسرائیلی فوجیوں اور یہودی آباد کاروں کے حملوں اور اِن حملوں کے حوالے سے کوئی قانونی کارروائی نہ کیے جانے کی بھی مذمت کی گئی۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں سیکڑوں بچوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کو زیرِ حراست رکھے جانے اور اُن پر تشدد ڈھائے جانے کی بھی مذمت کی گئی۔ رپورٹ کے مرتبین نے مقبوضہ بیت المقدس سے فلسطینیوں کی خاموش منتقلی اور غربِ اردن کی زمین کے 10 فیصد کو اسرائیل سے ملحق کرنے کی بھی مذمت کی۔ یہ اقدام اقوامِ متحدہ کے منشور کی رُو سے کسی بھی آزاد علاقے کی سرزمین کو غصب کرنے کے زُمرے میں آتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی مقبوضہ غربِ اردن میں یہودی بستیوں کی توسیع پر تُلا رہا ہے، فلسطینیوں کی زمینیں ہتھیائی جاتی رہی ہیں اور اُن کی املاک کو مسمار کیا جاتا رہا ہے۔ گولڈ اسٹون رپورٹ نے متعین کیا کہ اِن میں سے چند پالیسیاں صریحاً جنگی جرائم کے زُمرے میں آتی ہیں اور فلسطینیوں کو حقِ خود ارادیت دینے سے بھی گریز کیا جاتا رہا ہے۔
گولڈ اسٹون رپورٹ نے فلسطینی علاقوں کے حوالے سے اسرائیل کو قابض قوت کی حیثیت سے شناخت کیا۔ مظالم ڈھائے جانے اور انصاف کا حصول یقینی بنائے جانے کے حوالے سے اختلافات بالکل نمایاں ہیں۔
گولڈ اسٹون رپورٹ نے اسرائیل اور حماس کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینے کے حوالے سے متعدد تجاویز بھی پیش کیں۔ 1949ء کے جنیوا کنونشن کے تحت جن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اُن کی خلاف ورزی کے ٹھوس شواہد میسر ہونے کی صورت میں آزاد ریاستیں ٹریبونلز کے تحت کارروائیاں کرتی ہیں اور زیادتی کے مرتکبین کو سزائیں بھی سناتی ہیں۔ جہاں کہیں بھی ایسی تحقیقات ہوں وہاں لازم ہوجاتا ہے کہ تحقیقات کے نتیجے میں مجرم ٹھیرنے والوں کو انصاف کے تسلیم شدہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق سزا سنائی جائے۔ گولڈ اسٹون رپورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اسرائیل اور حماس دونوں کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے حوالے سے شفاف اور غیر جانب دار تحقیقات کریں۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی فریق ایسا کرنے میں ناکام رہے تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اس معاملے کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں بھیج دے۔ گولڈ اسٹون رپورٹ میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے تحت فلسطینیوں کو اُن کے مالی نقصان کا معاوضہ ادا کرے۔ اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر، گولڈ اسٹون رپورٹ نے کہا کہ چوتھے جنیوا کنونشن کے فریقین (رکن ممالک) مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اس کنونشن کو نافذ کریں اور اِس کا احترام یقینی بنائیں۔ اس رپورٹ نے اسرائیل پر زور دیا کہ فلسطینی علاقوں میں معاشی سرگرمیوں کا بگاڑ روکنے کے اقدامات کرے، ناکہ بندی ختم کرے، فلسطینیوں کے لیے نقل و حرکت آسان بنائے، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں ختم کرے اور اُن کے لیے روزمرہ زندگی آسان بنائے۔ گولڈ اسٹون رپورٹ نے حماس پر بھی زور دیا کہ وہ اسرائیلی شہریوں اور اُن کے مفادات پر حملے بند کرے اور مغوی اسرائیلی فوجی گیلد شیلت کو رہا کرے۔
گولڈ اسٹون رپورٹ کو ’’تاریخی حقائق سے کِھلواڑ‘‘ اور گولڈ اسٹون کو انصاف کے حقیقی تقاضوں سے نابلد چھوٹا آدمی قرار دیتے ہوئے اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کاسٹ لیڈ کے نتیجے میں جنوبی لبنان کے لوگوں کو حزب اللہ کی دہشت گردی سے نجات ملی ہے، غربِ اردن میں معاشی بہتری آئی ہے اور غزہ کے شہریوں کو دوبارہ نارمل زندگی بسر کرنے کا موقع ملا ہے۔ وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے گولڈ اسٹون رپورٹ کو کنگارو کورٹ قرار دیا، جبکہ وزیر دفاع ایہود بارک نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ جھوٹ، مسخ حقائق اور جانب دارانہ تجزیے کا شاہکار ہے۔ بنیامین نیتن یاہو نے بعد میں کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جنگ کے قوانین تبدیل کرنا پڑیں گے۔ اسرائیلی تاریخ دان زیو اسٹرنہیل نے فوری سوال داغا ’’کیا نہتے اور گِھرے ہوئے شہریوں پر آزادانہ بمباری کی اجازت؟‘‘ اسرائیلی پالیمنٹ کینیسیٹ کے اسپیکر ریووِن رِولِن نے کہا: گولڈ اسٹون رپورٹ کی نئی اور ناقابلِ قبول اخلاقیت مغربی تہذیب میں ایک نئے دور کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتی ہے جیسا کہ 1938ء میں میونخ سمجھوتے کے تحت ہوا تھا۔ جب تک نفرت کی لہر ختم نہیں ہوگئی تھی تب تک عہدے پر موجود یا اُس سے ہٹ جانے والے ہر سیاست دان نے یہودیوں سے نفرت کی گردان کی تھی۔ سابق وزیر خارجہ زِپی لِونی نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ گناہ کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ ایوِگڈور لائبرمین نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کی کوئی حقیقی اور قانونی قدر و قیمت نہیں ہے۔ نائب وزیر خارجہ ڈینی آیالون نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ دہشت گردی کا جواز پیدا کرنے کی کوشش ہے اور اِس کے نتیجے میں بین الاقوامی قانون کے سرکس میں تبدیل ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ (جاری ہے)